Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

ہم نے بارش میں بھی جلتے ہوئے گھر دیکھے ہیں

محاسبہ…………….سید فیصل علی

مودی جی کے پاس بھلے ہی کوئی ڈگری ہو نہ ہو لیکن غلط بیانی اور زبان دانی کے تحت برے سے برے حالات کو اپنے حق میں کرنے میں انہیں پی ایچ ڈی ضرور حاصل ہے۔ ان کی علمیت، ان کی دانشوری اور اس کو پیش کرنے کے ہنر سے ملک کی قدیم ترین تاریخ اور جانے مانے مٔورخین بھی کونے کھدرے میں چھپنے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں۔ مودی جی کو غلط بیانی، تاریخ سے چھیڑ خانی اور خطابت میں حد درجہ لن ترانی میں ید طولیٰ حاصل ہے۔ وہ سچائی کو بڑے سلیقہ اور اعتماد سے کٹہرے پر کھڑا کرتے ہیں کہ ان کی غلط بیانی کے آئینہ میں ہر دلیل، ہر تنقید، ہر مخالف کا چہرہ گڈ مڈ ہو جاتا ہے۔ چناؤ کے زمانہ میں جب وہ کسی انتخابی حلقہ میں جاتے ہیں تو وہاں کی مقامی زبان، مقامی الفاظ کو بول کر خود کو مقامی ثابت کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس حلقہ سے اپنا اور گجرات کا رشتہ بھی جوڑتے ہیں، بہار کے ایک چناوی جلسہ میں انہوں نے موہن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیب کو بہار سے ایسے جوڑ دیا کہ زبان خلق بھی گنگ ہوگئی ور اتہاسکار بھی حیران رہ گئے۔

22 ستمبر 2019 میں وہ ٹیکساس کیہوسٹن میں منعقد ’ہاؤڈی موڈی‘ـ پروگرام کے تحت امریکہ گئے۔ وہاں انہوں نے اپنے خطاب میں بڑے اعتماد اور فخر کے ساتھ امریکیوں کو مطلع کیا کہ انہیں 600 کروڑ ووٹروں نے ووٹ دے کر وزیراعظم بنایا ہے۔بہار کے گزشتہ الیکشن میں انہوں نے پورنیہ کے انتخابی جلسہ میں انکشاف کیا کہ سیمانچل میں مقیم کلہیئا برادری کا تعلق گجرات سے ہے۔ ان کی زبان بھی ہمارے گجرات سے ملتی جلتی ہے۔ غور طلب ہے کہ بہار کے سیمانچل میں کلہیئا برادری کا سیاسی دبدبہ اور سیاسی شعور کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بولتا ہے اور اسی دبدبہ کا اثر ہے کہ حلیم الدین احمد، جمیل الدین اور تسلیم الدین تک کئی لیڈران مخالف لہر میں بھی کامیاب ہوتے رہے۔ مودی کے ذریعہ کلہیّا برادری کا تعلق گجرات سے جوڑنے کا اثر تو نہیں ہوا، البتہ سیمانچل میں آر جے ڈی کی تاریخ ساز فتح ہوئی، مسلمانوں کی ٹیکٹیکل ووٹنگ نے بی جے پی کو نہ صرف ناکوں چنے چبوا دیئے، بلکہ فسطائیت کو روکنے کے لئے انہوں نے اویسی کی پارٹی کو بھی نظر انداز کر دیا۔

اب بہار میں اسمبلی کے انتخابات نومبر میں ہونے جا رہے ہیں تو ایسے عالم میں’غریب کلیان یوجنا‘ کے تحت مودی جی نے بر وقت چناوی بساط بچھا دی ہے۔ انہوں نے 80 کروڑ عوام کو نومبر ماہ تک کے لئے مفت راشن دینے کا علان کیا ہے۔لیکن سیاسی مبصرین ان کی اس فیاضی کو چناؤ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا واقعی 80 کروڑ لوگوں تک مفت راشن پہنچ جائے گا۔ اسے سیاست نہ کہیں تو کیا کہیں کہ وزیراعظم نے اس فلاحی پروگرام کی جانکاری ملک کی دو بھاشاؤں میتھلی اور بھوجپوری میں دی ہے جو بہار میں بولی جاتی ہیں۔ مودی جی نے اہل بہار کو میتھلی میں ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’گریب سب حق گریما سنشچت کرب۔ پی ایم گریب کلیان انیوجناک وستار سمپورن بھارتک کروڑوگریب لوگ کے لیل ہویئت‘‘۔ انہوں نے بھوجپوری میں ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے’’ای گریب جن کے سمان سنشچت کرے والا با۔۔۔پردھان منتری گریب کلیان یوجنا کے آگے بڑھاؤلا سے دیش بھر کے کروڑولوگن کے فائدہ ہوئی‘‘۔ بہار میں چناوی بگل بج چکا ہے۔ این ڈی اے اپنے تمام تر سیاسی حربوں کے ساتھ میدان میں ہے۔ ڈیجیٹل ریلیوں کی تیاری چل رہی ہے۔

بی جے پی نے 147 کروڑ کے صرفہ سے لاکھوں ایل ای ڈی ہر گاؤں، قصبوں، شہروں کے چوک چوراہوں پر نصب کر رہی ہے۔تو اب پی ایم نے بھوجپوری اور میتھلی زبان کے ذریعہ اہل بہار کا دل جیتنے کی سعی کی اور یہ بھی اعلان کیا ہے کہ مفت راشن کی تقسیم چھٹ پوجا تک جاری رہے گی لیکن ستم تو یہ ہے کہ انہوں نے چھٹ سمیت کئی تہواروں کا نام تو لیا لیکن عید، بقرعید، محرم کا نام ان کی زبان پر نہیں آیا کہ وہ بھی تو اسی دوران آئیں گے۔ یہ کیسا سب کا وکاس سب کا ساتھ کا وعدہ ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا "سب کا ساتھ سب کا وکاس” محض ایک پر اسرار جملہ ہے، جس میں سب تو آتے ہیں مسلمان نہیں آتا۔ ایک سوال تو یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم نے 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن دینے کی بات کی ہے کیا وہ بھی ایک چناوی اعلان ہے کیونکہ ان کی حکومت نے ڈھائی ماہ قبل بھی غریبوں کو مفت راشن دینے کا اعلان کیا تھا۔ کیا وہ ہدف پورا ہو چکا ہے؟

غور طلب ہے کہ مرکز کے ذریعہ ملک کی 36 ریاستوں کو 8 لاکھ میٹرک ٹن اناج الاٹ کیا گیا۔ خود کفیل پیکیج کے تحت راشن کارڈ والے 8 کروڑ مزدوروں کو مئی۔جون میں 5-5 کلو راشن دینے کی ہدایت بھی کی گئی۔ لیکن اب تک صرف 2.3 فیصد مزدوروں کو راشن ملا ہے۔ 97.7 فیصد مزدور ہنوز راشن سے محروم ہیں۔ اب وزیر اعظم کی نئی اسکیم کا فائدہ کسی کو مل سکے گا یہ بھی بڑا سوال ہے۔ بھارت میں کورونا بحران کے درمیان سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا مڈل کلاس، غریب طبقہ خاص کر مزدوروں کو کرنا پڑ رہا ہے، جن کی روزی روٹی چھن چکی ہے۔ حکومت کے ذریعہ راشن دینے کی سابقہ اسکیم فلاپ ہو چکی ہے۔ مزدور آج بھی مرکز کی نام نہاد فیاضی سے محروم ہیں تو اس فیاضی کے تناظر میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کورونا کے دور میں جب غریبوں کو راشن نہیں ملا تو اب نئی راشن تقسیم کاری پر کتنا اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ بہار میں کورونا مریضوں کی تعداد تقریباً 12 ہزار ہو چکی ہے۔ گھر واپس آئے لاکھوں مزدوروں کی حالت دگرگوں ہے، ان کی روزی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، انہیں مالی اعانت کی ضرورت ہے۔ بارش کے قہر اور سیلاب آنے کے خوف سے شمالی بہار کے لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔ نیپال نے باندھوں کی مرمت کا کام روک دیا ہے۔ سیمانچل، متھلانچل اور چمپارن کے علاقہ کب ڈوب جائیں کہا نہیں جا سکتا بہار میں بجلی گرنے سے 150 سے زائد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مگر ان تمام باتوں سے بے نیاز نتیش کمار کو بہار کے چناؤ کی فکر ہے، لیکن بہار کے عوام کا سیاسی شعور قبل از وقت ظاہر نہیں ہوتا۔

سابقہ اسمبلی الیکشن میں اہل بہار نے فسطائی قوتوں کو روکنے کے لئے لالو یادو اور نتیش کمار کو ووٹ دے کر اقتدار تک پہنچایا تھا، مگر نتیش کمار نے پلٹی کھائی وہ بی جے پی کی گود میں جا بیٹھے۔ بہار کے عوام اس دھوکہ دھڑی کو بھول نہیں سکے ہیں۔ چناؤ کے دوران نتیش کمار کے ڈی این اے پر سوال اٹھایا گیا تھا، جس کا بدلہ اہل بہار نے چناؤ میں لیا اب اسی پارٹی کا جھنڈا نتیش کمار نے کیسے اٹھا لیا ہے یہ بھی ایک بڑا سوال ہے۔ کرونا کے دور میں حکومت کی بے حسی اور مزدوروں کی بے کسی کا حساب کتاب بھی ہوگا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا اہل بہار خاص کر مزدور مڈل کلاس کے زخم پانچ پانچ کلو راشن کے مرہم سے بھر جائیں گے۔ مگر بی جے پی کو یہ بھی گمان ہے کہ مو دی جی کا لیہہ دورہ راشٹر واد، دیش پریم کا نعرہ ایک بار پھر ان کی جیت کا سبب بن جائے گا مگر وہ نہیں جانتے۔ بقول شاعر:

ا سے کہنا قسمت پر اتنا غرور اچھا نہیں ہوتا
ہم نے بارش میں بھی جلتے ہوئے گھر دیکھے ہیں

([email protected])

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close