Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

سائنس کا محرک اسلام

اسلام ایک مکمل دین ہی نہیں، ایک مکمل نظام حیات بھی ہے۔ اسلام وہ پہلا مذہب ہے، جہاں حصولِ علم کو فرض قرار دیا گیا۔ ہمارے رسول اکرمؐ نے حصولِ علم کے لئے چین تک جانے کی تلقین کی تھی۔ چین اس دور میں تہذیب و تمدن کا سب سے بڑا مرکز تھا اور اسی تلقین کا نتیجہ تھا کہ چھٹی صدی سے لے کر گیارہویں صدی تک مسلمانوں نے ہر شعبہ حیات میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے، اس نے دنیا کو علم سائنس سے بھی روشناس کرایا اور علم و ادب سے بھی آگہی دی۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان دین کے حصول کے ساتھ عصری علوم پر بھی غلبہ حاصل کرنے کی سعی کر رہے تھے۔نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں بڑے بڑے سائنسداں پیدا ہوئے۔ ابنِ سینا، القندی، ابنِ حشیہ، الطوسی، الحسن، الخوارزی، البیرونی وغیرہ وغیرہ تک ایسے عظیم سائنسدانوں کی فہرست ہے، جس سے اسلام کا تعلق براہِ راست سائنس سے نظر آتا ہے۔ لیکن وقت کا عجیب المیہ ہے کہ بارہویں صدی کے بعد جب مسلمانوں کا زوال شروع ہوا، مغرب کا اقبال بلند ہوا تو مسلمانوں کی علمی خدمات ایک طرح سے سرقہ کرلی گئیں۔ بڑے بڑے مغربی سائنسدانوں نے اسی سرقے کی بنیاد پر اپنی علمی سائنس کا پرچم بلند کیا۔ اسلام اور مسلمانوں سے عصبیت اور نفرت کی وجہ سے سائنس کے اصل موجدین کا کارنامہ مغرب نے اُچک لیا اور اسی اچکے پن کے بل بوتے پر یورپ اور امریکہ اپنی تحقیق اپنی تشخیص اور اپنی ترقی کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ مسلم سائنسدانوں کے کارناموں پر دھول ڈال دی گئی ہے، ان کا نام بس خال خال تاریخوں میں ہی نظر آتا ہے۔ ابنِ سینا کی میڈیکل تحقیق پر آج بھی طبی سائنس کا دارومدار ہے۔ آج پانچ سو سال کے بعد بھی ابن سینا کی کتاب پر مربوط جدید میڈیکل سائنس کی پوری عمارت قائم ہے۔ آنکھوں کی سرجری کا محرک اسلام ہے لیکن بڑے سلیقے سے مسلمانوں کے اس کارنامے کو ہتھیا لیا گیا اور تو اور ایک چیز پر مغرب کا قبضہ نہیں ہو سکا ہے، تو وہ ہے طبِ اسلامی کا حجامہ۔ یہ وہ علاج ہے جو جسم کے اندر قوتِ مدافعت کو بڑھاتا ہے۔ اب یورپ نے اس سمت بھی دھیان دینا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں دہلی میں اس پر باضابطہ سیمینار ہوا۔ مغرب اس سمت میں بھی اب ہاتھ پاؤں پھیلانے کی سعی کر رہا ہے۔ المختصر یوں کہ اسلام نے میدانِ طب سے لے کر ریاضی، علم فلکیات، علم کیمیات، علم نباتات، علم طبعیات وغیرہ وغیرہ تک جو خزانے چھوڑے تھے مغرب نے بڑے سلیقے سے انھیں اپنے قبضے میں لے لئے اور آج اسی کھلے سرقہ کے باعث مغرب علم و فن میں چودھری بنا بیٹھا ہے۔ معروف مورخ، محقق، پروفیسر جم الخلیلی کے عمیق مطالعہ اور تحقیق کی روشنی میں زیرِ نظر مضمون مسلمانوں کے عظیم کارنامے اور اس کے مغرب کے ذریعے ہتھیا لئے جانے کی داستانِ درد پر محیط ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب مسلمانوں کے عظیم سائنسدانوں پر تحقیق کی جائے اور دنیا کے سامنے بتایا جائے کہ اسلام نہ صرف ایک مکمل دین ہے بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات بھی ہے، جو کائنات کو مسخر کرنے کی راہِ ہموار کرتاہے۔

پروفیسر جم الخلیلی نے تاریخی کتب کے اوراق کا نہایت عرق ریزی اور عمیق مطالعہ کے بعد دس سال قبل یہ انکشاف کیا تھا کہ جدید سائنس میں اسلام کی نہایت زبردست حصہ داری ہے۔ سن بلوغت پہنچنے پر انہیں ابن سینا، القندی اور ابن الہیشم جیسے عظیم دانشوروں اور ماہرین سائنسدانوں کے بارے میں تاریخ کی کتابوں سے جانکاری ملی تھی، لیکن ایک مرتبہ آپ یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہو جائیں گے کہ سائنس کی کتابوں میں ان کے ناموں کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ صرف وہ تاریخ کی کتابوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں پھر بھی وہ سائنس داں ہونے کے ساتھ جدید سائنس دانوں میں سب سے اعلی مرتبہ رکھتے ہیں۔ آج کل ہمیں جو سائنس پڑھائی جاتی ہے اس میں صرف مغربی سائنسدانوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور سائنس کی تمام ایجادات کو مغربی ممالک سے منسوب کیا جاتا ہے۔ حالانکہ نشاط ثانیہ کے ماہر فلکیات کوپرنکس (Copernicus) کے بارے میں کسی بھی طرح کا شک ظاہر نہیں کیا جا سکتا، جنہوں نے اس عقیدہ کا انکشاف کیا تھا کہ کائنات میں زمین مرکز میں نہیں ہے، جس کی وجہ سے جدید دور کے علم فلکیات کے شعبہ میں انقلاب آگیا تھا لیکن عام طور پر یہ بات کسی کے علم میں نہیں ہے کہ صدیوں قبل جن ماہرین فلکیات نے تحقیق کی تھی کوپرنکس نے ان سے استفادہ کیا تھا۔

درحقیقت انہوں نے 14ویں صدی کے ماہر فلکیات شام کے ابن الشتیر (Ibn-Al Shatir) اور 13ویں صدی کے ایرانی ماہر فلکیات الطوثی (Al-Tusi) کے مسودات سے راست طور پر خاکوں (Diagrams) اور سیاق و سباق (Calculations) سے نظریات اخذ کئے تھے۔ چنانچہ پروفیسر جم الخلیلی نے سائنس اینڈ اسلام (Science and Islam) کے عنوان سے بی بی سی پر تین حصوں پر مبنی تواتر کے ساتھ ایک سیریز میں ناظرین کو مشرق وسطیٰ کے تعلق سے اس بات سے واقف کرانے کے لئے جامع روشنی ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ سائنس کی تاریخ کے بارے میں ہمیں جو تاریخ وار (Chronology) ذخیرہ ملا ہے، اس سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ قدیم یونان اور یوروپ میں نشاط ثانیہ کے درمیان سائنسی ایجادات میں کوئی خاص یا بڑی پیش رفت نہیں ہوتی تھی۔ اسی دوران جیسا کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ تاریک ادوار (Dark Ages) میں مغربی یوروپ سمیت بقیہ دنیا تقریباً ایک ہزار برسوں تک ناخواندگی کے سبب کمزوری کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ 700برسوں پر محیط مدت تک سائنس کی بین الاقوامی زبان عربی ہی رہی تھی کیونکہ قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا تھا۔ چونکہ قرآن کریم عربی زبان میں ہے چنانچہ وسیع ترین اسلامی سلطنتوں کی سرکاری زبان بھی عربی رہی تھی لہذا 8 ویں صدی میں ہندوستان سے لے کر ہسپانیہ (Spain) تک عربی ایک مقبول ترین زبان ہو گئی تھی۔ الخلیلی نے کہا تھا کہ ’’جب میں نے سنہری دور (Golden Age) میں پہلی مرتبہ اسلام کی سائنٹفک حصولیابیوں کے بارے میں بتانے کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس انکشاف کی وجہ سے لوگوں میں اتنی دلچسپی پیدا ہو جائے گی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ’’ یہ بڑے دکھ کی بات ہے، جس میں شک کرنے کی قطعی گنجائش نہیں ہے کہ اسلام کے تعلق سے جو بھی بات غیر مسلموں کے کانوں تک پہنچتی ہے وہ اسے نہایت آسانی کے ساتھ جدید منفی پہلو سے منسوب کر دیتے ہیں۔ یہ ایک معقول، روادار اور روشن خیال سیکولر معاشرہ کے لئے مغربی ممالک کا منفی نظریہ ہے۔ بے شک چاہے یہ ان کا یہ نظریہ کمزور نہ ہو پھر بھی اس بات کا اعتراف کرنے میں دشواری پیش آتی ہے کہ ایک ہزار سال قبل صورتحال اس کے بالکل برعکس تھی۔‘‘

الخلیلی کا یہ بھی کہنا تھا کہ وسطی 8ویں اور وسطی 11ویں صدی کے درمیان وسیع ترین اسلامی سلطنت کا سنہری دور تھا کیونکہ زیادہ تر لوگ عربی راتوں (Arabian Nights) کی رومانی کہانیوں کے توسط سے معروف ہو گئے تھے لیکن ان کہانیوں سے اس دور کی جانب بھی ایک اشارہ ملتا ہے، جب بغداد شہر دنیا میں نصف ہزارہ تک آرٹ، کلچر اور سائنس کے شعبہ میں ترقی کرنے کا ایک مرکز رہا تھا۔ عربی سائنس کی وراثت آج بھی واضح طور پر انگریزی زبان کے الفاظ جیسے الجبرا (Algebra)، الگورزم (Algorithm) اور الکالی (Alkali) میں موجود ہے۔ پروفیسر جم الخلیلی کا کہنا ہے کہ آج سائنس میں جو بھی ایجادات ہوتی ہیں، ان ہی اصطلاحوں کی بنیاد پر ہوتی ہیں لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آج قرون وسطی کی اس اسلامی وراثت سے مغرب میں بہت کم لوگ یہاں تک کہ سائنسداں بھی واقف نہیں ہیں۔

ایک ماہر نیو کلیائی طبیعات (Nuclear physiest) الخلیلی 1962میں بغداد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد عراقی اور ان کی والدہ انگریز خاتون تھیں۔ دریں اثناء، ان کے اہل خانہ نے عراق سے ہجرت کر لی تھی۔ انہوں نے خود ہی اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ ’’شروع سے ہی سائنس کی طر ف میرا بہت زیادہ رجحان تھا، جیسے جیسے میرا مطالعہ بڑھتا گیا تو میں نے یہ محسوس کیا کہ میں مغربی روایات کا ایک مکمل حصہ بن چکا ہوں۔ نیوٹن (Newton) اور آئنسٹائن(Einstein) جیسے سائنسدانوں کے ناموں سے مجھے تحریک ملی تھی۔‘‘ اس کے بعد انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ اپنے ہی سائنٹفک ورثہ کے حصہ کو نظر انداز کر رہے تھے۔ اس تعلق سے ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے آج بھی عراق میں اپنے اسکول کے دنوں کی یاد آتی ہے جب ہمیں سنہری دور میں اسلامی اسکالروں سے متعلق تعلیم دی جاتی تھی۔‘‘ 12ویں صدی میں بغداد، دمشق، قاہرہ اور قرطبہ میں سائنس سے وابستہ بہت سی ایجادات میں اضافہ ہوا تھا۔ سائنس اینڈ اسلام عنوان سے اپنی تحقیقی سیریز میں الخلیلی نے تاریخ میں پوشیدہ ان حقائق سے پردہ اٹھایا تھا اور ان مشاہیر مسلم سائنسدانوں کی ایجادات کا جائزہ لیا تھا، جنہوں نے سائنس کے شعبہ میں کارہائے نمایاں انجام دیئے تھے۔ وہ ایک سوال کا جواب بھی دینا چاہتے تھے، جو کہ اس طرح تھا کہ ’’کیا قرون وسطیٰ میں ایسا بھی کوئی مسلم سائنسداں تھا، جن کے بارے میں اس طرح سے ذکر کیا جائے جیسا کہ ہم گیلیو، نیوٹن یا آئنسٹائن کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ ‘‘تو الخلیلی کی سیریز میں اس کا جواب ’ہاں‘ میں ملتا ہے۔ مثال کے طور پر آئزک نیوٹن (Isaac Newton) کو جدید علم بصارت (Modern Optics) کا موجد سمجھا جاتا ہے لیکن الخلیلی کے مطابق ’’نیوٹن نے بذات خود ایک عظیم سائنسداں کے کاندھوں کا سہارا لیا تھا جو کہ ان سے 700سال قبل اس سلسلے میں تحقیق کر چکے تھے۔ ‘‘اس سائنسداں کا نام الحسن ابن الہیشم (Al-Hasan Ibn Al-Haytham) تھا، جو کہ اس وقت کے عراق میں 965 میں پیدا ہوئے تھے، جنہوں نے قطعی طور پر درست اپنی تحقیق میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ آنکھیں کسی شے (Object) کو کس طرح سے دیکھ پاتی ہیں۔ انہوں نے ریاضی (Mathematics) کے توسط سے اس بات کو ثابت بھی کر دیا تھا۔

قرون وسطیٰ میں اسلامی سائنس کے شعبہ میں غیر معمولی کارکردگی انجام دینے والے سائنسدانوں کی حصولیابیوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کے لئے الخلیلی نے شام، ایران، ٹیونیشیا، مصر، اسپین اور اٹلی کا دورہ بھی کیا تھا۔ انہوں نے اپنی سیریز میں ریاضی داں الخوارزمی (Al-Kawarizmi)، فزیشین ابوسینا (Abu Sina)، ماہر فلکیات اور ریاضی داں البیرونی (Al.Biruni)، ماہر کیمیات اور طبیعات الراضی(Al-Razi) اور ماہر فلکیات ناصر ال دین ال طوسی (Nasir Al-Din Al-Tusi) کے بارے میں مفصل جانکاری دی تھی۔ اس وقت الخلیلی سرے یونیورسٹی (Surrey University) میں فزکس کے پروفیسر ہونے کے علاوہ سائنس میں عوامی مشغولیت (Public Engagement) شعبہ میں بھی پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے نہ صرف خود کو اس کام تک ہی محدود رکھا بلکہ سائنس کے تعلق سے عوامی بیداری کے لئے انہوں نے مضامین اور کتابیں بھی تحریر کہں۔ ’ہاؤس آف وژڈم‘ (House of Wisdom) عنوان سے ان کی تصنیف کردہ کتاب نہایت معروف ہے۔

ابتدائی آٹھویں صدی میں ایک بڑے خطہ میں خلفاء کی حکمرانی تھی اور وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ سیاسی طاقت اور سائنٹیفک جانکاریاں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ عملی طور پر ان کی لازمیت کے کئی اسباب تھے، جن میں اسلام نے بطور مذہب کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ خلیفہ عبد المالک ابن مروان کو ملی جلی زبانوں کے ساتھ ایک وسیع ترین مملکت کی انتطامیہ کے لئے ایک راستہ تلاش کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی، اس لئے انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ’عربی‘ کو یکساں زبان قرار دیا جانا چاہیے۔ پوری مملکت میں عربی زبان اختیار کئے جانے سے دانشورانہ زندگی میں بھی بہتری آگئی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے اسکالر اور سائنسداں نہ صرف یکساں زبان میں ایک دوسرے کے ساتھ مباحثے کر سکیں گے بلکہ تبادلہ خیال بھی کرسکیں گے۔ علاوہ ازیں ’تراجم تحریک‘ کا بھی بڑے پیمانے پر آغاز کیا گیا تھا جس کے تحت قدیم کتابوں کو تلاش کیا گیا تھا تاکہ ان کا ترجمہ کرایا جا سکے۔ انہوں نے، مصر، شام، ایران اور سنسکرت زبان میں سائنٹیفک اور فلسفیانہ قدیم مسودات حاصل کرنے کے لئے مختلف لائبریریوں تک رسائی کی تھی۔ تاکہ ان کا عربی زبان میں ترجمہ کرایا جا سکے۔ اسکالروں اور حکمرانوں کی ادویات کی فراہمی بھی اہمیت کی حامل ہے چنانچہ تیسری صدی میں یونانی طبیب گیلن (Galen) کی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ کرایا گیا تھا لیکن مسلم ڈاکٹروں کی اسلامی روایتی ادویات میں زیادہ دلچسپی تھی۔ اس تعلق سے الخلیلی کا کہنا تھا کہ ’’بہر کیف یہ ایک ایسا مذہب ہے جس کا مرکزی نظریہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے ساتھی انسانوں کے لئے ہمدردی کا جذبہ محسوس کرنا چاہیے۔ ‘‘اسلامی ادویات میں سب سے اہم نام ابن سینا کا ہے، جن کی کثیر جلدوں پر مبنی کتاب کینن آف میڈیسن (Canon of Medicine) چھ صدیوں سے زائد عالمگیر سطح پر معیار کے اعتبار سے نہایت معروف ہے۔ دمشق میں واقع ال بیمارستان ال نوری اسپتال (Bimaristan Al-Nouri Hospital) کا بھی انہوں نے معائنہ کیا تھا جسے 1154 میں تعمیر کرایا گیا تھا اور بعد میں اسے میڈیکل میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

واروک یونیورسٹی انگلینڈ کے اسلامی طبی تاریخ کے ماہر ڈاکٹر پیٹر پورمین (Dr.Peter Pormann) نے اس بات کو نوٹ کیا تھا کہ اسپتال کے اندر اسلام نے اعلیٰ درجہ کی مذہبی رواداری کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ انہوں نے اپنے نوٹ میں اس بات کی وضاحت کی کہ بلاتفریق مذہب چاہے کوئی یہودی ہو یا عیسائی ہو یا کسی بھی دیگر مذہب سے تعلق رکھنے والا مریض ہو سب کی جانب مساوی توجہ دی جاتی تھی۔ الخلیلی نے آنکھوں کی سرجری میں ابتدائی اسلامی طریقۂ علاج کی کامیابی کا تذکرہ بھی کیا تھا۔ اس وقت کے معالجین نے بصارت کے سرجیکل آلہ جات بھی دریافت کر لئے تھے اور کاؤچنگ تکنیک سے موتیا بند کا علاج کرنے میں کامیابی ملی تھی، آپریشن کا میاب ہونے کی شرح اس وقت 60 فیصد سے زیادہ ہی تھی۔

ایک مرتبہ الخلیلی نے ماہر مصریات (Egyptologist) ڈاکٹر اوکاشا کا انٹرویو کیا تھا، جنہوں نے 9ویں صدی کے عراقی اسکالر ابن وحشیہ (Ibn Wahshyah) کی تحقیق پر ریسرچ کی تھی، جنہوں نے جین فرانکوئس چمپولین (Jean Francois Champollion) کے ذریعہ روسیٹا اسٹون پر خط رموزی میں اپنی ایجاد تحریر کی تھی لیکن ان سے آٹھ صدی قبل ابن وحشیہ نے قدیم مصری علامتی زبان میں آسانی سے سمجھنے کے لئے اپنی تحقیق کو ضابطہ بند کر دیا تھا۔ اس سے ہی مغربی سائنسدانوں کو مزید پیش رفت کرنے کا موقع ملا تھا۔

قرون وسطیٰ کے اسلامی اسکالروں نے ان سائنٹفک جانکاریوں کو بھی یکجا کیا تھا، جو ان کی اپنی سرحدوں کے پار سے ملی تھیں اور اس طرح کے کلیہ سے نہ صرف سائنسی ایجادات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا بلکہ یہ بات بھی ثابت ہو گئی تھی کہ علم یا سائنس نوع انسان کے مفادت کے لئے سیاسی سرحدوں یا مذہبی وابستگیوں کو عبور کر لیتے ہیں۔ یہ اسلام کے مثبت پہلو کی ایک مسرت آمیز کہانی بھی ہے۔ عرب ممالک نے قرون وسطیٰ اور اسلامی دور میں فلسفہ، علم، ادویات، علم ریاضی، علم طبیعات، علم فلکیات اور علم کیمیات میں جو تحقیقات یا ایجادات ہوئی تھیں ۔وہ آج کے جدید دور میں ہر شعبہ کے ماہرین کے لئے مہمیز بن گئی ہیں ،جن کی بنیاد پر ہر شعبہ میں پیش رفت جاری ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close