Khabar Mantra
محاسبہ

دنیا کسی گونگے کی حمایت نہیں کرتی

محاسبہ...........................سید فیصل علی

ماب لنچنگ کے واقعات مسلسل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ ملک کا خوبصورت چہرہ داغدار ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب تمام بنیادی مسائل بے معنی ہو چکے ہیں۔ نفرت اور راشٹرواد کے ہتھیار سے ملک کی تہذیب کو قتل کرنے کا دور شروع ہو چکا ہے۔ لوگوں میں قانون کا خوف ذرا سا بھی نہیں رہ گیا ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ ہرشیطانی عمل کا ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈال کر اذیت پرست فطرت کی تسکین کی جا رہی ہے۔ سڑکوں پر سرعام مسلمانوں کی پٹائی ہو رہی ہے۔ گھوڑے پر چڑھنے پر دلت پیٹا جا رہا ہے۔ کسی ڈاڑھی والے کو ٹرین سے پھینکا جا رہا ہے۔ راہ چلتے کسی بھی مسلمان کو کار سے ٹھوکر مار کر جے شری رام بولنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اخلاق کی پستی اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ سماج تماشائی ہے۔ کسی کو جرأت نہیں کہ وہ ظلم کیخلاف آواز اٹھا سکے اور پٹتے ہوئے مظلوموں کو بچا سکے۔

جھارکھنڈ میں 24 سالہ تبریز کو جس طرح 18 گھنٹے تک پیڑ سے باندھ کر مارا گیا اور جے شری رام نہ بولنے پر پٹائی در پٹائی ہوتی رہی کہ بالآخر وہ موت کی منھ میں چلا گیا۔ ایک مسلم نوجوان کو اذیت دے کر مارنے والا یہ خوف ناک ویڈیو دنیا نے دیکھا، اب عالمی سطح سے لے کر قومی سطح تک اس کی مذمت ہو رہی ہے۔ امریکی کمیشن آن انٹرنیشنل ریلجینس فریڈم نے تبریز انصاری کی ماب لنچنگ کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور برطانیہ میں بھی احتجاج ہوا ہے۔ ادھر ملک بھر میں تبریز کے قتل کو لے کر احتجاج اور کینڈل جلوس کا دور جاری ہے۔ کولکاتہ، پٹنہ، رانچی، ممبئی، لکھنؤ، حیدرآباد، بنگلور اور پونے وغیرہ وغیرہ سے لے کر وادی کشمیر میں بھی احتجاج کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ پارلیمنٹ سے لے کر دہلی کے جنترمنتر تک ملک میں ابھرتی ہوئی ماب لنچنگ تہذیب کی مذمت ہو رہی ہے، مگر یہاں تو عالم یہ ہے کہ ماب لنچنگ کے درندوں کا حوصلہ پست ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

آج کا یہ شرمناک منظرنامہ ہے کہ 2014 کے بی جے پی کے پہلے دور اقتدار میں ماب لنچنگ کا جو کھیل شروع ہوا تھا 2019 کے دوسرے دور میں نقطہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔ پہلے گائے کے نام پر انسان مارے جاتے تھے، اب جے شری رام کا نعرہ تشدد کا ہتھیار بن چکا ہے۔ دوسرے دور میں مسلمانوں اور دلتوں کے تئیں نفرت اتنی زہریلی ہو چکی ہے کہ ہریانہ میں دلتوں کی پٹائی ہو رہی ہے۔ مدھیہ پردیش، کولکاتہ، گجرات میں مسلمانوں سے نفرت کا قہر کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ اجین میں ایک مسلم بزرگ کے ہاتھ پیر توڑ دیئے گئے، رائے سین میں ایک مسلمان کی پٹائی کی گئی، گجرات میں ایک نوجوان کو ننگا کرکے تشدد برپا کیا گیا، بنگال میں جے شری رام نہیں بولنے پر تین افراد ٹرین سے پھینک دیئے گئے، علی گڑھ کے پاس بریلی کے ایک طالب علم محمد فرمان کی جے شری رام نہیں بولنے پر زبردست پٹائی کی گئی اور ٹرین سے پھینک دیا گیا، ہریانہ اور رجستھان میں کئی مسلمان جے شری رام نہیں بولنے کی پاداش میں زدوکوب کئے گئے اور شرمناک بات تو یہ بھی ہے کہ ملک کی راجدھانی دہلی میں بھی جے شری رام کا غلغلہ ہے اور ڈی ٹی سی بسوں میں بھی دھڑلے سے نفرت کا شور جاری ہے۔

دہلی کے کناٹ پلیس میں ایک ڈاکٹر کو جے شری رام نہیں بولنے پر دھمکیاں دی گئیں، دہلی کے ہی امن وہار کے ایک نوجوان کو سڑک پر کسی کار نے ٹھوکر مار دی اور وہ نوجوان گرپڑا، ڈرائیور نے اتر کر معذرت کی اور پوچھاکہ چوٹ تو نہیں آئی، نوجوان نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے ٹھیک ہوں، بس اتنا کہنا تھا کہ ڈرائیور بھڑک گیا اور پٹائی شروع کردی اور کہاکہ اللہ کا نام نہیں جے شری رام بولو، بڑی مشکل سے وہ نوجوان محمد مامون جان بچاکر بھاگا۔ ستم تو یہ بھی ہے کہ ماب لنچنگ کی نئی تہذیب کو جہاں سیاسی سایہ تحفظ دے رہا ہے، وہیں پولیس کی تساہلی اور تعصب بھی اسے تقویت دے رہی ہے۔جھارکھنڈ کے تبریز انصاری کا قتل اس کی زندہ مثال ہے۔ اگر اس کی ایمانداری سے جانچ ہو جائے تو ماب لنچنگ کے پیروؤں کے ساتھ پولیس کی ذہنیت کا بھی پردہ فاش ہو جائے گا۔ تبریز انصاری علاج کے لئے چلاتا رہا، لیکن اسے علاج کے بجائے حوالات میں ڈال دیا گیا، قریب المرگ ہوا تو صدر اسپتال میں لا پھینکا گیا اور قبل از وقت اس کی موت بھی ڈکلیئر کر دی گئی۔ تبریز کے قتل میں جہاں بھگوا دہشت گردی کا ہاتھ ہے تو وہیں پولیس انتظامیہ کا دامن بھی کم داغدار نہیں ہے۔

24 سالہ تبریز کی صرف دوماہ قبل شادی ہوئی تھی، وہ کئی برسوں سے پونے میں کام کر رہا تھا، گھر والوں نے اسے شادی کے لئے ہی گھر بلایا تھا، مگر اس پر چوری کا الزام لگاکرجس طرح 18 گھنٹے تک تشدد کا شکار بنایا گیا، وہ ہندوستانی تہذیب، ہندوستانی سیاست اور ہندوستانی قانون وانصاف کے آگے بھی ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب ممکن نہیں ہے۔ کیا ہندوستانی دلت اور مسلمان ملک کے لئے ایسا وبال جان بن چکے ہیں کہ بھگوا تہذیب انہیں زندہ دیکھنا نہیں چاہتی؟ ماب لنچنگ کے واقعات جس تیزی سے ابھر رہے ہیں اور جس طرح حکومت ان کو نظرانداز کر رہی ہے، وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ایک دھرم، ایک فکر، ایک لباس کی آڑ میں ملک کی تکثیری تہذیب کی توہین۔

اخلاق، پہلوخان سے لے کر تبریز انصاری تک ہجومی تشدد کے جو حالات ہیں، وہ خون کے آنسو رلا رہے ہیں اور ہر گھڑی یہ احساس سوال کرتا ہے کہ تبریز کے بعد اب کون؟ مودی جی نے چناؤ جیتنے کے بعد سب کا ساتھ سب وکاس کے ساتھ سب کا وشواش کا جملہ بھی جوڑا تھا، مگر ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس کے تناظر میں یہ سب اعتماد جیتنے کا ڈھکوسلا ہی ہے، قاتلوں کو قانون کی پشت پناہی مل رہی ہے، مظلوم کو دارورسن پر چڑھایا جا رہا ہے، گاندھی کے قاتل کو ہیرو ماننے والی پارلیمنٹ میں ہے، گجرات میں فساد پر سوال کھڑا کرنے والا پولیس افسر سنجیو بھٹ کو سزا ہوچکی ہے، مدارس کی جدید کاری، طلبہ کو اسکالرشپ سب ایک تماشہ ہے، اس طرح کی بات پھیلائی جا رہی ہے کہ مودی جی بدل گئے ہیں، وہ سب کے وکاس کے ساتھ مسلمانوں کا اعتماد جیتنا چاہتے ہیں، اس میں میڈیا کا بھی بھرپور رول ہے، جو مودی کو مسیحا بناکر پیش کر رہا ہے۔ نیوز چینل جنہوں نے اپنی رپورٹ کے ذریعہ کبھی یہ نہیں بتایاکہ پانچ برسوں میں مودی کے وعدوں کا کیا حشر ہوا؟ اب وہ ان وعدوں بالخصوص مسلمانوں کے بارے میں کئے گئے وعدوں کو یہ کہہ کر بیچ رہے ہیں کہ یہ مودی کا مسلمانوں کو زبردست تحفہ ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ کچھ ضمیر فروش، خود ساختہ، خود پرست نام نہاد مسلم لیڈران بھی مودی کے در دولت پر سرنگوں ہوکر مسلمانوں کو بے وقوف بنانے والے بیانات و اعلانات کی قصیدہ خوانی کر رہے ہیں۔ گرچہ یہ لوگ قوم کے نمائندے نہیں ہیں، مگر قوم کا سودا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بہتی ہوئی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ مودی جی نے جس سرسری طور پر جھارکھنڈ معاملے کی مذمت کی ہے، وہ محض رسمی ہے۔

آج ملک کی تہذیب کو بچانے کی صدا لگانا ہرذی شعور کا فریضہ ہے۔ ملک میں فاشزم کا عفریت منھ پھاڑے رواں دواں ہے، اس کا خاتمہ کیسے ہوگا یہ فکر کا موضو ع ہے؟ پارلیمنٹ میں ٹی ایم سی ایم پی مہووا موئترا نے فاشزم کی جن علامتوں کی طرف اشارہ کیا ہے، اس کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ کینڈل مارچ نکالنے اور مذمت کرنے سے ماب لنچنگ ختم ہونے والی نہیں ہے، یہ سب تو محض خانہ پوری ہے یاعلامتی احتجاج۔ حل تو یہ ہے کہ پوری قوت ارادی کے ساتھ ماب لنچنگ کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا جائے۔ انسانیت کے قاتلوں کو ایسی سخت سزائیں دی جائیں کہ پھر ہمت نہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ پولیس کو اکثریت کی ذہنیت کا طرفدار نہیں، بلکہ قانون کا علمبردار ہونا چاہیے۔ میں جب ماب لنچنگ پر اپنا درد رقم کر رہا ہوں تو کانپور میں ایک مسلم تاج محمد کو جے شری رام نہیں بولنے پر پٹائی اور راجستھان میں پہلو خان مقدمہ میں چارج شیٹ داخل کرنے کی خبریں آ رہی ہیں، یہ چارج شیٹ کیا ہے؟ مظلوم کے منھ پر طمانچہ ہے، انصاف اور قانون کی بے بسی کا منظرنامہ ہے۔ چنانچہ اس چارج شیٹ میں پہلوخان کے بیٹے ہی ملزم بنا دیئے گئے ہیں۔ پہلوخان کے بیٹے ارشاد خان کا درد بھی فکر کا موضوع ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایسی چارج شیٹ سے تو بہتر ہے کہ سرکار ہمیں بھی مار دے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ماب لنچنگ کے خلاف سخت سے سخت قانون بنانے کی پر زور آواز اٹھائی جائے، جہاں سڑک سے لیکر ایوانوں تک اس کی باز گشت سنائی دے، ویسے بھی آواز اٹھانا زندہ قوموں کی نشانی ہے، بقول شاعر:

میں اس لئے زندہ ہوں کہ بول رہا ہوں
دنیا کسی گونگے کی حمایت نہیں کرتی

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close