Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

چین سے، کورونا سے، نفرتوں سے لڑنا ہے

محاسبہ…………….سید فیصل علی

لداخ کی گلوان گھاٹی میں 20جوانوں کی شہادت نے پورے ملک کو غم وغصہ اور صدمے سے دوچار کر دیا ہے، چین کی اس بربریت کیخلاف ملک گیر احتجاج ہو رہے ہیں، حکومت سے چین کو سبق سکھانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، اس کی اشیاء کے بائیکاٹ کی اپیل ہو رہی ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ ہند-چین سرحد پر 3 ماہ سے چین کی سرگرمیاں جاری ہیں، فوجی جنرلوں کی وارننگ کے بعد بھی حکومت سوتی رہی؟ سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا ہمارے جوان نہتے تھے کہ 20 جوان بے رحمی سے قتل کر دیئے گئے، 80 جوان شدید زخمی ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کس حکمراں اور کس فوجی افسر کے حکم پر یہ نہتے فوجی جوان سرحد پر تعینات تھے؟ پروٹوکول کے مطابق ان کے تحفظ کیلئے ’بیک اپ‘ فورس کیوں نہیں تھی؟ اگر فورس تھی تو حرکت میں کیوں نہیں آئی؟ حالانکہ ’دی ہندو‘ انگریزی روزنامہ کے مطابق چین نے ایک کرنل اور 3 میجر سمیت 10 فوجیوں کو رہا کر دیا ہے، ان کی رہائی کے تناظر میں اب یہ بھی سوال اٹھ رہا ہے کہ ہمارے کتنے فوجی لاپتہ ہیں؟ چین نے ہماری سرحد پر کس حد تک قبضہ کیا ہے؟ اور لداخ سرحد کی اصل سچائی کیا ہے؟

مصیبت کی اس گھڑی میں بے شک پورا ملک پی ایم کے ساتھ کھڑا ہے، لیکن وہ اپنے مکھیا سے جاننا چاہتا ہے کہ ہمارے جوان اتنے بے بس کیوں ہو گئے کہ ان کے ساتھ اتنا بے رحمانہ سلوک ہوا، ان پر پتھر برسائے گئے اور نوکیلے اسٹیل راڈ بے رحمی سے حملہ کیا گیا، شہید جوانوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان کے جسم چھلنی کر دیئے گئے، 17 جوانوں کے جسموں پر ناخنوں کے ذریعہ کٹنے کے نشانات ہیں، جوانوں پر اس طرح کا حملہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بالکل نہتے تھے، حالانکہ وزیر خارجہ جے شنکر نے وضاحت کی ہے کہ ہمارے جوان ہتھیاروں سے لیس تھے، لیکن معاہدے کے پابند تھے، مگر یہ کیسا معاہدہ ہے کہ ہمارے فوجی جوان پٹتے رہے اور چپ رہے۔ انڈین آرمی کے سابق فوجی افسر لیفٹننٹ جنرل پناگ اور لیفٹننٹ جنرل بی پی شنکر نے بھی ایسی بے بسی پر سوال کھڑے کئے ہیں۔ راہل گاندھی، سنجے روات اور دیگر کئی لیڈروں نے بھی اس معاملے پر پی ایم سے سچائی اجاگر کرنے کی اپیل کی ہے۔

ستم تو یہ ہے کہ اس اندوہناک واقعہ کے 48 گھنٹے کے بعد پی ایم نے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ سے قبل جس طرح اپنی چپی توڑی وہ بہت ہی مایوس کن ہے، وہ شخص جو ایک فوجی کے سر کے بدلے 10 سر لانے کا ہنکار بھرتا تھا، گھر میں گھس کر مارنے کیلئے للکارتا تھا، اس کے تیور چین کے جارحانہ عمل پر اتنے ڈھیلے کیوں پڑگئے؟ اس پر بہت ہی حیرت ہے۔ پی ایم نے 20 جوانوں کی شہادت پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی بہادری پر فخر کیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے جوانوں نے مرتے مرتے مارا ہے، کاش وہ یہ تیور دکھاتے کہ ہم اس کا بدلہ لیں گے اور چین کو سبق سکھائیں گے، حالانکہ کل جماعتی میٹنگ میں بھی وزیراعظم کے تیور تقریباً ایسے ہی ڈھیلے رہے۔ انہوں نے کہا کہ چین ہماری سرحد میں نہیں گھسا ہے اور نہ ہی کہیں پر کوئی قبضہ ہوا ہے، جب یہ بات تھی تو پھر تصادم کیوں ہوا؟ کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے وزیراعظم سے سوال کیا ہے کہ کیا انہوں نے چین کو کلین چٹ دے دی ہے؟ راہل گاندھی نے پی ایم کے اس بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ چینی بربریت کے سامنے ہمارے وزیراعظم نے سرینڈر کر دیا ہے۔

مجھے تو حیرت اس بات پر ہے کہ 2014 میں پی ایم بننے کے بعد مودی جی کی شی جن پنگ سے 18 بار ملاقات ہو چکی ہے، ہمارے پردھان منتری 5 بار چین کا دورہ بھی کر چکے ہیں اور ان کے ہی دور میں خود شی جن پنگ بھارت کے دورہ پر آئے تھے، ایسے میں تو ہند-چین دوستی کے نئے نئے چراغ جلنے چاہئیں، مگر یہاں تو دشمنی کی ایسی تیرگی ابھری ہے اور سرحد پر ایسی کشیدگی پھیلی ہے جسے دور کرنے کیلئے تین ماہ سے فوجی اور ڈپلومیٹک سطح پر گفتگو چل رہی ہے، لیکن یہ سب کچھ ناکام ثابت ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چین ایل اے سی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا ہے کہ ہماری سرحد میں گھس آیا ہے۔ ہند-چین سرحد 3,488 کلو میٹر پر محیط ہے، یہ سرحد کشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، سکم اور اروناچل پردیش سے ہوکر گزرتی ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق چین بھارت کے مغربی سیکٹر یعنی کشمیر کے اقسائی علاقے پر اپنا دعویٰ کرتا ہے، جسے چین نے 1962 کی جنگ میں ہتھیا لیا تھا۔ اس کے علاوہ اب چین اروناچل کے کچھ حصوں پر بھی دعویٰ کر رہا ہے اور تبت اس کا ہے، اس پر بھی دعویٰ ٹھوک رہا ہے، وہ ’میک موہن‘ معاہدے کو ٹھکرا رہا ہے اور اب تو وہ مشرقی لداخ کے گلوان گھاٹی، بنگاسو، دولت بیگ، اولڈی کو لے کر تنازع کھڑا کر چکا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ ہند-چین میں 27 سال کے درمیان 5 سمجھوتے ہو چکے ہیں، اس کے باوجود تنازعات کی قطار کھڑی ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا چینی برانڈ اور اس کا اقتصادی بائیکاٹ کرکے اس کو سبق سکھایا جا سکتا ہے، جس کا پورے ملک میں مطالبہ ہو رہا ہے؟ چین ہمارے شعبۂ حیات، معاشیات اور اقتصادیات میں اس حد تک دخیل ہو چکا ہے کہ اسے نکالنا ایک ٹیڑھی کھیر ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تو اس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، خاص کر موبائل میں تو ٹک ٹاک اور پے ٹی ایم سے لے کر 50 الم غلم ایپ ایک نشے کی صورت اختیار کر چکے ہیں، اس عادت کو چھڑانا ایسا ہی ہے، جیسا کسی نسیڑی کو نشہ چھوڑنے کی تلقین کی جا رہی ہو۔ مرکزی وزیر اٹھاؤلے نے کہا ہے کہ چینی برانڈ کا بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ چائنیز فوڈ کا بھی بہشکار ہونا چاہیے۔

2017 میں بھی ڈوکلام کے بعد چینی برانڈ کے بائیکاٹ کی تحریک چلی تھی، دیوالی کے موقع پر برقی قمقمے، بجلی کی اشیاء اور موتیوں کی خریداری پر اثر پڑا، لیکن وہ تحریک محض کچھ دنوں میں ہی دم توڑ گئی۔ حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ سرحد پر چین نے شیطانی کارنامہ انجام دیا، اس کے باوجود مہاراشٹر میں چینی کمپنی سے 500 کروڑ کا میٹرو پروجیکٹ منظور ہوا۔ آج بھارت میں چین کا ٹریڈ یو پی اے حکومت کے مقابلے مودی حکومت میں 45 فیصد بڑھ چکا ہے۔ چین کی تجارتی ہوشیاری دیکھئے کہ اس نے اب اپنی اشیاء پر ’میڈ ان چائنا‘ کے بجائے ’میڈ این پی آر سی‘ لکھنا شروع کردیا ہے، جس کا مطلب ’میڈان پبلک رپبلک چائنا‘ ہے۔ اس کے علاوہ چین اپنے برانڈ پر چینی بھاشا کے بجائے بھارتی بھاشا اور بھارتی چہرہ لگا رہا ہے، یہی حکمت عملی اسے تجارتی میدان میں سرخ رو کر رہی ہے۔ چین واحد ایسا ملک ہے جس کی اشیاء دنیا میں سب سے سستی ہوتی ہیں، بھلے ہی وہ ٹکاؤ نہیں ہوتیں، لیکن ان کی فنیشنگ اور پیکنگ قابل دید ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج چین تجارت کے معاملے میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے اور دنیا میں بھارت چینی اشیاء کی خریداری کا ساتواں سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ بھارت میں چین اس کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بھارت چین کو 5 فیصد ایکسپورٹ کرتا ہے تو وہیں چین بھارت کو 14فیصد ایکسپورٹ کرتا ہے۔ 2019 میں بھارت نے چین کو ایک لاکھ 6879 کروڑ کا ایکسپورٹ کیا ہے تو چین نے بھارت کو پانچ لاکھ 80784 کروڑ کا ایکسپورٹ کیا ہے۔ اس کے علاوہ 20-2019 میں تو بھارت چین کیلئے سب سے بڑا مارکیٹ رہا ہے، چین نے یہاں 6 لاکھ 58 ہزار 51 کروڑ کا بزنس کیا ہے۔ اسمارٹ فون، الکٹریکل گڈس، پاور پلانٹس، فرٹی لائزر، آٹومشین، اسٹیل پروڈکٹس، تھرماسٹیکل اشیاء، پلاسٹک، ٹیلی کام اور انجینئرنگ سے لے کر میٹرو ریل کے کوچ کی تیاری تک میں چین کا عمل دخل ہے۔ چین بھارت میں 70 بلین امریکی ڈالر کا کاروبار کرتا ہے، اس کے ’فارن انوسٹ‘ بھی 5 فیصد کہی جا رہی ہے، جب بھارت میں چین کی تجارتی جڑیں اتنی گہری ہیں تو پھر اسے اکھاڑنا بڑے دل اور گردے کا کام ہے۔ اس کے علاوہ چین کی عسکری قوت، کامیاب تجارت اور دو رخی سیاست سے تو امریکہ بھی گھبراتا ہے۔ دنیاچین کو ’ڈریگن‘ کے نام سے جانتی ہے، اس کے باوجود چین بھارت سے جنگ لڑنا نہیں چاہے گا، کیونکہ بھارت اب 62 والا بھارت نہیں ہے۔ چین یہ بھی جانتا ہے کہ جنگ سے اس کو زبردست اقتصادی خسارہ ہوگا، لیکن وہ اپنی فتنہ سازی سے باز نہیں آ رہا ہے، چنانچہ چین کو جواب دینے کیلئے ٹھوس حکمت عملی بنانی ہوگی، ملک کے عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا، کیونکہ اس نازک گھڑی میں ملک کی ایکتا بہت ہی ضرری ہے۔ وقت کا المیہ یہ بھی ہے کہ پہلے تو پاکستان ہی ہمارا دشمن تھا، اب چین کا چہرہ بھی عیاں ہو چکا ہے، نیپال بھی آنکھیں دکھا رہا ہے اور کورونا سے بھی ملک کراہ رہا ہے، ایسے میں بہت ہی صبر وتحمل اور دور اندیشی کی ضرورت ہے۔ بقول شاعر:

چین سے، کورونا سے، نفرتووں سے لڑنا ہے
جو ہمیں اجاڑے گا اس کو ہی اجڑنا ہے
اب یہی تقاضہ ہے سچی دیش بھکتی کا
بے جھجک برائی پر مل کے ٹوٹ پڑنا ہے

([email protected])

 

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close