Khabar Mantra
محاسبہ

اسے کہو میں مرا نہیں ہوں

محاسبہ...........................سید فیصل علی

ملک عجیب بے سکونی کے دور سے گزر رہا ہے۔ ترقیاتی شرح گرتی جا رہی ہے۔ روپے کی قیمت سب سے کم درجے پر آچکی ہے۔ نیتی آیوگ نے بھی کہا ہے کہ 70 سال میں ایسا برا دن نہیں آیا تھا، مگر ان سب سے بے نیاز اب ساری کارروائی، سارا زور مخالف آواز کو کچلنے کی طرف ہے۔ سرکار کی کارکردگی پر سوال کھڑا کرنے والے کٹہرے میں لائے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن کے لیڈران کے خلاف پرانے مقدمات کھولے جا رہے ہیں، ان کے گلے میں نئے معاملات کا طوق بھی ڈالا جا رہا ہے۔ انتقامی سیاست اور ذاتی بغض و عناد کا جو منظرنامہ اس دور میں نظر آرہا ہے، ایسا نہ دیکھا گیا نہ سنا گیا۔

سونیا گاندھی نے 22 اگست کو آنجہانی راجیوگاندھی کی 75 ویں جینتی کے موقع پر آج کے بھارت اور راجیو گاندھی کے ہندوستان کا تقابل کرتے ہوئے کہا کہ راجیو گاندھی کا ہندوستان کثرت میں وحدت والا ہندوستان تھا، ان کا نظریہ تھا کہ ملک کی تکثیریت ہی اصل طاقت ہے۔ سونیا گاندھی نے مودی حکومت کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ راجیو گاندھی کو بھی زبردست اکثریت حاصل ہوئی تھی، لیکن انہوں نے اس کا استعمال لوگوں کو ڈرانے اور دھمکانے کے لئے نہیں کیا تھا۔ سونیا گاندھی کا یہ بیان سینئر کانگریسی لیڈر سابق وزیرخزانہ پی چدمبرم کی ڈرامائی گرفتاری کے تناظر میں تھا۔

آج کے حالات پر سونیا گاندھی کا یہ درد ہر ذی شعور اورسیکولر فکرونظر رکھنے والے شخص کا ایسا اظہاریہ ہے، جو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ کیا ہندوستان کی سیاست میں اپوزیشن کی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ جائے گی؟ کیا بھارتیہ راجنیتی میں ایک چھتر ایک ہی پارٹی کا نقارہ بجے گا؟ اس کا حکم اس کا فیصلہ حرف آخر ہوگا؟ اس کی پالیسی اس کی کارکردگی یا اس کے کسی بھی عمل کی مخالفت کی جرأت کسی میں نہیں ہوگی؟ بغیر اپوزیشن کے چلنے والی حکومت کا یہ تصور بڑا ہی اذیت ناک ہے۔

ملک میں اپوزیشن کے انتشار اور خوف کی جو صورتحال ہے، خاص کر ملک کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس کا جو بحران ہے، وہ کم افسوس ناک نہیں ہے۔ حالانکہ اب کمان سونیا گاندھی نے پھر سے سنبھال لی ہے، مگر اس کے باوجود کئی لیڈران پارٹی کی پالیسی کے برعکس آرٹیکل 370 پر حکومت کے حامی ہیں۔ جے رام نریش نے تو یہاں تک کہا ہے کہ نریندر مودی کو ’کھل نائک‘ (وِلن) کہنا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کئی اچھے کام بھی کئے ہیں، ان کی ستائش ہونی چاہیے۔ ششی تھرور، ابھیشیک منوی جیسے سینئر کانگریسی لیڈر اس کی تائید بھی کر رہے ہیں، مگر آج کے دور میں ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جب کسی لیڈر کی دکھتی رگ حکومت کے ہاتھ میں ہوتی ہے یا وہ حکومت سے ڈرا ہوا ہوتا ہے تو سرکار کی قصیدہ خوانی مجبوری ہو جاتی ہے، لیکن جب کوئی رہنما آنکھ میں آنکھ ڈال کر حکومت سے باتیں کرتا ہے، اس کی مخالفت کرتا ہے تو پھر ایسے قائدکو پابند سلاسل کرنے اور اسے کمزور کرنے کا ہرحربہ استعمال ہوتا ہے۔ بنگال میں ترنمول میں توڑ پھوڑ ممتابنرجی کو کمزور کرنے کی سیاست کا ہی تو ایک حصہ ہے۔ یوپی میں مایاوتی- اکھیلش اتحاد کا خاتمہ، کرناٹک میں کمارا سوامی کی حکومت کو گرانا، اروناچل میں بی جے پی کا صفر سے گیارہ پر آجانا اسی دبدبہ کی سیاست کا ہی تو کرشمہ ہے۔

اپوزیشن کی اسی خستہ حالی نے ملک میں خوف کا ماحول پیدا کیا ہے، اب سچ کی آواز اٹھانا بھی ایک مرحلہ ہے، مگر تمام تر خستہ حالی اور بے حوصلگی کے باوجود ملک کی نگاہیں بہار کی طرف ہیں، بہار سرزمین انقلاب ہے، یہاں سے اٹھنے والی آواز کی باز گشت پورے ملک میں سنائی دیتی ہے، سیاسی پنڈتوں کی اس بات میں بڑا دم ہے کہ اگر لالو پرساد جیل سے باہر ہوتے تو قومی سیاست کی الگ روپ ریکھا ہوتی۔ لالو ہندوستان کے واحد لیڈر ہیں، جنہوں نے کبھی فرقہ پرستی سے سمجھوتہ نہیں کیا، وہ بی جے پی کے آگے نہیں جھکے، ہمیشہ آرایس ایس کی سیاست کے خلاف لڑائی لڑتے رہے، مظلوموں کو حوصلہ دیتے رہے، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سیاسی انتقام کے تحت ابھی تک جیل میں بند ہیں۔ لیکن تمام تر قیدوبند کے باوجود لالو پرساد آج بھی قومی سیاست کا رخ بدلنے کا دم خم رکھتے ہیں، منتشر اپوزیشن کو متحد کرنے میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ لالو پرساد اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ بی جے پی کی سیاست کی بقا ان کو پنجرے میں بند کرنے میں ہی ہے، لہٰذا انہوں نے بڑی دانشمندی سے اپنا شعور وسیاست و وراثت اپنے بیٹے تیجسوی یادو کو سونپ دی ہے۔ چناچہ فسطائی قوتیں پوری قوت سے تیجسوی یادو کے پیچھے پڑگئی ہیں اور ان کو کمزور کرنے کے لئے ہرحربہ استعمال کر رہی ہیں، لیکن لالو کے لال نے باپ کی طرح کبھی فرقہ پرستوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے، مظلومین کی حوصلہ افزائی میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ گزشتہ دنوں پٹنہ جنکشن کے پاس دودھ منڈی کو ہٹائے جانے کے خلاف 8 گھنٹے کا طویل ترین دھرنا ان کے حوصلے کا بے مثال نمونہ ہے۔ تیجسوی یادو نہ صرف پوری قوت سے لالو یادو کی وراثت کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں، بلکہ نئی نسل میں بھی مقبولیت کی پہچان بنتے جا رہے ہیں، یہی پہچان بی جے پی کے لئے پریشانی کا سبب بنتی جا رہی ہے۔

یہ تیجسوی یادو کا ہی دم خم تھاکہ انہوں نے گزشتہ لوک سبھا چناؤ میں 235 عوامی جلسے کرکے جس طرح بی جے پی اور آرایس ایس کی زہریلی سیاست کو نشانہ بنایا تھا، وہ اس بات کا غماز ہے کہ لالو پرساد یادو بھلے ہی جیل میں ہیں، مگر ان کا لال لالو کی آواز بن کر مظلوموں، دلتوں، پچھڑوں باالخصوص مسلمانوں کو حوصلہ ضرور دے رہا ہے کہ الیکشن میں بھلے ہی فسطائیت جیت گئی اورسیکولرزم ہار گئی، لیکن اس ہار کے باوجود تیجسوی یادو کا جوش وجذبہ اور حوصلہ یقینا 2020 کے اسمبلی انتخاب میں اقتدار کی منزل تک پہنچائے گا اور قومی سیاست کا رخ تبدیل کردے گا۔

بہرحال امکان ہے کہ بہار کا اسمبلی الیکشن مہاگٹھ بندھن کے سائے میں ہی لڑا جائے گا، کیونکہ اسمبلی وپارلیمانی انتخابات میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اسمبلی انتخابات ہمیشہ لوکل ایشوز پر لڑے جاتے ہیں، ایسے میں سیکولر سیاست کا دعویٰ کرنے والی جے ڈی یو کا بھی دھرم سنکٹ میں ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ چلے یا نہ چلے؟ اگر جے ڈی یو چناؤ اکیلے لڑتی ہے تو پھر بہار میں سہ رخی مقابلہ ہوگا، ایک طرف آرجے ڈی، کانگریس ودیگر گٹھ بندھن تو دوسری طرف جے ڈی یو اور بی جے پی ہوگی۔ جے ڈی یو کے الگ لڑنے سے بھی بہار میں آرجے ڈی کو فائدہ پہنچے گا، کیونکہ گزشتہ پارلیمانی الیکشن کی ووٹ شرح سے پتہ چلتا ہے کہ بہار کے مسلمان اور یادو آج بھی پوری طرح سے لالو یادو کے ساتھ ہیں۔ آرجے ڈی پارلیمانی الیکشن ضرور ہار چکی ہے، مگر اس کا ووٹ شرح کم نہیں ہوا ہے اور نہ اس کے ورکروں کے حوصلے میں کمی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ملک کی نظریں تیجسوی یادو کی طرف ہیں، جو لالو کی آواز بن کر اہل بہار کے دلوں میں اترتے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن کے لئے بھی اک حوصلہ بنتے جا رہے ہیں۔ لالو پرساد کے لال سے ان کی امیدیں بھی بندھتی جا رہی ہیں۔ لالو یادو نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعہ اہل بہار اور قومی سیاست کو یہ پیغام دیاہے:

ابھی غنیمت ہے صبر میرا، ابھی لبالب بھرا نہیں ہوں
وہ مجھ کو مردہ سمجھ رہاہے، اسے کہو میں مرا نہیں ہوں

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close