Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

ایک جمالیاتی تصور، سکیرین مسجد

مسجدیں خدا کا گھر کہلاتی ہیں، یہاں سے ایک بندہ خدا سے روبرو ہوتا ہے۔ لیکن مسجدیں بندے کو نہ صرف خدا سے روبرو کراتی ہیں، بلکہ دنیا کو مسخر کرانے کی قوت بھی فراہم کرتی ہیں۔ کبھی مسجدوں سے دعوت دین کی دعوت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اسلام کے فروغ اور اسلامی سلطنت کے قیام کی بھی راہیں نکالی جاتی تھیں۔ خلفائے راشدین تک مسجدیں حکومت کے کار ہائے راز کا ایک عظیم مرکز ہوا کرتی تھیں۔ کئی اہم فیصلے مسجدوں میں بیٹھ کر ہوتے تھے، مگر اب یہ چلن ختم ہو گیا ہے۔ مسجدیں صرف عبادت کا ایک مرکز بن کر رہ گئی ہیں، مگر خدا کا شکر ہے کہ اب مسجدوں سے اسلام کی روشنی دوسرے اقوام میں پھیلانے کی کوشش شروع ہو گئی ہے۔ بھلے ہی مشرق کی مسجدیں محض عبادت کا مستقر ہیں، لیکن یورپ اور مغرب کی مسجدیں اب پرانے دور کی طرف رواں دواں ہیں، وہاں سے قرآن کی تعلیم، اسلامی پیغامات کی ترسیل، قرآن کریم پر ریسرچ کا ایسا سلسلہ دراز ہے کہ نئی نسل اب بڑی تیزی سے دائرہ اسلام میں آ رہی ہے۔ ہم آج ترکی کے راجدھانی استنبول میں واقع سکیرین مسجد کی طرز تعمیر کا ذکر کریں گے، ترکی تو ویسے ہی عالم اسلام کا ایسا عظیم تاریخی منظر نامہ رکھتا ہے، جس پر مسلمانان عالم کو فخر ہے۔ سکیرین مسجد ایک ایسی خوب صورت ترین مسجد ہے، جس کے ہر گوشے سے اسلامی جذبہ کی خوشبو ملتی ہے۔ اس مسجد کی تمام دیواریں مکمل طور پر شیشے سے تیار کی گئی ہیں۔ مسجد کا شان دار اور پر وقار محراب، جو کہ ترکی کی دیگر مساجد کی محرابوں کی طرز پر ہے، جو براہ راست مکہ معظمہ کی طرف اشارہ دیتا ہے۔ سکیرین مسجد تمثیلی علامتی خصوصیات کا حسین مرقع ہے۔ مسجد کے صحن میں قائم فوارہ اور اس کی گولائی دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ کائنات کیا ہے۔ اس مسجد کو دیکھنے سے یہاں ایک روحانی سر شاری کا احساس ہوتا ہے۔ وہیں اس بات کا بھی گمان ہوتا ہے کہ اگر کوئی اللہ سے قریب ہو اور وہ مسجد بنائے، تو وہ مسجد کتنی خوب صورت ہو گی۔ قارئین حیرت کریں گے کہ اس عالیشان مسجد کی آرکیٹیکٹ ترکی کی معروف ڈیزائنر زینپ فدیلیو گلو نے تیار کی ہے۔ زینپ کی نگرانی میں تعمیر اس مسجد نے آج دنیا میں اپنا ایک اہم مقام بنا لیا ہے اور یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ اسلام خواتین کو حقوق ہی نہیں دیتا، بلکہ ہنر بھی دیتا ہے۔ ایک خاتون بھی مسجد تعمیر کراسکتی ہے۔ زیر نظر مضمون سکیرین مسجد کی طرز تعمیر اور اس کے جمالیاتی حسن کی ایسی لازوال داستان ہے، جس کی دھمک اہل ایمان ہمیشہ محسوس کرتے رہیں گے۔

استنبول میں واقع سکیرین مسجد کی تقریباً تمام دیواریں مکمل طور پر شیشے کی بنی ہوئی ہیں۔ خصوصی طور پر اس مسجد کا شان دار اور شائستہ محراب جو کہ ترکی کی دیگر مساجد کی محرابوں کی طرز پر ہے ،وہ راست طورپر مکہ معظمہ کی طرف سمت کا اشارہ دیتا ہے۔ یہ محراب نہ صرف تمثیلی خصوصیات کا مرقع ہے بلکہ دائرہ نما نیلے اور سنہری قوس و قزح سے آراستہ ہے۔ اس مسجد کے صحن کے بالکل درمیان میں جو فوارہ تعمیر کرایا گیا ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی گولائی دار منڈیر اسٹیل سے بنائی گئی ہے، جو کہ کائنات کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس عالیشان مسجد کا ڈیزائن ایک خاتون نے تیار کیا تھا۔

گزشتہ برسوں کے دوران کھولی گئی مسجد ‘سکیرین’ کا ڈیزائن ایوارڈ یافتہ ڈیزائنر زینب فدیلیوگلو (Zaynep Fadillioglo) نے تیار کیا تھا۔ اس سے قبل وہ ہوٹلوں اور مکانوں کی اندرونی تزئین کاری کیا کرتی تھیں۔ در حقیقت 53 سالہ فدیلیوگلو کسی ترکی مسجد کا ڈیزائن تیار کرنے والی اولین خاتون ہیں، اس لئے اس پروجیکٹ کے تعلق سے وہ اخبارات کی شہ سرخیوں میں چھا گئی تھیں۔ ایسے ملک میں جہاں پر آج بھی 16ویں صدی کے دور عثمانیہ کے ماہرین فن تعمیرات کے ذریعہ سنان کے رویتی طرز پر مسجدیں تعمیر کرائی جاتی ہیں، وہاں پر اس مسجد کے تعلق سے ڈیزائن اور ڈیزائنر دونوں ہی مختلف ہیں۔

وہ بذات خود اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ ترکی میں مسجد تعمیر کرنے کی ذمہ داری سنبھالنے والی وہ اولین خاتون ہیں، جنہیں پوری زندگی میں اس طرح کے کام کا ایک موقع ملا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’جب میرے سامنے اس پروجیکٹ کی پیش کش کی گئی تھی، تو میری خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا تھا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایک صاحب ثروت ترکی عرب نے اپنی والدہ کی یاد میں اس مسجد کی تعمیر کرانے کا کام ان کے سپرد کر دیا تھا۔ اسی لئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’میرے نزدیک سب سے زیادہ خوشی کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ میں ایک خاتون ہوں، خصوصی طور پر ایسے وقت میں جبکہ غیر مناسب طور پر اس طرح کے مباحثے اکثر کئے جاتے ہیں کہ اسلام خواتین کو مساوی حقوق نہیں دیتا ہے۔ اب یہ بات حقیقی طور پر ثابت ہو گئی ہے کہ ایک خاتون بھی مسجد تعمیر کرا سکتی ہے، جس کی وجہ سے مذکورہ مفروضہ کی تردید ہو گئی ہے۔‘‘ انہیں یہ بھی اعتماد کامل تھا کہ خاتون ہونے کے ناطے وہ مسجد کی عمارت میں مختلف قسم کا جمالیاتی تصور پیش کردیں گی۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ ’’میں نے نہ صرف مسجد کے جمالیاتی پہلو کی جانب توجہ دی تھی بلکہ عوام کا بھی خیال رکھا تھا اور ایک تخلیقی علامت کے بجائے میں نے ایک ایسی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش کی تھی، جو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتی ہے۔ ‘‘فدیلیوگلو کو اس بات کا بھی خدشہ لا حق ہو گیا تھا کہ انہیں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لیکن تعجب کے ساتھ اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’’مجھے کسی بھی طرح کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا، میں بذات خود خائف تھی اور ایک طرح سے بد گمانی کا شکار ہو گئی تھی کہ میرے سامنے پریشانیاں ضرور آئیں گی ۔اسی لئے میں نے نہایت احتیاط کے ساتھ پیش قدمی کی تھی اور پھر ہم نے ایک ٹیم کے طور پر کا م کرنا شروع کر دیا تھا۔‘‘

دوسری جانب، جیسا کہ انہوں نے انکشاف کیا کہ ستم ظریفی تو یہ تھی کہ ’’سخت گیر سیکولر دوستوں کی جانب سے پیدا کی گئیں زیادہ تر پریشانیوں کا مجھے مقابلہ کرنا پڑا تھا کیونکہ وہ اکثر مجھ سے یہ پوچھا کرتے تھے کہ میں مسجد کیوں تعمیر کرا رہی ہوں، لوگ اس مغالطہ میں مبتلا ہو جائیں گے کہ میں کسی نہ کسی طرح سے سیکولر اقدار کا سودا کر رہی ہوں۔‘‘ مذہبی عقیدہ کی حامل فدیلیوگلو نے بتایا تھا کہ مسجد تعمیر کرانے کے روحانی کام کے ساتھ ساتھ ان کے لئے یہ ایک فنکارانہ تجربہ بھی تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کر دی تھی کہ ’’اگر میں مسلمان بھی نہیں ہوتی، تب بھی میں مسجد کا ڈیزائن تیار کر سکتی تھی، لیکن اس میں وہ جذبہ نہیں ہوتا، جو اس وقت میں محسوس کر رہی ہوں۔‘‘

جب فد یلیوگلو اپنی مشاق 18رکنی ٹیم کے ہمراہ مسجد کی سائٹ پر پہنچی تو مسجد کا اہم اسٹرکچر جیسے شان دار گنبد آرکیٹیکٹ حسریو طالعہ (Husrev Tayla) کے ذریعہ پہلے ہی تعمیر کرایا جا چکا تھا، لہذا انہوں نے اس مسجد کی شیشے کی دیواریں کاسٹ آئرن کی جالیوں کے ساتھ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ علاوہ ازیں مسجد کے مختلف پہلوئوں پر کام کرنے کے لئے وہ 9 فنکار بھی اپنے ساتھ لائی تھیں اور داخلہ جاتی جگہ میں آسان رسائی کے لئے توسیع کر دی گئی تھی، جس کی وجہ سے مکمل کمپلیکس قابل دید ہو گیا تھا، انہوں نے میڈیا سے خطاب کے دوران اس بات کا انکشاف بھی کیا تھا۔

استنبول کے ماہرین نے دستکاری سے بڑے بڑے آرائش شدہ سریوں اور نقش شدہ شیشوں سے عمارت کا چہرہ مہرہ سنوارا تھا اور نہایت جفا کشی کے ساتھ اندرونی شیشوں پر مقدس قرآن کی آیات کی نقاشی کی گئی تھی۔ کانسہ اور جالی دار شیشہ کا ایک فانوس، جو کہ چین میں تیار کرایا گیا تھا، وہ سیپوں کے مماثل شیشے کے ہزاروں مختلف ٹکڑوں سے آراستہ کیا گیا تھا، جو کہ بارش کی بوندوں کی مانند نظر آتے ہیں۔ اس فانوس کو 130فٹ دائرے والے گنبد میں نہایت احتیاط کے ساتھ لٹکایا گیا تھا، جس سے بوندیں ٹپکنے کا گمان ہوتا ہے۔ شاید اس تصور کی ترغیب اس دعا سے ملی تھی، جب خدا وند قدوس خوش ہو کر عجز گویان پر رحمت کی بارش کرتا ہے۔

اس مسجد کا منبر سفید نفیس سیڑھی سے مماثلت رکھتا ہے اور کسی کو بھی یہ گمان ہو سکتا ہے کہ سیڑھیوں کا سلسلہ دراز ہو گا، لیکن یہ سلسلہ ایک چھوٹے سے اس پلیٹ فارم پر رک جاتا ہے، جہاں پر امام کھڑا ہوتا ہے۔ وہیں، پر ایک قبلہ رخ طاق ہے، جو کہ گل لالہ کی شکل میں ہے اور جس کا فیروزی رنگ ارتعاش پذیر ہے۔ اس مسجد کے اہم عبادت خانہ مین سورج کی روشنی ہوتی ہے جو کہ شیشے کی دیوراوں سے ہو کر اندر آتی ہے 400مربع میٹر رقبہ والے اس عبادت خا نہ میں 250نمازیوں کی گنجائش ہے، اس کے علاوہ اضافی 100افراد کے لئے کشادہ بالکونی میں ایک کمرہ تعمیر کرایا گیا ہے، جو کہ خواتین کے لئے نماز ادا کرنے کی روایتی جگہ ہے۔

فدیلیوگلو نے ایک اصطفائی رجحان کے ساتھ ایک اندرونی تزئین کارکے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ ان کے اپنے گھر کے شوکیس میں ایسے نوادرات کا خزینہ ہے، جو کہ انہوں نے اپنے غیر ملکی اسفار کے دوران جمع کئے تھے۔ چنانچہ ان کی رہائش گاہ مشرقی اور مغربی نوادرات کی مشترکہ ثقافت کی عکاسی کرتی ہے، لیکن فدیلیو گلو کے پاس تو ایسا طریقہ موجود ہے کہ وہ ایک ہی نشست میں مشرقی اور مغربی چیزیں آسانی سے تیار کر سکتی ہیں، ان کے ہاتھوں میں یہ کمال ہے کہ وہ ایسی چیزیں تخلیق کر دیتی ہیں، جن پر مصنوعی یا تصنع آمیز ہونے کا گمان بھی نہیں ہوتا ہے۔ ان کی یہ خصوصیت اور قابلیت سکیرین مسجد کا ڈیزائن تیار کرنے کے تعلق سے صادق نظر آتی ہے۔ انہوں نے نہایت جدیدیت کے ساتھ روایتی اور مغرب کے ساتھ مشرقی امتزاج کو نہایت آسانی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اپنے طرز نگارش کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’ہر چیز کا ڈیزائن تیار کرتے وقت ہم نے مستقبل یا پہل کاری کی جانب توجہ نہیں دی تھی، بلکہ عصری تقاضہ پورا کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہم یہ چاہتے تھے کہ عوام اس مسجد کو فن تعمیر کا بے مثال نمونہ کے طور پر دیکھنے کے ساتھ ساتھ کہ اس سے خود اپنی وابستگی محسوس کریں۔‘‘

اس مسجد میں فرحت بخش اور فطری توازن برقرار رکھنے کے لئے فد یلیو گلو نے اسلامی روایتی طرز تعمیرات میں تربیت یافتہ ہنر مندوں اور عصری ڈیزائن میں اختراع کرنے والے دستکاروں دونوں کو ہی مشاہرہ پر مامور کیا تھا۔ چونکہ وہ کسی کی بھی اہانت نہیں کرنا چاہتی تھیں، اس لئے انہوں نے ماہرین تاریخ اور ماہرین دینیات سے بھی قدم قدم پر مشورہ کیا تھا۔ نہایت انکساری کے ساتھ انہوں نے ڈیزائن کے تعلق سے جو نظریات اسلامی اسکالروں کے سامنے رکھے تھے، انہیں ان کے مثبت جواب ملے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ ’’کیوں نہیں؟ بہر حال سکیرین مسجد میں خطاطی کرنے والا ایک شیخ ہی تو ہے۔‘‘ لیکن ان کےذریعہ نظر انداز کئے جانے پر فدیلیو گلو نے خود کو سنبھالا اور اسے ان کے چہرے پر لمحاتی تعجب کے علاوہ کسی دیگر بات سے تعبیر نہیں کیاتھا۔ بہر کیف، انہوں نے کہا تھا کہ زندگی کے تعلق سے مختلف نظریات رکھنے والے بہت سے اسلامی اور عصری دستکاروں نے ایک ساتھ مل کر اس مسجد کے پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا۔ انہوں نے اس نظریہ پر بھی روشنی ڈالی تھی کہ ’’جہاں تک میں سمجھتی ہوں کہ ایک مرد سے ایسا تعاون ملنا مشکل ہو سکتا تھا، جیسے ایک خاتون نے آسانی کے ساتھ نہایت چابکدستی سے اسے سنبھال لیا تھا۔‘‘

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close