Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

تعمیراتی دنیا میں اسلامی طرز تعمیر کا جلوہ

8ویں صدی سے لے کر 12 ویں صدی تک کا اسلامی دور مسلمانوں کا دنیا پر چھا جانے کا دور کہا جا سکتا ہے۔ 12 ویں صدی سے 14ویں صدی تک کے دورانیہ کو اسلامی نشاۃ الثانیہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جب مسلمانوں نے دنیا کو مسخر کر لیا تھا مشرق کے ریگستانوں سے نکل کر مغرب کے سدا بہار خطوں تک اسلام کا سورج طلوع ہو چکا تھا مگر جب مسلمان اقتدار و ثروت کے نشہ میں سرشار تھے تو قدرت نے انہیں زوال کا راستہ دکھا دیا۔ مگر ہم اس بحث سے قطع نظر مسلمانوں کی صلاحیت، ان کے ہنر وفن اور ان کی تعلیمی ترقی اور معاشی حالت پر گفتگو کریں گے کہ مسلمان جس دور میں بھی رہے اپنے کمال فن اور صلاحیت کو اجاگر کرتے رہے اور اس طرح مسلمان میڈیکل سائنس، طبیعات، کیمیا، فلکیات، ریاضی، حساب سے علم نجوم وغیرہ تک خواہ کسی میدان میں رہے ہوں انہوں نے دنیا کو جو کچھ بھی دیا بھلے ہی مغرب نے اسے اپنی ایجاد قرار دیا ہے مگر اہل مغرب اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ جدید سائنس کی بنیاد پہلے مسلمانوں نے رکھ دی تھی اور یہی نہیں آرکیٹیکچر کے میدان میں تو مسلمانوں نے اپنے فن وہنر کا ایسا باکمال مظاہرہ پیش کیا وہ آج بھی دنیا کے ماہرین فن کے لئے اک مشعل راہ ہے۔ فن تعمیرات میں مسلمانوں کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے عمارتوں کی تشکیل و ترتیب و تزئین میں اپنی ایمانی حمیت کا بھی جلوہ اس خوبصورتی سے دکھایا کہ وہ فن دور سے ہی اسلامی آرٹ کا مظہر بن کر دنیائے تعمیرات کے سامنے آج بھی اک بے مثال نظیر ہے۔ گوکہ اسلامی فن تعمیر کے اندر اس دور کی پسند اور جغرافیائی کلچر کا اشتراک بھی ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں اسلامی فن تعمیر ایرانی، ترکی، عربی، مغل فن تعمیر کے پیرہن میں نظر آتی رہی ہے اور تعمیرات کے ہر پیرہن کو مقبو لیت اور شہرت ملی ہے مگر تمام تر علاقائیت کے باوجود فن تعمیر اسلامی شناخت کا آئینہ نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے ذریعہ تعمیر کرائی گئی مسجدیں، محلات و دیگر عمارتیں آج اسلامی تاریخ کی عظمت کی گواہ ہیں اور ہزاروں سال بعد بھی اپنی طرز تعمیر شان و شوکت اور تزئین کاری کی مثال بن کر ماہرین فن تعمیرات کے آگے نشان عظمت بنی ہوئی ہیں۔ زیرنظر مضمون ترکی کے اسلامی طرز تعمیر کا احاطہ کرتا ہے، جس پر موجودہ دور کے ماہرین فن تعمیر بھی حیرت زدہ ہیں کہ جس دور میں محدود وسائل تھے، تعمیرات کی باریکیاں بھی سمجھنے کا ہنر نہیں تھا اس دور میں تعمیرات کے ایسے نادر نمونے کیسے پیش کئے گئے، جس میں جمالیاتی حسن کے ساتھ ساتھ ایمانی حمیت کا جلوہ بھی نظر آتا ہے اور یہ شناخت کراتا ہے کہ یہ اسلامی آرٹ کی پرشکوہ علامت ہے۔ ترکی کی مسجدوں اور عمارتوں میں اسلامی طرز تعمیر کا جو انوکھا پن ہے وہ انسانی حسیات اور جمالیات کا ایسا نمونہ ہے جس پر ماہرین فن تعمیرات آج بھی ریسرچ کر رہے ہیں۔ ترکی کی عمارتیں اور مسجدیں آج بھی معماروں اور تعمیراتی نقشہ سازوں کے لئے قابل توجہ ہیں۔ ان اسلامی عمارتوں میں ڈیزائننگ اور تصورات پر مبنی فنکارانہ مہارت آج بھی فن تعمیر کے مہارتھیوں کو تلقین کرتی ہے کہ اسلامی فن تعمیر آرکیٹیکٹ کی دنیا کا بادشاہ ہے جو مغرب کی تمام تر جدید تعمیرات کے تناظر میں اسلامی طرز تعمیر اپنے اندر جمالیات کے ساتھ ایسا وقار بھی رکھتا ہے جو دیکھنے والے کو نہ صرف متاثر کرتا ہے بلکہ آرکیٹیکٹ کی اس طرز تعمیر کو سب پر حاوی قرار دیتا ہے:

ہزاروں سال پہلے مسلمانوں کے ذریعہ تعمیر کرائی گئی مسجدیں، عمارتوں، محلات اور دیگر یادگاروں کی شان و شوکت آج بھی نہ صرف اہمیت کی حامل ہیں بلکہ ان کا طرز تعمیر اور تزئین کاری موجو دہ دور کے انجینئروں، معماروں اور ڈیزائنروں کو اپنی جانب متوجہ کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ تو اس بات پر محو حیرت ہیں کہ جس زمانے میں اس طرح کی عمارتیں تعمیر کرنے کے لئے جدید دور جیسے وسائل بھی نہیں تھے تو اس طرح کی شان دار فنکارانہ تعمیرات کس طرح سے کرائی گئی تھیں۔ اس طرح کا مشاہدہ پوری دنیا میں کہیں بھی کیا جاسکتا ہے۔ صرف عمارتوں اور نوادرات تک ہی یہ خصوصیت محدود نہیں ہے۔ کتابوں کے علاوہ لکڑی سے تیار کی گئی اشیاء، ٹائلوں کی نقاشی اور دھاتوں سے بنائی گئی چیزوں میں بھی انفرادی نوعیت کی ہوش ربا فنکارانہ مہارت دیکھی جا سکتی ہے۔ خصوصی طور پر مسجدوں کی تعمیرات میں یہ خصوصیت واضح طور پر نظر آتی ہے کیونکہ ان میں ہندسیائی ڈیزائنوں کا تواتر کے ساتھ استعمال کیا گیا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس طرح کی فنکاری کے شوقین اور ماہرین موجود ہیں۔ اسی طرح کے ایک شوقین ایرک بروگ (Eric Broug) بھی ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ حج و عمرہ میگزین کو ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ ’’اسلامی طرز تعمیر مجھے بہت زیادہ پسند آتا ہے کیونکہ ان میں جمالیات، توازن اور امتراز کا نہایت احتیاط کے ساتھ خیال رکھا جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں طرز تعمیر کی روایتوں میں مختلف قسم کی اختراعات کی گئی تھیں۔ مثال کے طور پر عثمانیہ دور میں میناریں لمبی اور پتلی ہوا کرتی تھیں۔ شہری ماحول کے مطابق مملوک دور اقتدار میں تخلیقی طرز کا استعمال کیا گیا تھا جبکہ سلجو ک دور اقتدار میں ہندسیائی اختراعات کی گئی تھیں۔ چنانچہ اسلامی عمارتوں میں زبردست پیمانے پر ڈیزائن اور تصورات پر مبنی فنکارانہ مہارت کا استعمال کیا گیا تھا اور اسی وجہ سے میں انہیں پسند کرتا ہوں۔‘‘

بروگ جنہوں نے اپنے بچپن کے چند سال انڈونیشیا میں گزارے تھے، ان کا کہنا تھاکہ ’’بہت ممکن ہے کہ اسلامی آرکیٹیکچر اور ثقافت میں میری دلچسپی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آرٹ اور سائنس کے امتزاج کی وجہ سے اسلامی ہندسیائی (Geometric) ڈیزائن نہایت دلکش اور دل پذیر ہو گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہاکہ دائرہ کار میں پیٹرن تبدیل کرنے اور اسے نئی شکل دینے کے لئے بہت سے ضابطے وضع ہوئے ہیں۔ عصری دلچسپی کے مطابق ایسا ترقیاتی منصوبہ تیار کیا جانا چاہئے کہ جو قدیم روش سے تو بالکل مختلف ہو مگر اس میں روایتی جھلک نظر آنی چاہئے۔ سب سے پہلے ان کی دلچسپی اسلامی خاکوں، نقشوں اور نمونوں (Patterns) میں اس وقت پیدا ہوئی تھی جب وہ ایمسٹرڈم (Amsterdam) میں طالب علم تھے اور وہیں پر انہوں نے جے بورگوئن (J. Bourgoin) کی تصنیف کردہ کتاب عربک جیو میٹرک پیٹرن اینڈ ڈیزائن (Arabic Geometric Pattern & Design) کا مطالعہ کیا تھا۔

ایرک بروگ نے اس بات کا انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بنیادی طور پر ڈچ (Holland) نژاد ہیں اور اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے وہ طرز تعمیرات کی ایک نئی دنیا میں داخل ہو کر اس بات کو سمجھ گئے تھے کہ وہ اس شعبہ میں دلچسپی رکھتے ہوئے نئے آیام تلاش کریں گے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ وہ سات برسوں تک انگلینڈ میں رہائش پذیر رہے تھے۔ اس کے باوجود بھی وہ ہر دن نئی نئی چیزیں سیکھ رہے تھے۔ انہوں نے نہ صرف نئے پیٹرن تخلیق کئے بلکہ اس طرح استعمال کئے جن کا انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ میں روزانہ برگوئن کی کتاب کا مطالعہ کرتا تھا۔ اس کتاب نے مجھے 10سال سے زیادہ کی مدت میں اسلامی ہندسیائی ڈیزائنوں سے واقف کرا دیا تھا۔ کام کرنے سے قبل اور کام کرنے کے بعد وہ ہر روز وہ اس کا ریاض کرتے تھے۔ انہوں نے جو ہندسیائی ڈیزائنوں کی تخلیق کی تھی ان کی وہ نمائش بھی کرتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا تھاکہ ’’خود کو طویل وقت تک تربیت دینے کے بعد وہ کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھے جوکہ مجھے اور اچھا درس دے سکے جو مجھے اپنے اس کام میں مزید بہتری لانے میں میری مدد کر سکے۔ اسی وجہ سے میں انگلینڈ گیا تھا۔‘‘

سب سے پہلے انہوں نے لندن کے پرنسسز فاؤنڈیشن میں اس موضوع کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (Oriental and African Studies) میں داخلہ لیا تھا، جہاں سے انہوں نے اسلامی آرٹ اور طرز تعمیرات میں ماسٹر ڈگری حاصل کی تھی، انہیں 2002 میں برٹش میوزیم کے اسکالر شپ سے بھی نوازا گیا تھا۔ وہ روزانہ کئی گھنٹوں تک پیٹرن تیار کرنے میں لگے رہتے تھے، جس کی وجہ سے ان کی صلاحیت میں نکھار آتا گیا تھا۔ ان کا انگلینڈ کے یارک شائر (York Shire) میں اپنا خود کا ایک گرافک ڈیزائن تیار کرنے والا سینٹر بھی ہے جوکہ عصری اسلامی آرٹ کی اختراع کا کام انجام دیتا ہے۔ انہوں نے 2004 میں www.broug.com کے نام سے ایک ویب سائٹ کا آغاز بھی کیا تھا اور اس کے دوسال بعد ایک نیا ورژن پیش کیا تھا۔ اس کے توسط سے انہوں نے نہ صرف اپنی تخلیقات کی نمائش کی تھی بلکہ دیگر بہت سی دلچسپ سائٹوں سے متعارف بھی کرایا تھا۔

انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا تھاکہ ’’اسلامی ہندسیائی ڈیزائن کی خصوصیات کی تشریح کرنا اپنے آپ میں ایک انوکھی خصوصیت ہے۔ اسی خصوصیت نے مجھے متاثر کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھاکہ اسلامی ہندسیائی ڈیزائنوں اور طرز تعمیرات اس لئے بہت زیادہ اہمیت کے حامل اور معروف ترین ہیں کیونکہ یہ کثیر جہتی ہیں۔ حالانکہ اسلامی ہندسیائی ڈیزائن کے شعبہ میں کچھ ایسے ڈیزائن بھی ہیں جوکہ زیادہ معروف نہیں ہیں۔ ان کی روایت سہ جہتی ہندسیائی ڈیزائنوں کی ہے، جنہیں مقرناس (Muqarnas) کہتے ہیں۔ انہوں نے مقرناس روایت کی دوبارہ تشریح کرنے کے بعد اس میں عصری رجحانات کے پیش نظر نئے طریقہ سے سہ جہتی اختراع کو متعارف کرایا تھا۔ مقرناس ایک ایسی اصطلاح ہے جوکہ اسلامی طرز تعمیر میں ایک خصوصی وضع کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد مثال کے طور پر مربع بنیاد اور گنبد کے درمیان تبدیلی پیدا کرنا ہے۔ مقرناس عام طور پر عمارت کے دروازے کے اوپر ایک نصف محرابی مقعر تعمیر کرانے کے لئے استعمال ہوتا ہے یا پھر آرائشی کارنس (Cornice) بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں واقع ممالک میں تعمیراتی تکنیک کا مختلف انداز میں استعمال کیا گیا ہے۔ مقرناس کی ترکیبات عصری تشریحات سے بہت زیادہ مناسبت رکھتی ہیں۔ ان کے ڈیزائن سے جدید داخلی آرائش کی جا سکتی ہے اور تقریبات میں بھی ان سے جمالیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ان سے ایک عجیب و غریب جمالیاتی منظر پیدا ہو جاتا ہے جوکہ دو جہتی روایتی ہندسیائی ڈیزائن سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔

بروگ جنھوں نے کافی وقت قاہرہ میں گزارا تھا اور اس کے بعد وہ دمشق اور ٹیونیشیا چلے گئے تھے تو اس وقت بھی انہوں نے وہاں کے طرز تعمیرات کا نہ صرف مشاہدہ کیا تھا بلکہ ریسرچ بھی کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ سعودی عرب کا دورہ کرنے کی زبردست خواہش رکھتے تھے۔ شاید انہیں اس بات کا یقین تھاکہ تاریخی اور روایتی مذہبی عمارتوں کی شان و شوکت وہاں نہایت منفرد ہوگی۔ انہوں نے قاہرہ اور دمشق میں شان دار ہندسیائی ڈیزائنوں والی وہ عمارتیں دیکھی تھیں جوکہ کم ازکم 150سال قبل تعمیر کرا گئی تھیں۔ انہوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ ’’اسلامی دنیا کو اپنا روایتی ڈیزائن برقرار رکھنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے یہ بھی کہا تھاکہ ’’یہ ایک نہایت اہم بات ہے کہ اس پہلو کو یقینی بنایا جائے کہ یہ روایت ادوار سے کچھ زیادہ مختلف نہ ہو۔ انہوں نے کہاکہ اسلامی ہندسیائی ڈیزائن کی فنکاری نہ صرف دائمی ہے بلکہ ہر ایک صدی میں اس کے الگ الگ شاہکار موجود ہیں۔ انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ ’’ہندسیائی ڈیزائن میں میری دلچسپی اس لئے بھی ہے کیونکہ اس میں آرٹ اور سائنس دونوں کا امتزاج ہے۔ ایک آرٹسٹ ہونے کے ناطے میرے دل میں اسلامی آرٹ کی بہت زیادہ قدر و منزلت ہے اور میں اس کا احترام کرتا ہوں۔ میں ایک ایسا اسلامی ہندسیائی ڈیزائن پیش کرنا چاہتا ہوں، جس کی مناسبت 21ویں صدی سے ہو نہ کہ قدیم دور سے ہو۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ کئی برسوں تک انہوں نے روایتی ڈیزائنوں کے بارے میں جانکاری حاصل کی ہے جو کئی صدیوں کے گزر جانے کے بعد بھی میرے اطراف میں موجود ہیں اور وہ یقینی طور پر کامل فنکاری ہے۔

بروگ نے اسلامک جیو میٹرک پیٹرنز (Islamic Geometric Patterns) کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کو ٹیمپس اینڈ ہڈسن (Thames & Hudson) نے شائع کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھاکہ یہ کتاب انہوں نے سی ڈی روم (CD ROM) میں لکھی تھی کیونکہ اس وقت تاریخی طور پر ایک عملی کاوش کی ضرورت محسوس کی گئی تھی تاکہ قارئین اس بات سے واقف ہوسکیں کہ اسلامی اوزار استعمال کرکے کس طرح سے روایتی ہندسیائی ڈیزائن تیار کئے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی خلاصہ کیا تھاکہ صدیوں تک فنکار پیمانہ اور کمپاس کا استعمال کیا کرتے تھے۔ اس کتاب کا ہر ایک ڈیزائن خصوصی وقت، مقام، اسلامی آرٹ اور طرز تعمیر سے تعلق رکھتا ہے۔ سی ڈی روم میں مختلف مرحلوں کا Animation بھی ہے جو اس بات کی جانکاری دیتا ہے کوئی ڈیزائن تیار کرنے میں بہت سے رنگوں اور سانچوں (Template) کا استعمال کیا جاتا تھا۔ بروگ نے یہ بھی کہا تھا کہ اسلامی پیٹرن اتفاقیہ طور پر محض خوبصورت ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ ان میں فنکاروں کی عمیق محنت نظر آتی ہے اور روایتی طریقوں سے فنکار ہندسیائی ڈیزائن تیار کرنے میں یہ طریق کار استعمال کرتے تھے۔ کبھی کبھی ایک ہی پیٹرن بار بار دہرایا جاتا تھا لیکن ان کی خوبصورتی میں ذرا سا بھی فرق نظر نہیں آتا ہے۔

اب اس کتاب کی مدد سے ہر کوئی اس قدیم آرٹ پر عبور حاصل کر سکتا ہے بلکہ اس پیچیدہ فن میں مہارت حاصل کرکے اپنے مثالی پیٹرن تیار کر سکتا ہے۔ اس کام کے لئے کسی کو بھی صرف پنسل، پیمانہ اور کمپاس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ ماہرانہ دستکاری بھی ضروری ہے۔ تکنیکی اشارات سے صرف اس طرح کی بنیادی باریکیاں ملتی ہیں کہ کس طرح سے مربع، شش پہلو اور پنج پہلو کی اشکال تشکیل کی جائیں۔ اس طرح سے ہندسیائی پیٹرنز کی چند مثالیں حالیہ برسوں میں دنیا کے سامنے آئی ہیں اور یہ جدید و عصری فنکاروں کی محنت کا ہی ثمرہ ہے۔

مذکورہ بالا سطور کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ انکشاف ہوتا ہے کہ عرب ممالک کے علاوہ عجمی ممالک میں مسلمانوں کے ذریعہ تعمیر کردہ مسجدوں، عمارتوں اور یادگاروں کی طرز تعمیر کتنی متاثر کن ہے کہ غیر مسلم افراد کے لئے بھی وہ دلکشی اور تحقیق کا موضوع ہیں۔ درحقیقت مسلمانوں کا قدیم دور بے حد تابناک رہا تھا، جس کے نقوش آج تک اسی طرح برقرار ہیں۔ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے مغربی ممالک کا ایک بڑا طبقہ نہ صرف مسلمانوں کی فنکاری کا دلدادہ ہے بلکہ ان پر اسلامی روایت اور تہذیب وتمدن کے اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close