Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

عالمی تاریخ کاعظیم ورثہ……..مدائن صالح

اسلامی تاریخ کی عظمت ورفعت کا کیا کہنا! خاص کر عرب تاریخ جو عالمی سطح پر عظیم ورثہکی حیثیت سے تسلیم کی جاتی ہے وہ آج بھی تاریخ کے طلبائ کے لئے باعث کشش ہے ۔آج بھی عرب کی دنیا میں ایسے ایسے اسرار سر بستہ راز ہیں ،جو آشکار ہو جائیں تو دنیا ششدر رہ جائے ۔ سعودی عرب میں واقع مدائن صالح ،جو کہ الحجر کے نام سے بھی معروف ہے ۔اس کی تاریخی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسکو ( UNESCO) نے عالمی آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل کرکے مدائن صالح کی عظمت کا عتراف کیا ہے ۔قرون وسطیٰ اور تاریخ مدائن صالح کے بارے میں قرآن مقدس میں بھی ذکر آیا ہے ۔قرآن کریم میں پیغمبر صالح علیہ اسلام کا ذکر کیا گیا ہے ۔مدائن صالح (صالح کا شہر )ال اولیٰ کے شمال میں 20کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے اور مدینہ منورہ کے شمال میں الحجروادی ہے جو 450کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے ۔460فٹ اونچائی پر واقع الحجر جنوبی میدان کے ال اوپرد کے جنوب مغرب میں واقع ہے ۔وہیں پر مدائن صالح ہے اور یہ ایک ایسا قدرتی مرکز ہے جو بیک وقت شام ،اردن ،لبنان ،فلسطین اور یمن کو ثقافت اور زرخیزی سے مستفیذ کرتا ہے ۔ یونیسکو کے ذریعہ عالمی آثار قدیمہ کی فہرست میں جانے سے بلاشبہ مدائن صالح کی تاریخی عظمت و رفعت کا پتا چلتا ہے ۔عالمی تاریخ کا ورثہبننے کے بعد سعودی عرب حکومت بھی اس سمت خصوصی توجہ دے رہی ہے اور اس مقام کے انتظامات ،تحفظ اور با ز آباد کاری کا ایک جامع منصوبہ اس نے یونیسکو کے سامنے پیش کیا ہے ۔مدائن صالح میں ایک عظیم ٹورسٹ پیلس تو بن ہی جائے گا لیکن اس سمت دنیا کی بھی نظریں ہو جائیں گی ۔علاوہ ازیں سعودی حکومت سے ہونے والی آمدنی میں بھی اضافہ ہو جائے گا ۔زیر نظر مضمون’ مدائن صالح‘کو عالمی ورثہ قرار دئے جانے کے بعد آئندہ کے منصوبوں اور اس مقام کو بہتر سے بہتر سیاحتی مرکز بنانے کے پروگرام پر محیط ہے ۔یہ مضمون خاص طور سے تاریخ اور سیاحت کے طلبا کے لئے بے حد مفید ہے۔

سعودی عرب میں واقع مدائن صالح ؑ جوکہ ال ہجر کے نام سے بھی معروف ہے اسے اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسکو (UNESCO) نے بین الاقوامی آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل کرلیاہے۔ کناڈا کے کیوبک سٹی میں عالمی وراثت کمیٹی کے 21 ممبران کے ذریعہ ووٹ دیئے جانے کے بعد 6 جولائی کومیدان صالحؑ کو یونیسکو کی عالمی فہرست میں شامل کیاگیا تھا۔ یونیسکو نے اپنی فہرست میں جن دودیگر مقامات کا اضافہ کیاتھا ان میں ماریشش میں واقع Lemone کا وہ پہاڑ تھا جوکہ کسی زمانے میں مفرور غلاموں کی پناہ گاہ ہواکرتاتھا۔ دوسرا اضافہ مٹی سے تعمیرکئے گئے ان مکانات کا تھاجوکہ مین کے صوبہ فوجہاں (Fujain)میں واقع ہیں۔کمیشن برائے سیاحت اور آثار قدیمہ کے سکریٹری جنرل شہزادہ سلطان بن سلمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ تاریخی اعتبار سے زبردست اہمیت کے حامل اس ورثہ کوبین الاقوامی سطح پرتسلیم کئے جانے والا ہے ایک اہم قدیم ہے ’’ انہوں نے مزیدکہاکہ سعودی عرب نے اس مقام کے انتظامات ،تحفظ اور بازآبادکاری کاجامع منصوبہ یونیسکو کے سامنے پیش کردیاہے۔ اورمنصوبہ پرکام کرنابھی شروع کردیاہے۔

یونیسکو میں مملکت کے مستقل نمائندہ زیادال رائش کہتے ہیں کہ مدائن صالح کلچرل اورآثار قدیمہ کی قدور منزلت کے سبب اسی کوبین الاقوامی ادارہ میں رجسٹر کرانا آسان ہوگیا تھا ۔

ڈیزائن میگزین کے بانی اورتخلیقی ڈائریکٹر خالد عطار کاکہنا ہے کہ ملکت کے باشندوں اوربیرونی افراد کواپنی جانب یہ متوجہ کرلے گاجوکہ اسے دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جنرل کمیشن برائے سیاحت اورآثار قدیمہ کے مطابق شہزاہ سلطان سیاحت کوفروغ دینے کیلئے کوشش کررہے ہیں۔

ورلڈ ٹورزم آرگنائزیشن (ڈبلیوٹی او) کہ ذریعہ جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق سیاحت سے سعودی عرب کے مسائل جیسے بے روزگاری ناقص معیار زندگی ، بڑے شہروں میںہجرت کرنا اورعوامی خدمات پردبائو ہونا وغیرہ حل ہوجائیں گے۔ اوراس سے ملک کی کثیر جہتی ترقی بھی ہوجائے گی۔ اس جائزہ سے یہ امید بھی کی جاسکتی ہے کہ مملکت میں سیاحت سے ہونے والی آمدنی 2020 تک 101 بلین سعودی ریال ہوجائے گی۔

حالیہ برسوں میںمملکت نے سیاحت کے شعبہ کومضبوط کرنے کیلئے مرحلہ وار اقدامت کئے ہیں۔ اس وقت مملکت میں 6,366 آثار قدیمہ اورتاریخی مقامات ہیں جن میں سے 1975 تعمیراتی آثار قدیمہ کے تحت آتے ہیں۔ اس خطہ میں 6 ایسے مقامات ک شناخت کی گئی ہے جوکہ سیاحت کے نظریہ سے اہمیت کے حامل ہیں ۔مدینہ شہر، ال اولیٰ ، یانبو، ال رئیس، بدر اورخیر قابل ذکر مقامات ہیں۔مدینہ منورہ میں کثیر تعداد میں تاریخی مقامات ہیں ۔20 سالہ حکمت عملی کامقصد بھی یہی ہے کہ مملکت میں مدینہ منورہ سیاحتی مراکز میں سے سب سے برا سیاحت کامرکز بن جائے ۔اس میں بحیرئہ احمر کے ساحل پرواقع یانبو علاقہ کا ڈیولپمنٹ بھی شامل ہے جہاں پرسیاحوں کیلئے ریزارٹ قائم کئے جائیں گے۔ پوری دنیا کیلئے مدائن صالحؑ کی یکساں اہمیت ہے۔اس مقام کوعزت بخشنے کامطلب یہ ہے کہ عالمی ادارہ نے عالمی تہذیب کی عزت افزائی کی ہے جسے بہت ہی اچھی طرح سے اسے محفوظ رکھا گیاہے۔ حالانکہ اسے محفوظ رکھنے کا کام نہایت دشوار تھا تاہم ایک ایسا شہر جوکہ وقت کے ساتھ ساتھ مخدوش ہوگیاتھا اب وہ ایسا محسوس ہوتاکہ جسے اسے کل ہی تعمیر کیاگیاتھا۔

بین الاقوامی آثار قدیمہ کی فہرست میں اسے شامل کئے جانے کی وجہ سے اسے یونیورسل درجہ حاصل ہوگیاہے اورانتخاب کے 10 ضابطوں میں سے یہ ایک ضابطہ کاحامل ہوجائے گا۔
2004 کے اختتام تک عالمی آثار قدیمہ کاانتخاب 6 ثقافتی اور 4 فطری ضابطوں کی بنیاد پرہواکرتاتھا۔ ترمیم شدہ گائڈ لائنوں کے نفاذ کے بعداب 10 ضابطوں کاایک سیٹت نافذ کیاجاتاہے۔

٭ انسان کے ذریعہ کی گئی مثالی تخلیق کی نمائندگی
٭ عالمی ثقافتی دائرہ کے تحت انسانی اقدار کے آپسی تبادلہ کااظہار
٭ ثقافتی روایت یاتہذیب جوکہ موجود ہے یاغائب ہوچکی ہے اس کاغیر معمولی تعمیراتی ثبوت پیش کرنا۔
٭ کسی بھی روایتی انسانی بستی، اراضی، بحری خطہ جس سے کہ کلچرل ترجمانی ہوتی ہو،
٭ ماحولیات کے تعلق سے انسانی رابطہ ہو، خصوصی طورپر ایسی حالت میں جبکہ اس پرتبدیلیا ںاثرانداز ہوں کی شا نداری مثال پیش کرنا۔
٭ موجودہ روایات، خیالات،عقائد سے راست طورپر رابطہ
٭ فطری خوبصورت اورجمالیات اہمیت کے حامل مقامات کے مظہرات
٭ ارضی تاریخ کے بڑے مراحل کی شانداری مثال پیش کرنا۔
٭ رواں ایکولوجیکل اوروبایولوجیکل عمل کی شاندار مثال پیش کرنا۔
٭ نہایت اہم فطری عادات کومختلف بایولوجیکل تحفظ فراہم کرنے کی مثال جس میں نوع انسان یا ایک جیسی خوبیاں، رکھنے والوں کوخطرہ لاحق ہوں۔

مدائن صالح (صالح کا شہر) ال اولیٰ کے نخلستان کے شمال میں 20 کلو میٹر کے فاصلہ پرواقع ہے اور مدینہ منورہ کے شمال میں الحجر وادی ہے 450 کلو میٹر کے فاصلہ پرہے۔ 460 فٹ اونچائی پر ال ہجر جنوبی مدائن کے ال اوپرد(Al- uwayrid)تعمیرات کے جنوب مغرب میں واقع ہے وہیں پرمدائن صالحؑ ہے۔محل وقوع نے اس وادی کوایسا فطری اسٹیشن بنادیا کہ اس کی وجہ سے شام ،جارڈن لبنان اورفلسطین اوریمن کوکلچر اورزرخیزی سے مستفیض کرنا ہے۔
قرون وسطیٰ اورقبل از تاریخ صالح کے شہروں میں قوم ثمود کی آبادی تیں جوکہ جارڈن میں بناتیوں کے پیش روتھے۔

اس کا ذکرقرآن مقدس میں کیاگیاہے۔ اسی مقدس کتاب میں پیغمبرصالحؑ کاذکر کیاگیاہے، جسے ہی کوئی شخص اس وادی کے مدائن میں کھڑا ہوتاہے توایسا محسوس ہوتاہے کہ شوریدہ ہوائیں کچھ کہانیاں سنارہی ہیں جوکہ بنی نوع انسان کیلئے ایک درس ہے۔ قرآن مقدس کے مختلف ابواب اور آیات (7:23-78,11:61,26:141-158:23-31) اور (91:11-15) میں ذکرکیاگیاہے کہ ثمود نے غریب پڑوسیوں کوپانی اورگھاس تک رسائی کرنے سے روک دیاتھا جب صالحؑ نے ان سے توبہ کرنے کیلئے کہا توانہوںنے ان سے کہا کہ پہلے اس بات کوثابت کرو کہ حقیقت میں تم پیغمبر ہوایسا کہاجاتاہے کہ جب صالح ؑنے دعافرمائی تھی تومبارک انناقہ میں (جوکہ مدائن صالح کی شمالی وادی سے ایک اوٹنی نمودار ہوئی تھی اوروہاں پر اس نے گھٹنے ٹیک دیئے تھے) اوٹنی کے وہاں پر گھٹنے ٹیکنے کاایک مطلب تھا اور وہ مطلب یہ تھا کہ آزادنہ طورپر انہیں چرنے اور پانی پینے کی اجازت دی جائے۔ اہل ثمود نے اوٹنی کیی نسیں کاٹ کراسے لنگڑا کردیا اوراسے مرنے کیلئے وہیں چھوڑ دیا۔ اس کانتیجہ یہ ہواتھا کہ ایک زلزلہ سے وہ سب تباہ ہوگئے تھے۔ یہاں پر 132 چیمبر اورمقبرے ہیں جوکہ چٹانوں کوکاٹ کر بنائے گئے ہیں۔ باقی بچی ہوئی دیواریں، ٹاور پانی کا لائن اورحوض وغیرہ اس علاقہ میں ادھر ادھر دکھائی دیتے ہیں۔ اس جگہ پرکچھ مکانات بھی دیکھے گئے ہیں جوکہ جارڈن کے شمال میں پیڑ سے تقریباً 440 کلومیٹر بناتین شہر میں قابل رہائش تھے۔ مدائن صالح میں ایسی خصوصیات نطر آئی ہے کہ یہاں پران مقبروں کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کی گئی ان کے سامنے والے حصوص کی آرائش کی گئی تھی جوکہ مسیح پہلی صدی سے لیکر عیسوی پہلی صدی سے منسوب کی جاتی ہے۔ اس جگہ پربناتین دورسے قبل کے تقریباً 50 کہنے اورکچھ غاروںمیں ڈرائینگ بھی دیکھنے کوملتی ہے ۔کئی نسلوں سے اس جگہ کے اندروںنی شاندار حصہ میں بہت سے باقیات ابھی بھی موجود ہیں۔ یہاں پر رتیلے پتھر کی دیواروں میں کھود کر افقی طاق بنائے گئے ہیں۔ ان کے سامنے والے حصہ کی زبردست طریقے سے حفاظت کی گئی تپی اوران کے طرز تعمیر میں بھی مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ یہاں پلاسٹر ک مددسے پہلومیں ایک بڑا دروازہ تعمیر کرایاگیاتھا جس کی یونانی طرز پر جیلوں، برتنوں ،ابولہول(ایک قسم کاپردارکیڑا) اورسانپ کے چوڑوں سے آرائش کی گئی تھی۔

ایک عمومی شکل جوکہ دروازوں پرگائے کے پیر کے مشابہ ہے وہ بھی دیکھنے کوملتی ہے تاریخ کے ماہرین کوسب سے زیادہ متوجہ کرنے والی بات ہے کہ زیادہ ترمقبروں دروازوں پرنقش کی گئی مربع تختیاں آویزاں ہیں جن کاحوالہ 3 عیسوی قبل سے 79 عیسوی تک سے دیاجاتاہے۔
عرصہ دراز کے بعدمدائن صالح کااہم اسٹیشن جوکہ ترکوں کے دورمیں تعمیر کردیاگیا تھاجو اس کا حجاز ریلوے سے تھاجوکہ گذشتہ صدی کی دوسری دہائی میں مدینہ منورہ اور دمشق کے درمیان رابطہ کاکام کرتاتھا۔ تاریخی حجاز ریلوے اسٹیشن کا بقیہ حصہ عثمانی حکمرانوں کے ذریعہ تعمیر کرایاگیاتھا جوکہ جنگ عظیم اول کے دروان تباہ ہوگیاتھا۔ بنیادی طورپ حجاز ریلوے لائن کاقیام 1908 میں عمل میںآیاتھا جس کا مقصد عازمین حج کو دمشق سے مدینہ منورہ لا ناتھا تاکہ عازمین مکہ معظمہ میں فریضہ حج اداکرنے کیلئے آمدورفت کرسکیں۔ حالانکہ اس کا تصور 1864 میں کیاگیا تھا جب کہ پور دنیا میں ریلوے لائن بچھانے کی بات ہورہی تھی لیکن 40 برسوں کے بعد حجاز ریلوے اسٹیشن وجود میں آیاتھا۔
اب سعودی حکومت نے مدائن صالح ؑ سے لیکر ال اولیٰ تک ایک نیاروڈ تیارکرادیاہے۔ واضح رہے کہ ال اولیٰ قدیم ترین انسانی بستیوں میں سے ایک بستی ہے اسلامی شہروں کیلئے سعودی عرب میں طریف کو ایک رول ماڈل تصور کیاجاتاہے۔ جہاں پر نجدی اورعربی جزیرہ نما کاطرز تعمیر نظر آتاہے یہ بھی ایک تاریخی مقام ہے جومہ سعودی عرب اور نجد کے علاقہ کے درمیان میں واقع ہے جوکہ طرز تعمیر ات کہ اعتبار سے دستاویزات تیار کرنے کیلئے اہمیت کی حامل ہے۔
چونکہ مدائن صالح اب یونیسکو کی آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل کرلیاگیاہے۔ توعالمی سطح پر اس کی مقبولیت ہونے کی وجہ سے سیاح اس کی جانب متوجہ ہونے لگیں گے۔ اس کی وجہ سے سیاح نہ صرف کی اس قدیم اورتاریخی ورثہ کا دیدارکرسکیں گے بلکہ سیاحتی شعبہ کو بھی ترقی مل جائے گی اوروژن 2020 کے اہداف مکمل کرانے میں بھی اسکا اہم رول ہوگا۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close