Khabar Mantra
محاسبہ

جو خلق اٹّھی تو سب کرتب و تماشا ختم ہوگا

محاسبہ...........................سید فیصل علی

وقت کا یہ کیسا انقلاب ہے کہ آج ہر وہ فکر زیرعتاب ہے جو ملک کے عظیم سنسکار و اقدار کی پیرو ہے، جو دیرینہ رواداری اور گنگا جمنی تہذیب کی ترجمان ہے۔ جوں جوں 2019 کے الیکشن کی دھمک قریب آرہی ہے، ملک میں بے اطمینانی اور مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ 20 دسمبر کو مرکز کے ذریعہ نیا فرمان لایا گیا ہے جس سے ماحول میں مزید بے چینی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ نئے فرمان کی رو سے ہر شخص سرکاری نگاہ کی زد میں ہے۔ اب ہر کمپیوٹر، اکائونٹ، فیس بک، وہاٹس ایپ موبائل وغیرہ سب سرویلانس پر ہوں گے۔ آپ کے ڈیٹا کو کسی بھی وقت کھنگالا جا سکتا ہے۔ قومی سیکورٹی کے نام پر 10 ایجنسیوں کو دیئے گئے اختیارا ت کیا کیا گُل کھلائیں گے، الیکشن سے قبل ملک میں کیسے کیسے کرتب دکھائے جائیں گے، اس پر آج ہر ذی شعور فکر مند ہے۔ سپریم کورٹ کے معروف وکیل وراگ گپتا اسی فکر کا ذکرکرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ کمپیوٹر پر نگرانی انتخابی سیاست کا حصہ تو نہیں، مخالفین پر لگام لگانے کا حربہ تو نہیں؟

المیہ تو یہ ہے کہ ایک طرف حکومت مخالف فکر پر نظر رکھی جا رہی ہے تو دوسری طرف میڈیا کے ذریعہ 2014 کی طرح ایک بار پھر سیاہ کو سفید کرنے کی تشہیری مہم چل پڑی ہے۔ مگر افسوس ناک منظر نامہ یہ ہے کہ میڈیا کے ساتھ ساتھ بالی وڈ کا زعفرانی چہرہ بھی سامنے آگیا ہے، جس نے ملک کی جمہوریت اور سربلندی کے لئے فرقہ پرستی سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا لیکن آج کی سیاست کا عجب شاخسانہ ہے کہ بالی وڈ بھی دو خیموں میں منقسم ہو چکا ہے۔ ہندوستان کو ایک نئے طرز فکر کی طرف لے جانے کی سیاست کا حصہ بھی بنتا جا رہا ہے۔ حالانکہ بالی وڈ کے ذریعہ ملک کی اکثریت کے ذہن کو ہندوتو کی طرف موڑنے کا عمل کوئی نیا نہیں ہے۔ ایک زمانے میں رامائن اور مہابھارت کے ٹیلی ویژن شوز ہندوتو کے فروغ میں اہم رول ادا کر چکے ہیں۔ یہ رامائن کی مقبولیت اور تحریک کا ہی اثر ہے کہ ایودھیا میں رام جنم بھومی قضیہ کو ایک تحریک ملی تو ہندوتو کو بھی تقویت ملی اور بی جے پی اس مسئلہ کو آندولن کی شکل میں ڈھالنے میں کامیاب رہی۔ لیکن اس دور کے بالی وڈ میں ہندوتو اور ہندو راشٹر کے فروغ کے لئے لوگ خال خال ہی نظر آتے تھے۔ راما نند ساگر، بی آر چوپڑا کے علاوہ کوئی بڑا فلم ساز اس سمت راغب نہیں تھا لیکن آج کا منظر ہی بدلا ہوا ہے۔ اب تو بالی وڈ میں بھی ایسی فلمیں بنائی جانے لگی ہیں جو ملک کی تہذیب وتاریخ، سیکولر جمہوری ماحول کو آلودہ کرنے میں پیش پیش ہیں اور بی جے پی کے مقاصد کو کسی نہ کسی طرح سے تقویت پہنچا رہی ہیں۔

پانچ ریاستوں میں شکست کے بعد بی جے پی کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ نوٹ بندی، مہنگائی، جی ایس ٹی، بے روزگاری کے مارے عوام کا ذہن ہندوتو کی طرف نہیں موڑا گیا تو وہ اقتدار سے محروم ہو جائے گی۔ چنانچہ اب فلموں کے ذریعہ بی جے پی کے مقاصد کو پورا کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے، جس کے تحت کئی فلمیں منظر عام پر آچکی ہیں اور مزید تین نئی فلمیں ریلیز کے لئے تیار ہیں، جس میں سب سے خاص فلم ’ایکسیڈینٹل پرائم منسٹر‘ ہے، جس کا موضوع کہیں نہ کہیں پریوار واد، کانگریس مکت بھارت کو تقویت دیتا ہے اور یہ بھی احساس کراتا ہے کہ ان فلموں کا مقصد باکس آفس پر نہیں بلکہ ان کا ٹارگیٹ کسی خاص فکر کو آگے بڑھانے کا ہے۔ ’ایکسیڈینٹل پرائم منسٹر‘ ایک طرح سے پالیٹیکل ڈرامہ ہے، جو سنجے بارو کی کتاب پر منحصر ہے۔ سنجے بارو 2004 سے لے کر 2008 تک یوپی اے دور اقتدار میں وزیراعظم منموہن سنگھ کے میڈیا صلاح کار تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کس طرح منموہن سنگھ ایک کٹھ پتلی وزیراعظم کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ہر بڑا فیصلہ کرنے کے لئے وہ 14 جن پتھ خاص کر سونیا گاندھی کے محتاج تھے۔ سنجے بارو کی کتاب کسی نہ کسی طور پر بی جے پی کے مقاصد کو تقویت دے رہی ہے۔ کانگریس مکت بھارت اور نہرو خاندان سے عوامی عقیدت ختم کرنے کی فکر کا حصہ بن رہی ہے۔ چنانچہ اسی کتاب پر فلم بنائی گئی ہے، جس میں منموہن سنگھ کی بے بسی اور کانگریس میں جمہوری نظام کے بجائے نہرو خاندان کی حکمرانی کو دکھایا گیا ہے تاکہ راہل گاندھی کی دہلی کی گدی گرم رکھی جا سکے۔ ’ایکسیڈینٹل پرائم منسٹر‘ 11جنوری کو ریلیز ہو رہی ہے۔ اسی طرح’ اڑی‘ نامی فلم بھی 11جنوری کو ریلیز ہو رہی ہے۔ ’اڑی‘ فلم میں سرجیکل اسٹرائک کو لے کر وزیراعظم مودی کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح بالا صاحب ٹھاکرے پر مبنی فلم ‘ٹھاکرے‘ 23 جنوری کو ریلیز کی جا رہی ہے۔ اس فلم کی نمائش پر شیو سینا، سنجے رائوت اور ٹھاکرے پریوار اتنا پُرجوش ہے کہ وہ فلم میں مسلمانوں کے حوالے سے، بابری مسجد کے تعلق سے بالا صاحب کے متنازع بیانات کو سامنے لانے پر آمادہ ہے۔ اسے امید ہے کہ یہ فلم اور اس میں شامل اشتعال انگیز بیانات سے پارٹی کو زبردست فائدہ ہوگا۔ اسی طرح ’ایکسیڈینٹل پرائم منسٹر‘ سے تو بی جے پی کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں کہ یہ فلم عوام کے ذہن کو کانگریس کی طرف جانے سے روکنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس فلم کو بی جے پی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ریلیز کیا ہے۔

خاص بات تو یہ ہے کہ ان ساری فلموں کی ریلیز ٹائمنگ آنے والے لوک سبھا الیکشن کے تناظر میں رکھی گئی ہے اور اس بات کو سمجھنے میں کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ ان تینوں فلموں کے نشانے پر کانگریس ہے اور ملک کی جمہوریت ہے، ملک کی یک رنگی تہذیب اور ہندو راشٹر کی طرف عوام کا ذہن ڈھکیلنا ان فلموں کا خاص مقصد ہے، اگر چہ فلموں کے ذریعہ عوام کے اذہان کو موڑنے کا عمل ہندوستان میں ہی نہیں امریکہ تک میں ہوا ہے، جہاں ایسی فلمیں بنائی گئی ہیں، جن سے اقتدار حاصل کرنے میں مدد ملے۔ امریکہ میں ARGOO اور SWING BODES جیسی فلمیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں، جنہوں نے آخری لمحے میں ووٹوں کا فیصلہ کرنے والوں کو متاثر کیا۔

بہر حال عوام کا ذہن موڑنے، نفرت کی سیاست کو فروغ دینے اور ہندوتو کی راہ ہموار کرنے کے لئے ہندوستان میں ’باجی رائو مستانی‘ اور ’پدما وت‘ جیسی تاریخی فلمیں بھی بنائی جا چکی ہیں۔ اگر چہ دور جدید میں نئی ٹیکنالوجی نئی روشنی کا ضامن ہوتی ہے لیکن یہ دونوں فلمیں ملک کو نئی روشنی کی طرف لے جانے کے بجائے دقیانوسی تیرگی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ اب پدماوت فلم کو لیجئے سلطان علاؤالدین خلجی کی شخصیت اور حکمرانی ہندوستانی تاریخ کا ایک زریں باب ہے، اس کی مارکیٹنگ کی پالیسی آج بھی اقتصادی دنیا کے لئے مثال ہے لیکن اس عظیم حکمران کو فلم میں کالے کپڑوں میں لپٹا ہوا، گوشت کھانے والا شیطان دکھایا گیا ہے۔ راجپوت راجہ راول سنگھ کو سفید کپڑوں میں تیاگ، بلی دان، پاکیزگی اور انسانیت کا مسیحا دکھایا گیا ہے۔

اسی طرح فلم مستانی میں بھی پیشوا باجی راؤ کو ہندوستان کاعظیم سپہ سالار اور بہادر ملٹری کمانڈر دکھایا گیا ہے، جو تاریخ کے بالکل برعکس ہے۔بلاشبہ یہ فلمیں مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور ہندوراشٹر کے ایجنڈے کے فروغ کا بھی وسیلہ بن رہی ہیں۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق اب مودی جی پر بھی فلم بن رہی ہے، جس میں وویک اوبرائے مرکزی کردار ادا کریں گے یہ فلم الیکشن کے موقع پر ہی ریلیز کئے جانے کی خبر ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ اچھے دنوں کا خواب دکھانے والوں سے کیا عوام 2019 میں جواب طلب نہیں کریں گے یا فلم دیکھ کر ہندوتو کی لہر میں بہہ جائیں گے۔ اس سوال کا جواب پانچ ریاستوں کے انتخابات سے بھی مل چکا ہے۔ ایک امید سی بھی پیدا ہوئی ہے کہ جس ملک کے خمیر میں گنگا جمنی تہذیب کی خوشبو پنہاں ہے کیا وہاں کے عوام فلم دیکھ کر اپنے درد کو بھول جائیں گے، یک رنگی تہذیب کو ترجیح دیں گے۔ بقول افتخار عارف:

دل نا مطمئن ایسا بھی کیا مایوس ہونا
جو خلق اٹّھی تو سب کرتب و تماشا ختم ہو گا

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close