Khabar Mantra
Uncategorizedمحاسبہ

لگے گی آگ تو آئیں گے کئی گھرزد میں

محاسبہ........................................................................سیدفیصل علی

کووڈکی تیسری لہر کے خدشہ کے پیش نظر پورا ملک بے چین ہے۔وائرس کے نئے ویریئنٹ ڈیلٹاپلس نے 10ریاستوں کے 174ضلعوں میں پیرپسار لئے ہیں۔ 50سے زائد افراد اس سے متاثر ہیں۔ طبی ماہرین نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ جولائی کے اختتام یااگست کے اوائل میں کووڈ کی تیسری لہر تیز ہوسکتی ہے۔ وہ شش و پنج میں ہیں کہ کورونا ویکسین اس نئے ویریئنٹ میں کتنا موثرہوگی؟ملک میں تیسری لہریعنی ڈیلٹاپلس کولے کر راہل گاندھی نے بھی سرکار سے سوال پوچھا ہے کہ اس نئے ویریئنٹ کو کنٹرول کرنے کے لئے حکومت کے پاس کیاپلان ہے۔ ڈیلٹا پلس کی جانچ اور روک تھام کے لئے ٹیسٹنگ کیوں نہیں ہورہی ہے؟تیسری لہر سرپر ہے، مگر سرکار بے خبر ہے۔
ستم تو یہ ہے کہ ملک کو کورونا کے نئے روپ ڈیلٹاپلس سے نکالنے کے لئے حکمت عملی بنانے کے بجائے مودی سرکار پھر وہی دیش بھکتی کا راگ الاپ رہی ہے اوربھاؤناؤں سے کھیل رہی ہے۔ہندو،مسلم کارڈ کاجال بچھاکر پھرووٹ کی سیاست ہورہی ہے۔ وبا کوکنٹرول کرنے کے بجائے ملک میں اب پاپولیشن کنٹرول کا تماشہ ہورہا ہے۔ جس طرح کوروناپھیلنے کا ٹھیکرا تبلیغی جماعت پر پھوڑا گیا تھا، اب بڑھتی آباد ی کا ٹھیکرامسلمانوں کے سرپھوڑا جارہا ہے اوراس فتنہ کا آغاز آسام سے ہوا ہے۔ 20جون 2021کو آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسواسرما نے بڑااعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ دوبچوں سے زائد والے لوگ سرکاری سہولتوں سے محروم رہیں گے۔ اس کے لئے نیاقانون بنانے کی تیاریاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ ہیمنت بسواسرما نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ فیملی پلاننگ کرائیں تاکہ آبادی کنٹرول میں رہے۔ انہوں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ اگر اسی طرح آبادی بڑھتی رہی توآسام کا کامکھیامندر بھی قبضہ سے نکل جائے گا۔ انہوں نے پاپولیشن کنٹرول کے لئے بڑی دریادلی دکھائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آبادی کم کرنے کے لئے وہ مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی یوڈی ایف اور آسام مسلم طلبائ کی تنظیم اے ایم ایس یو کے ساتھ بھی کام کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔


آسام کے بعد اب اترپردیش میں بھی’’ہم دوہمارے دو‘‘ کاتماشہ شروع ہوچکا ہے۔یوپی لائ کمیشن کے صدر جسٹس متل آسام کی طرز پر پاپولیشن کنٹرول کے لئے مسودہ تیار کررہے ہیں۔ جس کے تحت دوسے زائد بچے والوں کو سرکاری سہولتیں مہیانہیں ہوں گی۔ امکان ہے کہ دوماہ کے اندر یہ قانون بن جائےگا۔ اس وقت تک یوپی اسمبلی الیکشن کی تاریخ بھی ڈکلیئرہوجائے گی۔ چنانچہ بڑھتی مسلم آبادی رام مندر، کاشی متھرا ودیگر جذباتی ایشوز کے سہارے بی جے پی یوپی کے مہابھارت میں تال ٹھونکے گی۔ سوال تو یہ ہے کہ ملک میں کورونا کے لئے دوویکسین پر توجہ کے بجائے ’ہم دوہمارے دو‘کے گڑے مردے کو کیوں اکھاڑاجارہا ہے؟ معیشت کی جب کمرٹوٹ چکی ہے، عام آدمی دانے دانے کو محتاج ہے، بے روزگاری چرم سیما پر ہے تو کیا ہم دوہمارے دو کا یہ پرانا راگ کامیاب ہوگا؟
بے شک بڑھتی آبادی دنیا کا بڑامسئلہ ہے۔ بھارت بھی اس کے شکنجے میں ہے۔ پاپولیشن کنٹرول کے لئے پالیسی بننی چاہیے مگر سوال تو یہ ہے کہ ہم دوہمارے دو کا نزلہ مسلمانوں پر ہی کیوں گررہا ہے۔ انہیں ہی آبادی بڑھانے کا دوشی کیوں ٹھہرایا جارہا ہے؟ حالانکہ ابھی حال ہی میں سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کی کتاب ’The Population Myth Islam Family Planing and Politics in Inida‘ منظرعام پر آئی ہے،جوبھگواسیاست کابھرپورجواب ہی نہیں حقیقت کا آئینہ بھی ہے۔ قریشی نے اس کتاب میں ثبوت شواہد ، اعدادوشمار اورتاریخ کی روشنی میں بتایا ہے کہ جولوگ یہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان آبادی میں غیرمسلم سے آگے نکل جائیں گے وہ ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے کہ مسلم آبادی میں صرف 4فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔1951میں ہندومسلمانوں سے 30کروڑ زیادہ تھے، آج 80کروڑ زائد ہیں، اگرمسلمان فیملی پلاننگ نہ بھی کریں توبھی انہیں ہندوؤں کی آبادی تک پہنچنے میں 600سال لگ جائیں گے۔ مگربھگواسیاست کی بنیاد ہی جھوٹ اورپروپیگنڈہ پر قائم ہے اوراس جھوٹ کو دیش پریم کی چاشنی سے ایسا بنادیا جاتا ہے کہ سچائی بھی دم توڑدیتی ہے۔ 15اگست 2019کو پی ایم مودی نے بھی لال قلعہ کی فصیل سے پاپولیشن کنٹرول کی بات کہی تھی اورچھوٹے خاندان کو دیش بھکتی سے جوڑا تھا۔
سیاست کی یہ کیسی بازی گری ہے کہ ایک طرف پاپولیشن کنٹرول کی بات ہورہی ہے تو آرایس ایس اوربی جے پی کے کئی لیڈران ہندوؤں کو زیادہ سے زیادہ بچہ پیداکرنے کی تلقین کررہے ہیں۔ ساکشی مہاراج ، سادھوی پراگیہ وغیرہ جیسے لوگ غیرمسلموں میں فیملی پلاننگ کے قائل نہیں، وہ صرف مسلمانوں کوٹارگیٹ بناکر نفرت کا ماحول پیداکررہے ہیں۔ آسام اوراترپردیش میں دوسے زائد بچے والے سرکاری سہولت سے محروم کرنے والے قانون کی زد میں کیاغیرمسلم حضرات نہیں آئیں گے، یہ بڑاسوال ہے۔گوکہ پاپولیشن کنٹرول ایک بڑامسئلہ ہے مگر اس کے لئے دوسے زائد بچے والوں کو سرکاری مراعات اورسہولیات سے محروم کرنا ایک طرح سے انہیں دونمبر کا شہری بنانا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جبریہ کسی قانون کو تھوپنے کا رد عمل بڑاخطرناک ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں جبریہ نس بندی کے رد عمل سے اندرا گاندھی جیسی آہنی خاتون کا پایہ تخت بھی ہل گیاتھا۔ اب پاپولیشن کنٹرول کے لئے یہ بے تکا قانون خود بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن سکتا ہے۔ سب سے بڑاسوال تو یہ ہے کہ آبادی کنٹرول کا فارمولہ جب چین میں کامیاب نہیں ہوا تو ہندوستان میں کیسے کامیاب ہوگا؟ خاص بات تو یہ ہے کہ دوسے زائد بچے والوں کو تمام سرکاری سہولیات اوراسکیم سے محروم کرانے حتیٰ کہ سرکاری نوکریوں تک سے الگ رکھنے کے لئے بی جے پی کے ایک لیڈر نے سپریم کورٹ میں عرضی بھی ڈال رکھی ہے۔ ٹی وی چینلوں پر بھی پاپولیشن کنٹرول کو لے کر خوب دھوم دھڑاکے ہیں۔ مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں یہ پالیسی نہیں چلے گی۔ ہمیں چین سے سبق لینا چاہیے کیونکہ چین جوآبادی کنٹرول کے لئے سن 80کی دہائی سے ون چائلڈپالیسی پر گامزن رہا ہے، مگر اس کو خمیازہ بھگتناپڑا، اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ چین میں 60سے اوپر والوں کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے اورنوجوان خاص کر ورکنگ افراد کی تعداد بری طرح گھٹ رہی ہے، چنانچہ چین نے ملک کو بوڑھا بنانے سے روکنے کے لئے نئی پالیسی وضع کی اورایک کے بجائے تین بچے پیداکرنے کی چھوٹ دی ہے۔
دراصل چین کو اپنے 41سالہ پرانے ون چائلڈپالیسی سے 2015میں ہی جھٹکالگ گیا تھا، چنانچہ اس نے دوبچے پیداکرنے کی اجازت دے تھی، لیکن اب اس نے تین بچے پیداکرنے کی اجازت دی ہے، ممکن ہے کہ آنے والے دور میں بچہ پیداکرنے کی مکمل چھوٹ دے دی جائے۔ دراصل چین کی پرانی پالیسی سے خواتین میں فرٹی لیٹی ریٹ میں حددرجہ گراوٹ آئی ہے۔ کسی بھی آبادی کے لئے خواتین کی شرح 2.1فیصد ضروری ہے تاکہ خاندان بڑھ سکے۔ بلاشبہ چین نے نئی پالیسی وضع کرکے ملک کو نہ صرف بوڑھاہونے سے بچایاہے ،بلکہ معیشت کوتقویت دینے کے لئے نئی پالیسی بنائی ہے۔ لیکن ہندوستان میں چین سے سبق لینے کے بجائے ٹوچائلڈپالیسی بنائی جارہی ہے۔ دوسے زائد بچے والوں کو سرکاری سہولت سے محروم رکھے جانے کے لئے قانون بن رہا ہے۔ عقل کے اندھوں کواس بات کی پروا نہیں کہ پاپولیشن کنٹرول قانون کے بغیرہی ہندوستانی خواتین کی فرٹی لیٹی شرح کم ہورہی ہے۔ 1994میں فرٹی لیٹی شرح 3.4 تھی، جو 2015میں گھٹ کر2.2ہوگئی۔ تازہ رپورٹ کے مطابق ملک کی 19ریاستوں کے خاندانوں میں اوسطاً دویا اس سے بھی کم بچے ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ ایسے بے تکے سخت قانون بنانے سے قبل ملک کی 65فیصد سے زائد نوجوانوں اورورکنگ آبادی کو نظرانداز کیاجارہا ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اگر ایسا قانون وجودمیں آیا تو ملک ہندوراشٹرتو نہیں البتہ بوڑھوں کا مسکن بن جائے گا۔ مگر بی جے پی سرکار چین سے درس لینے کے بجائے اپنی ڈفلی اپناراگ الاپ رہی ہے۔بڑھتی آبادی کے لئے وہ مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرارہی ہے، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اس قانون کا اطلاق بلاتفریق وسیاست ہرمذہب ودھرم پر ہو گا۔ ایسے میں مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اشتعال میں نہ آکر بڑے صبروتحمل کے ساتھ بھگوا سیاست کاتماشہ دیکھیں۔ کیونکہ ٹوچائلڈ پالیسی کی زد میں صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ یہاں کے 80کروڑ سے زائد لوگ بھی آئیں گے۔ ٹوچائلڈ پالیسی کے ردعمل میں خودبھگوا مسندنشینوں کو ان کے بھکت ہی گلے میں طوق ڈالیں گے اورانہیں زمین پر لادیں گے۔ بقول راحت اندوری:

لگے گی آگ تو آئیں گے کئی گھرزد میں
یہاں پہ صرف ہمارامکان تھوڑی ہے
[email protected]

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close