Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

نور اسلامی سے منوّر وولگا یورال

اسلام کے فروغ و اشاعت کا جو کارواں عرب سے چلا وہ ہر منزل پر اپنے تشخص اور انفرادیت کا بھی پرچم نصب کرتا گیا۔ یہ جذبہ اسلامی کا کارنامہ تھاکہ دنیا کا تقریباً ہر علاقہ دین کی روشنی سے منور ہوتا گیا۔ عربوں، ترکوں، افریقی نژاد مبلغین نے جہاں اسلام کے فروغ و شاعت میں گراں قدر خدمات انجام دیں، وہیں سینٹرل ایشیا کا بھی دین کے ارتقا میں اہم رول رہا ہے۔ شیخ سعدی وغیرہ کی علمی سطح پر اسلام کی خدمات نے اس خطے کو دین و علم سے ایسے آراستہ کیاکہ یہاں سے فیض حاصل کرنے والوں نے دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی دین کی تبلیغ کا کام شروع کر دیا۔ بہ الفاظ دیگر وسط ایشیا صوفیائے کرام کا ایک عظیم مسکن بن گیا، جہاں سلسلہ نقشبندیہ سمیت کئی سلسلے کے بزرگان دین کی جڑیں محفوظ ہیں۔ یوروپ اور ایشیا کا سنگم کہلانے والا کوہ یورال کا علاقہ اور وہاں کے ایوان سلطنت میں جس طرح اسلام کا بول بالا ہوا وہ بھی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ خصوصی طور پر تاتار قوم کا اسلام کی طرف متوجہ ہونا بھی قدرت کا ایک کرشمہ ہی تھا۔ تاتاری بنیادی طور پر چین اور اطراف کے رہنے والے تھے۔ صحرائے گوبی میں خانہ بدوشوں کی زندگی گزارتے تھے۔ لوٹ مار ان کا ذریعہ معاش تھا۔ ایک دور تھاکہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی جب حکومت تھی تب بھی تاتاری اس ملک پر حملہ آور ہوتے تھے۔ سلطان غیاث الدین بلبن کا بیٹا سلطان محمد شہید مسلسل ملتان میں خیمہ زن رہتا تھا اور تاتاریوں کے حملے کو ناکام بناتا رہتا تھا۔ اسی کو شش میں وہ شہید بھی ہوگیا۔ جلال الدین خلجی نے تو تاتاریوں سے نہ جانے کتنی جنگیں لڑیں۔ سینٹرل ایشیا کی تاریخ جنگوں سے بھری پڑی ہے لیکن یہ لڑاکو قوم جب مشرف بہ اسلام ہوئی تو تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ ھلاکو خان کے پوتے نے اسلام قبول کیا تھا۔ حالانکہ اس سے قبل اس سلطنت کے وزیر اعظم اور مسلم خواتین کی کوششوں سے بھی اس قوم میں اسلام سے محبت پیدا ہوئی لیکن یہ بھی تاریخ کا اہم باب ہے کہ ترکوں کے ساتھ ان کے تعلقات نے بھی انہیں اسلامی تشخص کا پروردہ بنایا۔ بعض مؤرخین تاتاریوں کو ترک نژاد بھی بتاتے ہیں۔ خلافت عثمانیہ اسلام کی زریں تاریخ کا روشن باب ہے۔ آج کوہ یورال کا علاقہ وولگا یوروپ اور ایشیا کے سنگم کے طور پر بھی انفرادیت قائم کئے ہوئے ہے اور اسلام کے ارتقا اور اپنی خاص تہذیب کے لئے بھی منفرد سمجھا جاتا ہے۔ زیر نظر مضمون میں تاتاریوں کی تہذیب و تعمیر کا خمیر بھی محسوس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مضمون تاریخ کے طالب علموں کے لئے بھی مفید ثابت ہوگا، جو سینٹرل ایشیا میں اسلام کی تاریخ کی روشنی تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی حوصلہ دیتا ہے کہ اسلام کا سورج جو عرب کی سر زمین سے طلوع ہوا اس کی شعاعیں کہاں کہاں پہنچ رہی ہیں۔ وولگا یورال میں اسلام کے روشن نقوش کی چمک کہاں تک پھیل رہی ہے اور اس روشنی کو مزید پھیلانے کے لئے کیا کام ہو رہا ہے:

یوفا کی تاریخ قدیم نہیں ہے۔ اسلام کے تعلق سے یہاں زبردست کام ہوا ہے اور اسلام کے فروغ و اشاعت میں بھی کافی برق رفتاری دیکھنے میں آئی ہے۔جدہ میں واقع ’آرگنائزیشن آف دی اسلامک کانفرنس‘ (او آئی سی) کے سر براہ اکمل الدین احسان اگلو نے جمہوریہ بشکور توستان کی راجدھانی یوفا کا پہلی بار گزشتہ اکتوبر میں دورہ کیا اور وہاں کے اقتصادی حالات کا جائزہ لیا۔ یوفا کا قیام 1574 میں عمل میں آیا اور اسے ایک شہر کا درجہ 1586 میں ملا۔بشکور توستان وولگا ندی اور یوارل پہاڑیوں کے درمیان واقع ہے۔ یہ مشرق میں جنوبی یورال پہاڑوں کی مغربی ڈھلانوں سے لے کر مغرب میں بوگو لمحابیلے بی اپ لینڈ تک پھیلا ہوا ہے۔

کوہ یمنتاؤ، جوکہ جنوبی یورالس کی سب سے اونچی چوٹی ہے، جس کی بلندی جنوب اور مغرب کی سمت میں دھیرے دھیرے کم ہونے لگتی ہے اور اسی علاقے میں گھنے جنگلات سے بھری ہوئی پہاڑیاں ہیں، جہاں پر عام طور سے بڑے بڑے درخت جزیرے نما شکل بناتے ہیں اور انہی کے درمیان بیلایا ندی کے سیلابی میدان میں بیلایا، جوکہ اس جمہوریہ میں سب سے بڑا آبی راستہ بناتی ہے اور جس کی سب سے بڑی معاون ندی کاما ہے، جنوبی یورالس میں ندی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ پہلے جنوب مغرب کی سمت میں بہتی ہے اور پھر اس کے بعد شمال مغرب کی سمت میں بشکور توستان خطہ میں انسانوں نے پہلی بار ابتدائی پیلیولیتھک (پتھروں کے) دور میں بسنا شروع کیا۔ تاہم یہاں پر انسانوں کی آبادی میں تانبے کے دور (Bronze Age) میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا۔ اباشیو کلچر کے لوگوں نے یہاں آباد ہونا شروع کیا۔ وہ تانبے کے اوزار، اسلحہ اور سجاوٹی سامان بنانے میں کافی مہارت رکھتے تھے اور یہاں پر اپنی مستقل آبادی قائم کرنے والے پہلے افراد تھے۔ تمام روسی آبادی کی 2010 کی مردم شماری کے ابتدائی اعدادو شمار کے مطابق 1.3 ملین افراد یوفا میں رہتے ہیں۔ سال 2025 تک یہاں کی آبادی میں مزید 100,000 کا اضافہ ہونے کی توقع ہے۔ سال 2002 کی مردم شماری کے مطابق ’ملک کی مجموعی آبادی‘ 32 تا 36 فیصد روسی، 76 تا 29 بشکیر، 24.14 فیصد تاتار، 2.86 فیصد چوواش، 2.58 فیصد ماری، 1.35 فیصد یوکرینی، 0.63 فیصد مورڈوین، 0.55 فیصد اومرت، 0.10 فیصد قزاح، 0.07 فیصد تاجک اور 2,000 افراد سے کم ہر ایک گروپ والے متعدد و دیگر گروپوں پر مشتمل تھی۔اس کے علاوہ 0.11 فیصد آبادی ایسی بھی تھی، جس نے اپنی قومیت ظاہر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اسلام کے پیروکاروں میں سے زیادہ تر بشکیر اور تاتار ہیں۔ بشکیر جن کا تعلق ترکی کے لوگوں سے ہے۔ پہلی بار 9 ویں صدی عیسوی میں معروف ہوئے۔اسلام 10 ویں صدی عیسوی میں باشکیروں کے درمیان پھیلنا شروع ہوا اور 14ویں صدی عیسوی میں یہ ایک غالب مذہب بن گیا۔ روس کے وولگا یورال خطہ میں رہنے والے موجودہ تاتاریوں کے آباو اجداد یعنی بولغارس آٹھویں صدی عیسوی کے پہلے نصف بعد میں وسط وولگا اور کاما کے زیریں خطے میں آباد ہونا شروع ہوئے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اسلام ان کے درمیان نویں صدی میں پھیلنا شروع ہوا۔ بولغار سلطنت میں 922 عیسوی میں اسلام کو سرکاری مذہب کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ او آئی سی سر براہ نے صدر رستم ذکی وچ خامتوف کے ساتھ ملاقات کی۔ ان دونوں نے باہمی اشتراک و تعاون کو مضبوط کرنے اور آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔

خامتوف کی پیدائش اپنے نسلی والدین کے یہاں 15 اگست 1954 کو ہوئی۔ ان کی شادی گلشت سے ہوئی ہے۔ ان کے والد، ذکی سلیمووچ خامتوف (1930-1993) ایک پرو فیسر تھے۔ ان کی والدہ رئیسہ سینیا تولوونا نے میتھمیٹکس کی ٹیچر کے طور پر کام کیا اور اب وہ ریٹائر ہو چکی ہیں۔ خامتوف نے انجینئر کے طور پر کام کیا ہے۔ وہ ریاست بشکیر کی فیکلٹی برائے ایگریکلچرل میکنائزیشن کے ڈین تھے۔ انہوں نے 1973 سے 1980 کے درمیان ایگر یکلچرل یونیورسٹی میں بھی کام کیا۔ ان کے چھوٹے بھائی راشد خامتوف یوفا میں رہتے ہیں اور ایک ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اپنی مادری زبان بشکیر (بشکیروں کے ذریعہ بولی جانے والی ترکی زبان) کے علاوہ وہ روسی اور انگریزی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ مشاغل کتابوں کا مطالعہ کرنا، گانے سننا، اسکینگ اور بشکور توستان کی ندیوں میں رافٹنگ کرنا۔

احسان اوگلو نے بشکور توستان میں سائنس، صنعت اور ہر قسم کی ترقی کو آگے بڑھانے میں مدد اور ان کی حکومت کی کوششوں کی تعریف کی اور انہیں جدہ میں واقع او آئی سی ہیڈ کوارٹرس کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ قابل ذکر ہے کہ بشکور توستان معدنیات اور دیگر قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے۔بشکور توستان معدنیاتی وسائل میں روس کے امیر ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ یہ خام تیل کے ذخائر کے معاملے میں بھی ایک امیر ملک ہے اور سوویت یونین میں تیل نکالنے والے بنیادی مراکز میں سے ایک تھا۔ یہاں کے دیگر بڑے وسائل ہیں قدرتی گیس، کوئلہ، خام لوہا، میگنیز فولاد کی کانیں، غیر لوہے والی دھات کی کانیں، (راک کرسٹل، فلو رائٹ، سلفائیڈ، پائرائٹس، پیرائٹ سلیکیٹس، سلیکا، اسبستوس، ٹالکم)، بیش قیمتی پتھر اور قدرتی پتھر (میلا کائٹ، جیڈے، گرینائٹ) بشکور توستان برچ کو نیفر، لائم، اوک اور مپل جیسے درختوں کی لکڑیوں کے معاملے میں بھی مالدار ہے۔ بعض تجزیوں کے مطابق لکڑی کا جنرل اسٹاک 717.9 ملین کیو بک میٹر ہے۔ سینکچری اور نیشنل پارک بنے ہوئے ہیں۔ یہ سب 10,000 مربع کلو میٹر 4,000 مربع میل) سے زیادہ علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بشکور توستان پانی کے چشموں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ اپنے اس دورہ کے موقع پر او آئی سی کے سربراہ احسان او گلونے چوتھے بین الاقوامی سمپوزیم بعنوان ’وولگا یورال خطہ میں اسلامی تہذیب‘ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی اور بشیکر اسٹیٹ پیڈاجوجیکل یونیورسٹی کا دورہ کیا، جہاں پر انہوں نے وہاں کے ڈائریکٹر، پروفیسر اور طلبا کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی۔ انہوں نے روسی سائنس اکیڈمی یوفا ریسرچ سینٹر میں واقع ایتھنو لوجیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میوزیم کا بھی دورہ کیا۔

احسان او گلو نے رشین مسلمس اسپریچو ل ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ، مفتی اعظم شیخ الاسلام طلغت تاج الدین سے بھی ملاقات کی، جس کے دوران انہیں بشکور توستان میں اسلامی اقدار اور روایات کے احیاء، بالخصوص نوجوانوں میں اس کے بڑھتے رجحانات کے بارے میں بتایا گیا۔ مفتی اعظم نے انہیں بتایاکہ یہاں کے مسلمانوں کے حالات آج کے دور میں بہتر ہوئے ہیں، خاص کر اپنے مذہب پر عمل کرنے کے معاملے میں گزشتہ چند برسوں کے دوران ان کے حالات زیادہ بہتر ہوئے ہیں۔ ذو القرنین (جنہیں زیادہ تر لوگ سکندر اعظم تصور کرتے ہیں) کی کہانیاں، جن کا ذکر قرآن میں ایک نیک حکمراں کے طور پر ہوا ہے، اس علاقے میں کافی مشہور ہیں اور اس کی وجہ سے فر قہ وارانہ ہم آہنگی کو بنائے رکھنے میں مدد ملی ہے۔

’این اسلامک بایوگرافیکل ڈکشنری آف دی ایسٹرن قزاح اسٹپیپسے 1770-1912 کا امریکی مصنف ایلن جے فرینک اپنے مضمون بعنوان ’سکندر اعظم، بیلابوگا شہر اور بشمن خان سے متعلق وولگا یورال کے مسلمانوں کی تاریخی کہانیاں‘ میں لکھتا ہے کہ 19 ویں صدی عیسوی کی ابتدا سے ہی وولگا یورال مسلمانوں کی تحریری روایات میں ذوالقرنین اور بیلابوگا شہر سے متعلق تاریخی اور جینیالوجیکل کہانیوں کا ذکر ملتا ہے۔ پلابوگا شہر کاماندی کے کنارے آدتھیا اور اب یہ روسی وفاق کی جمہوریہ تاتارستان میں واقع ہے۔ اس نے ان کہانیوں کے ذریعہ تاتار کی شناخت کرنے اور ان کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ جن میں سے زیادہ تر اس خطہ میں اسلامی مخطوطات کے مجموعے میں مل جاتے ہیں۔ اس نے اس بات کا بھی پتہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ ان کہانیوں کی وجہ سے وولگا یورال مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ شناخت قائم کرنے میں کتنی مدد ملی۔

فرینک کے مطابق، وولگا یورال خطہ کے مسلمان یعنی تاتار بشکیر کے پاس تاریخی کہانیوں کا ایک بیش قیمتی ذخیرہ بھی موجود ہے، جن کا ترتیب وار مطالعہ کرنا اب بھی باقی ہے۔ یہ تاریخی قصے، جنہیں زبانی اور تحریری دونوں شکلوں میں جاری کیا گیا۔ انہوں نے وولگا یورال مسلم سوسائٹی کے تمام گوشوں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں اہم رول ادا کیا۔ وولگا یورال خطہ میں روسی حملہ، جس کی شروعات 1552 میں ہوئی، جب کزان کھناتے پر قبضہ کیا گیا اور جس کا خاتمہ 1730 کے عشرے میں بشکیر کو مکمل طور پر اپنی ریاست میں ملانے کے ساتھ ہوا، نے مقامی اسلامی تاریخ نویسی کو متاثر کیا، جس میں تحریری ذرائع کے بجائے، زبانی طور پر جاری تاریخی قصوں کو ریکارڈ کیا گیا ور پھر انہیں تاریخی کتابوں میں شامل کیا گیا۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close