Khabar Mantra
محاسبہ

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

6 دنوں سے بنگال میں کہرام مچا ہوا ہے۔ طبی نظام درہم برہم ہے۔ اسپتالوں کے آگے مریض بے حال ہیں۔ 25 سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ 800 سے زائد سرکاری ڈاکٹروں نے اجتماعی استعفی دے دیا ہے۔ کولکاتا میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کی آگ پورے ملک میں پھیلتی جا رہی ہے۔ کیرالہ، دہلی، ممبئی، پونے، پٹنہ، رائے پور، بھوپال، جے پور وغیرہ 28شہروں میں بنگال کے ڈاکٹروں کی حمایت میں طبی نظام متاثر ہے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن نے بھی کولکاتا کے ڈاکٹروں کی حمایت میں 17جون سے ہڑتال پر جانے کا اعلان کر دیا ہے۔ پرائیوٹ ڈاکٹروں کی بھی ڈسپنسریاں بند ہونے سے بھی مریضوں کی کیا حالت ہوگی۔ اس پر نہ تو بنگال کی سی ایم سوچ رہی ہیں نہ ہی ہڑتالی ڈاکٹروں کو اپنی مسیحائی کا کچھ خیال آ رہا ہے۔ بنگال میں دونوں طرف انا کی جنگ جاری ہے۔ ممتا بنرجی کی تمام تر وارننگ اور کام پر لوٹ ا ٓنے کی اپیل بے سود ثابت ہو رہی ہے۔ بنگال میں تمام تر طبی خدمات ٹھپ ہونے کے باجوود ممتا بنرجی جھکنے کو تیار نہیں ہیں ڈاکٹر بھی بضد ہیں انہوں نے بھی ہڑتال ختم کرنے کے لئے 6 شرائط رکھی ہیں لیکن اس سے قبل ممتا سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ ڈاکٹروں کی تحریک کی آگ کو بجھانے کے بجائے اس میں تیل ڈالنے کی بھی سیاست زیادہ متحرک ہے۔ کولکاتا کی آگ بجھائی جا سکتی تھی مگر سیاست کے بازی گروں کو نہ انسانی جانوں کے تلف ہونے سے مطلب ہے نہ انسانی خدمات کوئی معنی رکھتی ہیں۔ اقتدار، انا، اپنی جیت اور اپنا مفاد آج کی سیاست کا محور ہے۔ ممتا بنرجی تھوڑا جھک جاتیں تو معاملہ تھوڑا حل ہو چکا ہوتا۔ ڈاکٹروں کو چار گھنٹے میں کام پر لوٹنے کی دھمکی نے آگ میں تیل کا کام کیا۔ حالات یہ ہیں کہ پورا بنگال ہی نہیں ملک پریشان ہے۔ صفدر جنگ، ایمس وغیرہ میں او پی ڈی کی خدمات درہم برہم ہیں۔ دہلی کے 10 ہزار سے زائد ڈاکٹر بھی ہڑتال پر ہیں۔

واضح ہو کہ گزشتہ 10 جون کو کو لکاتا کے این آر ایس میڈیکل کالج میں دو انٹرن ڈاکٹروں کی ایک مریض کی موت کے بعد گھر والوں نے مارپیٹ کی اور پھر طوفان اٹھ کھڑا ہوا ممتا حکومت کو اسی وقت اس معاملہ کو حل کر لینا چاہیے تھا لیکن افسوس ڈاکٹروں کے معاملہ میں بھی سیاسی بساط بچھ گئی۔پارلیمانی الیکشن میں جیت سے پُر جوش بی جے پی کو بھی ہاتھ سینکنے کا موقع مل گیا۔ ممتا بنرجی کا سخت رویہ ڈاکٹروں پر کارروائی کی دھمکی سے حالات مزید بگڑ گئے، جس میڈیکل کالج میں مارپیٹ ہوئی تھی وہاں کی پرنسپل سمیت کئی سینئر ڈاکٹروں نے بھی احتجاج کے طور پر استعفی دے دیا۔ آج پورے ملک میں ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ حالانکہ یہ صحیح ہے کہ ڈاکٹروں کی ہڑتال کوئی نیا سلسلہ نہیں ہے لیکن جہاں بھی ڈاکٹروں کی ہڑتال ہوتی ہے اس میں جونیئر ڈاکٹروں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ مریضوں سے الجھنا، ان کے دکھ درد کو نہ سمجھنا یہ آج کے جونیئر ڈاکٹروں کا حال ہے۔ پٹنہ، گورکھپور وغیرہ کے اسپتالوں میں ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن سے طبی خدمات متاثر ہو جاتی ہیں۔ حکومت کو بھی سنجیدگی اور تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ عام آدمی کو طبی خدمات فراہم کرنے میں رکاوٹ ایک طرح سے جرم ہے اور اس جرم میں حکومت بھی شامل ہے اور کسی حد تک ڈاکٹر بھی ملوث ہیں۔ ڈاکٹروں کو بھی تھوڑا لو اور تھوڑا دو کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے مگر کولکاتا کے ڈاکٹر اپنی شرطوں سے قبل ممتا بنرجی سے معافی مانگنے پر بضد ہیں اور اسی ضدی رویہ میں سیاست کی بُو بھی محسوس کی جا رہی ہے۔

بنگال میں ڈاکٹروں کی ہڑتال اور تشدد کو لے کر بی جے پی کے کئی لیڈران صدر راج کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ریاست کی صورت حال پر گورنر بنگال کیسری ناتھ ترپاٹھی بھی امت شاہ سے مل چکے ہیں۔ مرکز نے بنگال حکومت سے رپورٹ طلب کرلی ہے اور ایڈوائزری بھی جاری کر دی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وزارت داخلہ نے حالیہ تشدد کی رپورٹ کے ساتھ ساتھ 2016 تک کے تشدد کے واقعات کی رپورٹ بھی مانگی ہے۔ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ 2016 میں بنگال میں تشدد کے 506 واقعات ہوئے جبکہ 2018 میں یہ تعداد بڑھ کر 1035 ہوگئی اور 2019 میں 773 واقعات ہو چکے ہیں۔ بنگال میں سیاسی قتل پورے ملک کے لئے فکر کا موضوع ہے۔ سیاسی برتری کی جنگ میں جس طرح بنگال لہولہان ہو رہا ہے اس میں وہاں کے مسلمانوں کا سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے جگت دل اور کانکی نارا کے فسادات اس بات کے گواہ ہیں کہ بنگال کے مسلمانوں کو ممتا حامی ہونے کی سزا مل رہی ہے۔ بنگال میں 2016 میں 36 افراد سیاسی قتل کا شکار ہوئے 2018 میں 96 لوگوں کے مارے جانے کی رپورٹ ہے اور 2019 میں اب تک 26 افراد سیاسی انتقام کا شکار ہوئے۔ یہ سب بنگال میں چل ہی رہا تھا کہ اب ڈاکٹروں کی ہڑتال نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا بنگال میں صدر راج کا نفاذ ہوگا۔ ممتا کے بنگال کو بھگوا کرن کرنے کے لئے جو سازشیں چل رہی ہیں وہ کامیاب ہوں گی مگر سیاسی مبصرین کا اس بارے میں خیال برعکس ہے۔ مغربی بنگال میں نہ تو ممتا کی حکومت گرائی جائے گی، نہ ہی صدر راج کا نفاذ ہوگا، نہ ہی وہاں ضمنی انتخابات ہوں گے بلکہ آئندہ اسمبلی انتخابات تک بنگال کو اتھل پتھل کے اس نہج پر پہنچا دیا جائے گا جہاں ممتا عوامی بیزاری کا شکار ہوں گی، مسلمانوں کے ووٹ بھی بے اثر ہوں گے مگر ممتا بھی کم شاطر سیاست داں نہیں ہیں، ان کی ضد مشہور ہے۔ انہوں نے اس بحرانی کیفیت میں بھی ہمت کا دامن نہیں چھوڑا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم بنگال کو گجرات نہیں بننے دیں گے۔ انہوں نے بنگال میں رہنے والوں کو بنگلہ بولنا لازمی قرار دیا ہے۔ علاقائیت کی اس سیاست سے ممتا بی جے پی کو شکست دیں سکیں گی یہ الگ موضوع بحث ہے مگر ممتا کو فی الحال ڈاکٹروں کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ضد کی سیڑھی سے چند قدم نیچے اترنا چاہیے۔

ڈاکٹروں کے مسائل کو ہمدردی سے دیکھنا چاہیے۔ آج کے پراگندہ ماحول میں بڑھتی آبادی، بیماریوں کا جال، عوامی صحت کا سوال اور ڈاکٹروں سے امید بھری نظریں انہیں بہت دباؤ میں رکھتی ہیں۔ کام کی زیادتی اور تناؤ کے سبب بعض اوقات مریضوں سے بد اخلاقی کے مناظر بھی سامنے آتے ہیں۔ مرض ٹھیک نہ ہونے یا موت کا ٹھیکرا ڈاکٹروں کے سر پر تھوپا جاتا ہے لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ معالج اور مریض کا رشتہ مقدس اور روحانی ہوتا ہے. ڈاکٹر کی ایک مسکراہٹ آدھے مرض کو رفع کر دیتی ہے۔ اگر ہم تشدد کے ذریعہ ڈاکٹر کی مسکراہٹ چھین لیں تو پھر اس میں اور عام آدمی میں کای فرق رہ جائے گا۔ بلاشبہ آج ڈاکٹروں کو بھی تحفظ کی ضرورت ہے۔ ان کا بھی سمّان ہونا چاہیے لیکن ڈاکٹروں کو بھی ڈیوٹی کے وقت خود کو صرف ڈاکٹر سمجھنا چاہیے مریض کو مطمئن کرنا بھی نیکی ہے۔ ڈاکٹر مریض کے لئے مسیحا ہوتا ہے۔ خاص کر انٹرن اور جونیئر ڈاکٹروں کی خاص کردارسازی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ انہیں کی وجہ سے فتنہ فسادات کھڑے ہوئے۔ میری دعا ہے اور مجھے امید بھی ہے کہ بنگال کے ڈاکٹروں کی ہڑتال کا کوئی حل نکل آئے گا اور اس میں سیاست کا اقبال اب مزید بلند نہیں ہوگا۔ بنگال کی آگ جلد بجھ جائے گی۔ مریضوں کو راحت ملے گی، ورثا انہیں دعاؤں سے نوازیں گے۔ بقول فیض احمد فیض ؔ:

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close