Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

چلی میں ترک مسلمانوں کا کمال

یوں تو اسلام کے فروغ میں عربوں نے جو اہم رول ادا کیا، وہ تاریخ کا ایک اہم اور زریں باب ہے۔ عربوں کی اسلام کے تئیں جاں نثاری نے دنیا میں اسلام کو اس درجہ تک پہنچایا جہاں سب کی نظریں اسلام پر پڑنے لگیں۔ اسلام کو سمجھنے اسے پرکھنے اور اس کا مطالعہ کرنے کا رجحان بڑھنے لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا میں اسلام کا مطالعہ کرکے دین کو قبول کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ ایک طرف اسلام کو سمجھ کر، پڑھ کر اور اس کامطالعہ کرنے کے بعد دنیا اسلام کی طرف راغب ہوئی تو دوسری طرف عربوں کے بعد بزرگان دین صوفیا کرام نے بھی اسلام کے فروغ میں تاریخ ساز رول ادا کیا۔ برصغیر میں دین کے فروغ میں بزرگان دین کا سب سے زیادہ رول رہا۔ گوکہ ہندوستان میں مسلم حکمران بھی آئے۔ انہوں نے صدیوں اس ملک پر حکومت کی، لیکن انہوں نے مسجدیں تو بنوائیں۔ دین کے فروغ میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی کیونکہ نظام حکومت کی یہ مجبوری تھی، جہاں رعایا پر دبائو نہیں ڈالا جا سکتا تھا لیکن صوفیا کرام نے اپنے کردار اسلامی تعلیمات سے ملک کی اکثریت کو اپنی سمت متوجہ کیا اور بڑی تعداد میں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے اور یہ سلسلہ عرصہ تک جاری رہا۔ یہ تو ماضیٔ بعید کی باتیں تھیں ماضیٔ قریب میں فروغ دین ایک بڑا مرحلہ تھا۔ تعلیم کی روشنی پھیل چکی تھی۔ لوگ بزرگوں سے متاثر ہونے کے بجائے اسلامی پیغامات و دینی احکامات خاص کر قرآن کریم کی روشنی میں ہی اسلام کے قریب آئے۔ مغربی ملکوں میں اسلام کے فروغ میں صوفیا کرام کا بہت کم رول رہا۔ وہاں اسلام کی وسعت کا اسلامی معاشرہ اور قرآن کریم کا مطالعہ ہی ذریعہ بنا۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ عربوں نے جس طرح اسلام کے فروغ میں اہم رول ادا کیا لیکن ایک دور ایسا آیا جب دین کے فروغ میں کمی آئی۔ مشرق سے مغرب کے سفر میں اسلام اپنے ساتھ سنت نبوی اور قرآن کریم کے پیغامات کو ساتھ لے گیا۔ انہی دو چیزوں نے غیر مسلموں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عربوں کے بعد ترکوں نے بھی دین کے فروغ میں ایک تاریخی رول ادا کیا۔ سلطنت عثمانیہ کی دینی خدمات آج بھی اسلامی تاریخ کو منور کر رہی ہیں۔ آج ہم ذکر کریں گے جنوبی امریکہ کے چلی کا، جہاں کی جدید تہذیب وتمدن میں اسلام کیسے فروغ پایا اور کس طرح چند سو سال قبل انتہائی معمولی تعداد میں آئے ترکوں نے یہاں نہ صرف دین کی جڑیں مضبوط کیں، بلکہ انہوں نے چلی کے عوام کی توجہ بھی اس دین کی طرف راغب کیں جو سارے مذاہب میں اشرف ہے۔1885میں چلی میں ترکوں کی تعداد نو تھی 1895میں 76 ہوئی اور 1952کی مردم شماری میں 965بتائی گئی۔ حالانکہ اتنی قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود ترک مسلمانوں نے نہ صرف اپنی معیشت کی جڑیں مستحکم کیں بلکہ دین کی خدمت کا بھی ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ کئی مسجدیں بنائیں، اسلامک سینٹر قائم کئے۔ مسلمانوں کی تعلیم و تبلیغ کے لئے فلاحی ادارے قائم کئے۔ غرض کہ جدید سسٹم کے مطابق چلی میں مسلمان دین کی بھی خدمت کرتے رہے اور اپنی پوزیشن بھی مضبوط کرتے رہے اور آج چلی کے مسلمان حکومت تک میں اپنا رسوخ رکھتے ہیں۔ زیر نظر مضمون مسلمانوں کی اسی حکمت عملی کو پیش کر رہا ہے اور ہمیں درس دے رہا ہے کہ کاش ہم ان مسلمانوں کی طرح دور اندیشی، تدبر اور تعلیم کے ذریعہ ملک میں اپنی پوزیشن روشن کرتے تو شاید ملک کی سب سے بڑی اقلیت آج حاشیہ پر نہیں ہوتی۔

چلی (Chile) میں اسلام کا ظہور کب ہوا تھا، اس تعلق سے صاف طور پر وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ اس بات کا انکشاف 1854میں اس وقت ہو اتھا جب یہ معلوم ہوا کہ اس ملک میں 2ترک افراد رہائش پذیر تھے، یہ حقیقت بار بار 1865 اور 1875 کی مردم شماری میں آشکارہ ہوئی تھی۔ حالانکہ ان دونوں کا آبائی وطن کون سا تھا، اس بارے میں جانکاری آج تک نہیں ملی ہے، تاہم ’سوسائٹی آف مسلم یونین آف چلی‘ کے مطابق یہ بات وثوق کے ساتھ کہی گئی ہے کہ وہ عظیم عثمانیہ سلطنت کے کسی علاقے کے رہنے والے تھے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس مدت کے دوران برسوں تک ترکوں کی تعداد میں کمی و بیشی ہوتی رہی تھی۔ حالانکہ 1885تک یہاں پر ترکوں کی تعداد بڑھ کر 9ہو گئی تھی تاہم ان کے آبائی وطن اور ان کے عقیدہ کے بارے میں معمولی سی بھی جانکاری نہیں ملی تھی کیونکہ اس وقت مردم شماری کے ریکارڈ میں مذہب کے تعلق سے کوئی جانکاری نہیں دی گئی تھی، لیکن 1895میں جب مردم شماری کی گئی تھی تو اس میں 76ترکوں کا ذکر کیا گیا تھا، جن میں سے 58مشرف بہ اسلام تھے۔ خاص طور پر یہ لوگ شمالی چلی کے تارا پاکا (Tara paca) اٹاکامہ (Atacama) والپیرائسو (Valparaiso) اور سینٹیاگو (Santiago) میں رہتے تھے۔

جب 1907میں مردم شماری ہوئی تھی تو اس کے مطابق مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تھا جو کہ تعداد میں 1498ہونے کے باوجود غیر ملکی تھے، جن میں 1,183مرد اور 315خواتین تھیں چنانچہ ملک کی کل آبادی میں ان کی آبادی محض 0.04فی صد تھی۔ 1920میں نئے سرے سے جب مردم شماری کرائی گئی تھی تو اس سے یہ انکشاف ہو اتھا کہ مسلمانوں کی تعداد کم ہو کر محض 402رہ گئی ہے، جن میں سے 343مرد اور 59خواتین تھیں۔ ان کی اکثریت سینٹیاگو (Santiago) اور اینٹوفگاسٹا (Antofagasta)میں رہائش پذیر تھی اور ہر ایک صوبہ میں ان کی تعداد محض 76نفوس پر مبنی تھی۔ چلی کے سینٹیاگو میں اولین اسلامی تنظیم ’’دی سوسائٹی آف مسلم یونین آف چلی‘‘ 25ستمبر 1926میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے بعد 16اکتوبر 1927میں’ سوسائٹی آف میوچیل ایڈس اینڈ اسلامک چیریٹی‘ (Soceity of Mutual Aids and Islamaic Charity) قائم کی گئی تھی۔

1952میں ہونے والی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی تعداد میں دوبارہ اضافہ ہو گیا تھا اور ان کی تعداد 956 ہو گئی تھی۔ ان کی اکثریت سینٹیاگو میں رہائش پذیر تھی، باقی لوگ اینٹو فگاسٹا، کوکمبو، والپیرائسو اوہگنس (O”Higgins) کنسیسیون (Concecion)، ملیکو (Malleco)،کوٹن (Cautin) اور ولدیوا (Valdiva) وغیرہ صوبوں میں رہتے تھے لیکن ان کے درمیان زیادہ اتحاد نہیں تھا۔ 1960میں ایک مرتبہ پھر ان کی تعداد گھٹ گئی تھی جوکہ 522تک محدود ہوگئی تھی، جن میں سے زیادہ تر لوگ یعنی 209سینٹیاگو میں ہی رہتے تھے لیکن ایک دہائی کے بعد مسلمانوں کی تعداد 1,431 ہو گئی تھی۔حالانکہ مردم شماری سے اس بات کا انکشاف ہوا کہ ان میں سے مرد اور خواتین کتنے تھے یا وہ مقامی شہری تھے یا غیر ملکی شہری تھے۔ پھر بھی وہ سب لوگ پورے ملک میں پھیل گئے تھے۔ 1970 اور 1980 کی دہائیوں تک نہ تو کوئی مذہبی رہنما تھا اور نہ ہی نماز اداکرنے کا کوئی مرکز قائم تھا۔ چنانچہ یہ تمام شامی نژاد مسلمان ایک مسلم تاجر توفیق رومی دالو کے گھر میں جمع ہوتے تھے۔

اس ملک میں اولین مسجد 1990میں تعمیر کرائی گئی تھی، جسے ال۔سلام مسجد کے نام سے منسوب کیا گیا تھا دیگر مسجد کا افتتاح ٹیموکو (Temuco) میں 1995میں ہوا تھا۔ اس کے بعد ایک نئی مسجد اکیکو (Iquique) میں تعمیر کرائی گئی تھی۔ اس سلسلے میں ال۔سلام مسجد کے مصری امام سامی ال شتوی کا کہنا ہے کہ اس مسجد کے افتتاح کا دن ایک ایسا دن تھا جب مسلم طبقہ کے دیرینہ خوابوں کی تعبیر مکمل ہوئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’’ہمارے لئے یہ ایک نادر موقع تھا کیونکہ ہم ہر روز بادشاہ سے ملاقات نہیں کرسکتے تھے اور نہ ہی مسجد کا افتتاح روز روز ہوتا ہے۔‘‘

اس حقیقت کے برعکس ملیشیا کے بادشاہ نے ہی اس مسجد کا افتتاح یکم اکتوبر 1995میں کیا تھا۔ ویننزویلا (Venenzula) اور برازیل کو چھوڑ کر یہ مسجد لاطینی امریکہ کی تین بہترین مسجدوں میں سے ایک مسجد ہے۔ اس مسجد کی تعمیر اس طرح سے کرائی گئی ہے کہ اس میں 500نمازیوں کے ذریعہ نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ اس مسجد میں تین فرش (منزل) ہیں۔ پہلے فرش (منزل) پر ریڈنگ روم، کثیر مقصدی ہال، غسل خانہ اور کیفیٹیریا بنائے گئے ہیں جبکہ دوسرے فرش پر نماز ادا کرنے کا ہال ہے اور تیسرے فرش (منزل) پر امام کا دفتر اور مہمانوں کے لئے کمرے تعمیر کرائے گئے ہیں۔ ال شتوی نے بتایا تھا کہ ’’کچھ لوگ یہاں دن میں نماز ادا کرنے کے لئے آتے ہیں لیکن کام کی وجہ سے اکثر لوگ یہاں پر شام کے وقت نماز ادا کرنے کے لئے آتے ہیں۔

بہر کیف سینٹیاگو ہی ایک واحد ایسی جگہ نہیں ہے، جہاں مسلمان اپنے عقیدہ پر عمل کر سکتے ہیں بلکہ دیگر مقامات پر بھی وہ ایمانی حرارت کے ساتھ اپنے عقیدہ پر عمل کرتے ہیں۔ اسلامک چلین کا رپوریشن آف ٹیموکو (Temuco) جو کہ یکم اکتوبر 2001میں ٹیموکو شہر میں قائم ہوئی تھی، اس کا اصل مقصد اسلامی کلچر اور روایات کو فروغ دینا ہے۔ علاوہ ازیں آج کے دور میں اس کی یہ کوشش ہے کہ اسلامی اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کے لئے زیادہ سے زیادہ چینل کھولے جائیں تاکہ 11ستمبر 2001کے سانحہ کے بعد جو متعصبانہ ماحول پیدا ہو گیا تھا، اس کے اثرات زائل ہو جائیں۔

جہاں تک مسلم خواتین کا تعلق ہے تو وہ مسجد میں نماز ادا کرتی ہیں اور اپنے گھر وں میں بھی نماز ادا کرتی ہیں۔ چلی کے جو باشندے مشرف بہ اسلام ہو گئے ہیں، انہوں نے بتایا تھا کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے وہ کس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں اور وہ کس طرح سے اسلام سے متاثر ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 9/11 کے حملہ کے بعد ان کی کس طرح سے توہین کی گئی تھی اور عملی طور پر ان کے خلاف جملہ بازی کی جاتی تھی۔ کریمہ البرٹو (Karima Alberto) جو کہ 35سالہ گھریلو خاتون ہیں انہوں نے ایک شامی تاجر سے شادی کی تھی اور ان کے دو بچے ہیں ۔ان کی ملاقات اپنے شوہر سے پہلی مرتبہ ان کے اسٹور میں ہوئی تھی ۔کریمہ البرٹو نے بتایا کہ ’’ان (تاجر) کی وجہ سے میں نے اسلام مذہب قبول کیا تھا۔ انہوں نے مجھے اسلام کے تعلق سے حیرت انگیز جانکاریاں دی تھیں، اسی لئے میں نے مسجد جانا شروع کر دیا تھا، چنانچہ وہاں پر اسلام کے تعلق سے میری جانکاریوں میں اضافہ ہو گیا تھا جو کہ میرے لئے ’’خود کو تلاش کرنے کے مترادف تھا ‘‘۔ کریمہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ 9/11کے سانحہ کے بعد ہمارے خلاف لوگوں کا برتائو بدل گیا تھا۔ انہوں نے بے اعتنائی دکھانی شروع کر دی تھی۔ دمشق میں رہائش پذیر اپنے شوہر کے رشتہ داروں سے ملاقات کے بعد کریمہ کی یہ خواہش ہو گئی تھی کہ فریضۂ حج ادا کرنے کے لئے مکہ معظمہ جائیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ’’اسلام نے انہیں ایک نیا وژن دیا ہے‘‘۔ مخلوط اسکول کی ایک 18سالہ طالبہ کا رلا اولیوری (Carla Olivari) نے بتایا تھا کہ 16سال کی عمر سے ہی وہ مسجد کے سامنے سے گزرتی رہی تھی۔ ایک دن اس نے مسجد میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا اور جب وہ مسجد سے واپس آئی تو مشرف بہ اسلام ہو چکی تھی۔ اس نے مزید کہا تھا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے منظور کر لیا ہے ‘‘اس کے والدین جو کہ کیتھولک عیسائی تھے، انہوں نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی لیکن اس کا بھائی اس سے نالاں تھا۔ کارلا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جب وہ مجھے اپنے کمرے میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتا تھا تو مجھے پاگل قرار دیتا تھا۔ ‘‘بہر کیف، وہ نہ صرف ماہ رمضان میں روزے رکھتی ہے، بلکہ دیگر ایام میں بھی روزہ کا اہتمام کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’میں نہ صرف اسلامی تعلیمات پر عمل کرتی ہوں، بلکہ فلسطین اور عراق کے متاثرین کے لئے دعا بھی کرتی ہوں۔ ‘‘کارلا کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی تھی، اس تعلق سے اس نے کہا تھا کہ ’’میرا شوہر مسلمان ہو نا چاہیے۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچوں کی پرورش مسلم خاندان میں ہی ہو تاکہ وہ خاندان کے اہم اقدار سے واقف ہو جائیں۔ اس کے بعد میں نے مستقل طور پر نقاب پہننا شروع کر دیا تھا۔ اب میں مسجد میں بھی نقاب استعمال کرتی ہوں۔‘‘

روبرٹو ڈیل ریو اسپتال (Roberto Del Rio Hospital) کی ایک چالیس سالہ ڈاکٹر حبیبہ عبد اللہ نے اعتراف کر تے ہوئے بتایا تھا کہ وہ اب بھی اپنے نام کے ساتھ اپنے والد کا سر نیم لگاتی ہے اور کسی اور کا سر نیم نہیں لگاتی ہے کیونکہ ’’اسلام ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے ‘‘ وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہے جہاں پر نہ صرف ان کے 6 بھائی ہیں بلکہ 18سال کا ایک بیٹا بھی ہے، ان کا پورا خاندان مسلمان ہے۔ انہوں نے اپنے بارے میں ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’’میں ایک پیدائشی مسلمان ہوں اور مجھے اس بات پر فخر ہے، مجھے یاد ہے کہ ہر ہفتہ میرے والد ہمیں مسجد لے جایا کرتے تھے، ہم وہاں نہ صرف قرآن کریم پڑھتے تھے بلکہ عربی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے۔ حالانکہ ملازمت کے دوران جب میں نے پہلی مرتبہ نقاب پہنا تو مجھے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن رفتہ رفتہ لوگ اسے تسلیم کرنے لگے تھے۔ اب نقاب پہننے پر کسی بھی شخص کو کوئی تعجب نہیں ہوتا ہے۔‘‘

آج بھی چلی میں خواتین اقلیت میں ہیں لیکن ان کا عقیدہ نہایت پختہ ہے۔ ال مشتوی کا کہنا تھا کہ ’’تجسس کی وجہ سے لوگ ہمیشہ اس مسجد میں آتے رہتے ہیں لیکن جب وہ مسجد سے باہر جاتے ہیں تو ان کے چہروں کے تاثرات دیکھ کر مجھے نہایت خوشی حاصل ہوتی ہے اور میں یہ سوچنے لگتا ہوں کہ وہ دوبارہ مسجد میں کب آئیں گے۔ کچھ لوگ تو یہاں پر عربی سیکھنے کے لئے آتے ہیں اور کچھ لوگ اسلام کے بارے میں مزید جانکاریاں حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں لیکن یقینی طور پر اس سے مجھے بہت راحت ملتی ہے۔ مجھے اس بات کی زبردست خوشی ہے کہ چلی میں دن بہ دن مسلم طبقہ کا فروغ ہو رہا ہے۔‘‘

جدید طرز حیات سے عاجز ہو کر مغربی ممالک کے باشندے خود بخود اسلامی تعلیمات، تہذیب و ثقافت سے متاثر ہو کر اسلام کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں، بلکہ ایمان کی روشنی سے منور ہو کر مشرف بہ اسلام بھی ہو رہے ہیں، چلی بھی ان ہی ممالک میں سے ایک ہے، جہاں پر رفتہ رفتہ ہی سہی اسلام کا روز افزوں ظہور ہو رہا ہے۔ اس وقت چلی میں مسلمانوں کی آبادی ایک اندازہ کے مطابق تقریباً 4000 نفوس پر مبنی ہے جو کہ چلی کی کل آبادی میں ایک فیصد ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close