Khabar Mantra
دلی این سی آردلی نامہ

123جائیدادیں دہلی وقف بورڈ کی ، وہی ان کا متولی :سابق مرکزی وزیر کے رحمن

نئی دہلی :دہلی کی متنازع 123جائیدادوں کے معاملہ میں سابق مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور اور کانگریس کے سےنئر لیڈر کے رحمن خان نے کہا کہ یوپی ا ے کی حکومت نے۴۱۰۲ میں ان سبھی جائیدادوں کا فیصلہ دہلی وقف بورڈ کے حق میں دیا تھا جس کو بعد میں دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ۔ یہ بات غور کرنے کی ہے کہ ہائی کورٹ میں یو پی اے کی مرکزی حکومت کے اختیار کو چیلنج نہیں کیا گیا تھا ، بلکہ انتخابی ضابطہ اخلاق کو بنیاد بنایا گیا۔ بعد میں این ڈی اے کی حکومت نے اس تعلق سے پہلے یک رکنی کمیٹی بنائی ۔

 اس کمیٹی نے بھی اپنا فیصلہ دہلی وقف بورڈ کے حق میں دے دیا جس کی سفارشات کو منظر عام نہیں لایا گیا بلکہ این ڈی اے حکومت نے بد نیتی سے بعد میں دو رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ۔ اس کمیٹی کو وقف بورڈ نے کورٹ میں چیلنج بھی کیا۔ انہو ں نے مزید کہا کہ دو رکنی کمیٹی جو ریٹائرڈ جسٹس ایس پی گرگ اور ایس ڈی ایم رادھا چرن پر مشتمل تھی اس نے دہلی وقف بورڈ پر اپنا موقف نہ رکھنے کا الزام لگاکر ان سبھی 123جائیدادوں سے اسے فریق کے طور پر باہر نکال دیااور ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کمیٹی نے ان جائیدادوں کے سروے کا بھی اعلان کر دیا۔کے رحمن خان نے کہا کہ یوپی اے کے نوٹیفکیشن کے بعد یہ جائیدادیں قانونی اعتبار سے دہلی وقف بورڈ کی ہیں۔

 وہی ان کا متولی ہے لیکن بعد میں جو کچھ حالات بنے ہیں اس کے لئے وقف بورڈ ذمہ دار ہے اس نے اس معاملہ کی صحیح طریقے سے پیروی نہیں کی ، بورڈ نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں ، اس معاملے کو عدالت میں پوری شد و مد کے ساتھ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک پرانا معاملہ ہے ، 1911سے 1915کے درمیان جب نئی دہلی کو قومی راجدھانی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس وقت کی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعہ شہر کے باہر کی سبھی زمینیں اور گائوں حاصل کرلئے ۔ لوگوں کو ان کی زمین کا معاوضہ دیا گیا تاہم مسلمانوں نے مساجد اور دیگر عبادت گاہوں کے بدلے معاوضہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس نوٹیفکیشن کو تسلیم نہیں کیا کیوں کہ نوٹیفکیشن جاری ہو گیا تھا اس لیے حکومت کے ریکارڈ میں یہ زمینیں سرکار دولت مدار کے نام سے آگئیں ملک کی آزادی کے بعد یہ لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ بن گیا اور اس وقت لینڈ اینڈ بلڈنگ ڈپارٹمنٹ کی شکل میں موجود ہے ۔کے رحمن خان نے مزید کہا کہ 70کی دہائی میں اندرا گاندھی نے برنی کمیٹی بنائی ۔

برنی کمیٹی کی سفارشات کے بعد وقف کی جائیدادیں 123رہ گئیں حالانکہ یہ 350سے زائد تھیں ۔ اس فیصلہ کو اندر پرستھ وشو ہندو پریشد نے چیلنج کیا ۔یہ معاملہ 20سال تک چلتا رہا۔ بعد میں حکومت نے اٹارنی جنرل اور اقلیتی امور کی وزارت کے ماہرین سے صلاح و مشورہ کرنے کے بعد ان تمام جائیدادوں کو وقف بورڈ کو دینے کا فیصلہ کیا ۔ ان کا ڈی نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد پھر سے اس کو چیلنج کر دیا جس میں انتخابی ضابطہ اخلاق کو بنیاد بنایا گیا حکومت کے فیصلہ کو نہیں ۔

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close