Khabar Mantra
محاسبہ

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

مہاراشٹر میں آرایس ایس کے سہ روزہ اجلاس کے خاتمہ کے بعد ہی ملک میں ایک نیا طوفان اٹھ کھڑا ہو اہے۔ بی جے پی چیف امت شاہ کی موجودگی میں ملک کو ہندو راشٹر بنانے اور خاص کرایودھیامیں مندر کی تعمیر کو لے کر کھلی جنگ کا اعلان ہو چکا ہے۔ آرایس ایس نے حکومت و عدلیہ دونوں کو دوٹوک وارننگ دی ہے کہ حکومت مندر کے لئے یا تو قانون بنائے یا آرڈیننس لائے۔ اسی طرح عدلیہ کو بھی کھلی دھمکی دی گئی ہے کہ کورٹ ہندو بھاونائوں کو سمجھے۔ فیصلہ کا مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا اورمندر کے لئے 1992کی طرح آندولن چلایا جائے۔ ابھی آر ایس ایس کی اس دھمکی کی گونج ختم بھی نہیں ہوئی کہ دہلی میں رام مندر کی تعمیر کے لئے ملک بھر سے آئے سادھو سنتوں کا دو روزہ اجلاس بھی جاری ہے۔ اس اجلاس میں 3ہزار سادھو سنت اور مہنت ایودھیا میں رام مندر تعمیر کے لئے حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ اطلاع کے مطابق وہ مندر تعمیر کے لئے پی ایم مودی کو مذہبی فرمان سنائیں گے، کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ مودی کو ملک کی اکثریت نے مندر کی تعمیر کے وعدہ پر ہی ووٹ دیا ہے۔ لہذا، اب وہ اپنا وعدوں پورا کریں۔

تیسری طرف، وشو ہندو پریشد کے سینئر رہنما پروین توگڑیا رام مندر تعمیر کے لئے اپنی ڈفلی اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔ وہ مودی پر سے بھروسہ چھوڑ کر خود مندر تعمیر کرانے کے لئے آگے آئے ہیں۔ وہ کیسے ایودھیا میں مندر بنائیں گے، یہ الگ سوال ہے، لیکن ملک میں اچانک جس تیزی کے ساتھ مندر کی تعمیر کا طوفان کھڑا کیا گیا ہے، وہ بھلے ہی ایک سیاسی کھیل کا حصہ ہے، لیکن یہ کھیل ملک کی سیکولر فضا، آپسی رواداری، پریم، بھائی چارہ اور ملک کے سنسکار کو کس طرح سبوتاژ کرے گا اس پر آج ہر ذی شعور تشویش زدہ ہے۔ سیکولر ہندوستان میں مذہبی جنون اور آستھا کے طوفان سے کیا ملک کے قوانین عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، سیکولرزم خاص کر ملک کے آئین کے پرخچے اُڑ جائیں گے او ر ہرشئے پر بھاونا حاوی ہو جائے گی، آستھا حاوی ہو جائے گی، یہ اندیشہ آج ہر سیکولر فکر رکھنے والے فرد کے آگے ایک بڑا سوال بن چکا ہے۔

کبھی سونے کی چڑیا کہلانے والے ہندوستان میں آج حالات کیسے ہیں؟ اقتصادی طور پر ہر شخص پریشان ہے، ذہنی طور پر خوفزدہ ہے، نوٹ بندی، جی ایس ٹی کی مار نے اہل تجارت کی کمر توڑ دی ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی بے روز گاری ملک کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ روپے کی دن بہ دن گھٹی قیمت اور تیل کی روز افزوں بڑھتی قمیت نے ہندوستانی معیشت کی پول کھول دی ہے۔ کسان خودکشی کر رہے ہیں۔ یہ سب ایسے المناک مناظر ہیں جو آج ہندوستان کی تصویر بن چکے ہیں، جس بد عنوانی کوختم کرنے کا نعرہ لے کر یہ حکومت وجود میں آئی تھی، وہی حکومت اب بدعنوانی میں گردن گردن ڈوب چکی ہے۔ رافیل ڈیل حکومت کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے، لیکن یہ اس کی آمریت کا حوصلہ ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے لئے سی بی آئی، الیکشن کمیشن سے لے کر آر بی آئی تک خود مختار ادارے سب کو کٹھ پتلی سمجھ کر انہیں رقص کرنے پر مجبور کر رہی ہے اور جو رقص نہیں کرتا، اسے تڑی پار کر دیا جاتا ہے۔ خدا کا شکر ہے اور ہندوستانی مٹی کا اثر ہے کہ ابھی تک عدلیہ ان فتنہ سازیوں کے چنگل سے آزاد ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اب فسطائی قوتیں اقتدار کے نشہ سے سرشار، نام نہاد ہندوتو اور بھاونائوں کے علمبردار بن کر عدلیہ کے وقار کو مجروح کر رہی ہیں۔ پارٹی کا صدر کھلے عام کہہ رہا ہے کہ عدلیہ کو ایسے فیصلے نہیں کرنے چاہیئں، جوکہ نافذ نہ ہو سکیں۔ کوئی مرکزی وزیر صاحبہ، کوئی وزیراعلی، کوئی نائب وزیراعلی آئینی عہدہ پر سرفراز کوئی فرد حلف لینے کے باوجود کورٹ کی جس طرح توہین کر رہا ہے، عدلیہ کے وقار کو جس طرح مجروح کر رہا ہے وہ یقیناً ملک کو آمریت کی طرف لے جانے والا ہے اور یہ بھی سوال کھڑا کر رہا ہے کہ کیا ملک دستور سے چلے گا، عدل وقانون سے چلے گا، طریقۂ جمہور سے چلے گا یا صرف بھاونائوں سے چلے گا؟ کیا سڑکو ں پر کھڑی بھیڑ کی نعرہ بازی حقیقت مانی جائیں گی یا ملک کے آئین اور قانون کی باتوں کو اہمیت دی جائے گی۔ ملک ایک دوراہے پر کھڑا ہے، یہ دور ٹرانزیشن کا ہے، جو طے کرے گا کہ یہ ملک دستورِہند کی ڈگر پر چلے گا یا اس ملک کو کچھ لوگ ہانکتے ہوئے لے جائیں گے؟

اگر چہ مندر کی تعمیر کا راگ ہر چنائو کے موقع پر الاپا جاتا رہا ہے اورحکومت کی ہم نوا تنظیمیں سُر میں سُر ملاتی رہتی ہیں، لیکن اس بار الیکشن سے چند ماہ قبل جس تیزی کے ساتھ مندر کی تعمیر کا طوفان اٹھا یا جا رہا ہے، وہ فسطائی سیاست کا شاید آخری گیم ہے۔ آرایس ایس دیکھ رہی ہے کہ موجودہ دور میں جہاں تمام آئینی ادارے، تمام خود مختار ادارے حکومت کے آگے سرنگوں ہو چکے ہیں، ایک عدلیہ بچی ہے، اس کو بھی دیکھ لینے کی تیاریاں ہیں، چنانچہ ایسے دور میں جہاں سب کچھ اپناہے، اس دور میں مندر نہ بنے تو پھر کبھی نہیں بن سکتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ مہاراشٹر میں آر ایس ایس کے سہ روزہ جلسے کے بعد دہلی میں سنتوں کی سبھائیں اور پھر جنوری میں کنبھ میلہ میں مندر تحریک کے تعلق سے ایک مربوط حکمت عملی بنانے کا منصوبہ ہے، پھر 1992کی طرح ملک بھر میں ’مندر وہیں بنائیں گے‘ کا نعرہ گونجے گا اور مذہبی جنون کا ہر سمت جلوہ ہو گا۔ ایسے دور میں جہاں صرف بھاونائوں کی بات ہو رہی ہے، عدل و قانون کو بے بس کیا جا رہا ہے، آئینی اداروں پر نکیل ڈالی جا رہی ہے ان سب تناظر کے باوجود رواداری، بھائی چارہ، امن و آشتی اور سنسکار کی جڑیں ابھی ملک میں باقی ہیں، اسے روندنے کی لاکھ کوشش کے باوجود وہ ابھر کر سامنے آرہی ہیں۔ نئے ماحول کے خلاف احتجاج بھی کر رہی ہیں اور یہ بھی آوازیں اٹھا رہی ہیں، لوک تنتر بھیڑ تنتر سے نہیں چل سکتا، انیکتا ہی ایکتا کی خوبصورتی ہے، اسی احتجاج، ردعمل کا نتیجہ ہے کہ حال ہی میں جو سروے آیا ہے، اس میں مقبولیت کے مقابلہ میں راہل، مودی سے محض چند قدم پیچھے ہیں۔ 2019کا الیکشن جیتنے کے لئے اٹھائے گئے مندر تعمیر کے طوفان کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ اس کے ردعمل میں مسلمان سڑکوں پر آئیں، تاکہ نام نہاد مذہبی جنون کو مزید تقویت مل سکے، لیکن میں مسلمانان ہند کے صبر وتحمل اور دُوراندیشی کی ستائش کرتا ہوں، جنہوں نے ہمیشہ بابری مسجد۔رام جنم بھومی مقدمہ میں کورٹ کے فیصلہ کی تابعداری کا اعلان کیا ہے۔ ملک کے آئین، عدل وقانون کی پاسداری یہاں کے ہر مسلمان کی رگ و پے میں پیوستہ ہے۔

یہی تدبر فسطائی قوتوں کے منصوبوں کو ناکام کر دے گا۔ مندر کی تعمیر کا طوفان ہر پانچ سال پر اٹھتا ہے، لیکن اس بار کے طوفان میں خود بی جے پی بری طرح ڈول رہی ہے کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ کیونکہ دہلی سے لے کر یوپی تک دونوں جگہوں پر مضبوط حکومت ہے پھر بھی وہ مندر بنانے سے قاصر ہے۔وہ جانتی ہے کہ مندر کے نام پر بھاونا کو بھڑکایا جاسکتا ہے، لیکن بھاونا کے نام پر عدلیہ کو فیصلہ کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، اگر ایسا ہوا تو ملک آمریت کی طرف چلا جائے گا اور آمریت کی مدت بہت قلیل ہوتی ہے، کیونکہ دنیا نے دیکھا ہے کہ مطلق العنانیت اور آمریت کے سہارے حکمرانی کرنے والے کا قدرت نے کیا حشر کیا ہے۔ بقول فیض:

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close