Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے

محاسبہ…………….سید فیصل علی

بالی ووڈ کو اترپردیش لانے کی حکمت اور سیاست نے ہر ذی شعور کو نہ صرف چونکا دیا ہے بلکہ اس تشویش میں بھی مبتلا کردیا ہے کہ ممبئی کی فلم نگری جو ملک کی گنگا جمنی تہذیب ہی نہیں بلکہ قومی معیشت کو بھی توانائی بخشتی رہی ہے۔ اب اس کی تہذیب وتاریخ پر ہندوتو کی پرت چڑھانے کے لئے یوپی لانے کا عمل کیا روپ اختیار کرے گا یہ ایک بڑے فکر کا موضوع ہے۔ ممبئی سے نوئیڈا منتقل ہونے والی فلم سٹی کی اس نقل مکانی کا اثر قومی معیشت پر کیا پڑے گا اس پر بھی ماہرین اقتصادیات کو تشویش ہے۔ مگر لگتا ہے کہ معیشت کی فکر کی بجائے ہندوتو کی پرت چڑھانا مقصود ہے۔

امریکہ کے ہالی ووڈ کے بعد ہندوستان کی بالی ووڈ دنیا کی دوسری ایسی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہے جو نہ صرف ہندوستانی معاشرہ میں حب الوطنی، رواداری، امن وشانتی اور انسانیت کا درس دیتی ہے بلکہ قومی معیشت کے خزانے کو بھی سالانہ تقریبا 200 بلین کی خطیر ریونیو فراہم کرتی ہے۔ بالی ووڈ کے ستارے ہر مصیبت کی گھڑی میں ملک اور عوام کی مدد کے لئے سینہ سپر رہے ہیں۔ انہوں نے ممبئی کی سڑکوں پر چندہ مانگے ہیں۔ ملک پر حملہ ہو، زلزلہ ہو، وبائی بیماری ہو یا کوئی اور قومی آفت ہو، فلم نگری سے اٹھی آواز ملک و قوم کو حوصلہ بخشتی رہی ہے۔ 1962 میں ہند چین جنگ کے بعد ہندوستانیوں فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے اداکارہ نرگس سرحد پر پہنچ گئی تھیں اور آج بھی فلمی شخصیتیں سرحدوں پر جا کر جوانوں کے عزم وحوصلہ کو سلام کرتی رہی ہیں۔

1976 میں جب شمالی بہار سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا تو فلم نگری نے دل کے دروازے کھول دیئے تھے، شتروگھن سنہا درجنوں ٹرکوں کے ساتھ ممبئی سے بہار کے سیمانچل پہنچے تھے اور مرحوم تسلیم الدین کے ساتھ مل کر متاثرین کو کپڑے اور راشن بانٹے تھے۔ 26جنوری 2001کو یوم جمہوریہ کے دن جب گجرات میں بھیانک ترین زلزلہ آیا تھا ،ہزاروں مکان پل بھر میں منہدم ہوگئے تھے ایسے دور میں فلمی دنیا نے دریا دلی دکھائی تھی۔ بھج میں عامر خان نے وہاں کے لوگوں کی بازآبادکاری کے لئے رہائشی کالونیوں کا نظم کیا تھا، سلمان خان تو بیماروں کا علاج کرانے کے لئے کافی مشہور ہیں۔ 1992-93 کے ممبئی فسادات کے دوران دلیپ کمار کی خدمات قابل ستائش ہیں، خاص کر ان کی بچوں کی تعلیم کے لئے وظائف کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ کینسر مریضوں کیلئے سنیل دت کی خدمات کو بھی ہم بھلا نہیں سکتے اور آج بھی کورونا کے دور میں فلم اداکار سونو سود کی دریا دلی فلم انڈسٹری کی خدمات کا روشن منظر نامہ ہے۔ مگر اب اسی فلم نگری کی روشن خیالی وسیع القلبی اور فراخ دلی نشانے پر ہے۔

ممبئی فلم انڈسٹری کا قیام 1896میں عمل میں آیا تھا مہاراشٹر کے دادا صاحب پھالکے اس کے بانی تھے تب سے ہندوستانی فلمی صنعت پورے طور پر سماج کی عکاس رہی ہے۔ ہندوستانی معاشرہ، رواداری، ہندو مسلم دوستی، معاشرہ کا احتجاج خاص کر حب الوطنی وپردہ سیمیں پر لانا اس انڈسٹری کا رول رہا ہے۔ گنگا جمنی تہذیب کی عظیم مثال بالی ووڈ نے مذکورہ بالا موضوعات پر ایسی ایسی فلمیں بنائی ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔ منوج کمار کی دیش پریم پر مبنی فلمیں ایسی شاہکار ہیں کہ ان کا نام بھی بھارت کمار پڑ گیا تھا۔ 1964میں ہند چین پر مبنی فلم’’حقیقت‘‘ آج بھی ہندوستانیوں کے خون کو گرما دیتی ہے۔ اسی طرح مغل اعظم، شعلے، بازار سے لے کر لگان، سلام بامبے اور عامر خان کی لگان اور سلمان خان کی سلطان وغیرہ وغیرہ فلموں نے عالمی سطح پر ہندوستان کا نام روشن کیا ہے۔کئی فلمیں آسکر ایوارڈ تک کیلئے بھی منتخب کی گئی ہیں۔ مگر افسوس ایسی روشن تاریخ وتہذیب، ثقافتی وسماجی خدمات رکھنے والی ممبئی فلم صنعت کو نہ صرف بدنام کرنے کے سازش ہورہی ہے بلکہ اسے مہاراشٹر کے بجائے یوپی منتقل کرنے کا بھی کھیل ہو رہا ہے۔ حالانکہ سبھی کہتے ہیں کہ یہ کھیل کامیاب نہیں ہوگا مگر اس کھیل سے ملک کے معصوم اذہان نفرت کے جراثیم سے آلودہ ضرور ہوسکتے ہیں۔ فلم نگری کی وسیع القلبی، روشن خیالی پر تنگ نظری اور تعصب کے پرت چڑھ سکتے ہیں۔ جس کا دل سوز منظرنامہ ابھرنے لگا ہے۔

ستم تو یہ ہے کہ گزشتہ 5-6 برسوں میں بالی ووڈ کا جس طرح ہندوکرن ہورہا ہے ،ملک کی عظیم فلم سٹی کو داغدار کرنے کی جو کوشش ہورہی ہے وہ تشویش ناک ہے۔فلمی دنیا کو نشیڑیوں، عیاشوں، مافیائوں کی نگری قرار دینے کے لئے گودی میڈیا تو چیخ وپکار کرہی رہا تھا کہ کچھ فلم سازوں کے ذریعہ دیش پریم کی آڑ میں ایک خاص طبقے کو معتوب کرنے کے لئے پدماوت، باجی راؤ مستانی وغیرہ فلمیں بنائیں گئی ہیں۔ اس کے علاوہ نریندر مودی پر بنی فلم اور منموہن سنگھ پر بنی فلم’’ ایکسیڈینٹل پرائم منسٹر‘‘اور سرجیکل اسٹرائیک پر بنی فلم’ اڑی‘ جیسی فلمیں ایک خاص فکر کو پردہ پر لانے کی پرزور کوشش ہے اور اب ایودھیا میں اکشے کمار کی فلم ’’رام سیتو‘‘کی شوٹنگ کی سرکاری منظوری بھی دے دی گئی ہے۔ مگر گزشتہ ایک سال میں جب پورا ملک کورونا کے شکنجے میں ہے معیشت چرمرائی ہوئی ہے، بے روزگاری حد پار کرچکی ہے تو ایسے دور کشاکش میں بھی نفرت کے بازی گروں کی فطر ت نہیں بدلی ہے۔ ارنب گوسوامی، گنگنا رناوت جیسے لوگ بالی ووڈ کے چہرے پر سیاہی پوتنے کا کام کر رہے ہیں۔ اس عظیم فلم نگری کو ہند و مسلم میں بانٹ کر نفرت کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے اور اب سونے پر سہاگا یہ ہے کہ بالی ووڈ کو یوپی منتقل کرنے کے کھیل نے ہر ذی شعور کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا فلموں کا پوری طرح بھگوا کرن ہو جائیگا؟

گزشتہ ہفتہ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ممبئی پہنچے تھے، وہاں انھوں نے اکشے کمار، منموہن شیٹی، بونی کپور، ہیمانشو دھولیہ، انل شرما، ارجن رامپال، ستیش کوشک سمیت کئی بڑے فلم سازوں سے ملاقات کی تھی اور ان سے یوپی کے نوئیڈا میں فلم سٹی کی تشکیل کے لئے تعاون کی اپیل کی تھی۔ یوگی جی نے انھیں بتایا تھا کہ نوئیڈا کے جیور علاقے میں ہزاروں ایکڑ پر مبنی اراضی فلم سٹی کے قیام کے لئے تیار ہے۔ ممبئی کے پروڈیوسروں کو یوپی آنا چاہئے۔ یوپی میں فلم سٹی بننا بڑی اچھی بات ہے اس میں کوئی برائی نہیں ہے مگر بالی ووڈ میں سیندھ لگا کر یوپی میں فلم سٹی بناناایک ہیڈن منصوبے سمیت کئی سوال کھڑاکرتا ہے۔ یوپی میں فلم ڈیولپمنٹ بورڈ بھی قائم ہے،اس کو ڈیولپ کرنے کی کوشش ہونی چاہئے ، مگر اس کا چیئرمین اسے بنایا گیا ہے جسے نہ کسی بڑے فلمی ادارے میں کام کرنے کا تجربہ ہے نہ ہی وہ فلمی دنیا کا کوئی معروف نام ہے۔ کامیڈی کی دنیا میں فلاپ ہونے والے راجو شریواستو کو چیئرمین بنایا جانا بھی تنگ نظری کی انتہا ہے ۔ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ مدراس سے لے کر مغربی بنگال، پنجاب سمیت کئی ریاستوں میں فلم سٹی قائم ہے مگر کسی کو اپنے کاروبار سمیٹ کر یوپی آنے کی دعوت نہیں دی گئی۔ پھر بالی ووڈ کو نوئیڈا لانے کی حکمت عملی کیوں؟

بالی ووڈ کو اترپردیش لانے کی بات پر یوگی اور ادھوٹھاکرے آمنے سامنے ہیں، ادھو ٹھاکرے نے مرچنٹ آف چیمبر آف کامرس میں بات کرتے ہوئے کہا کہ مہاراشٹر ایک میگنیٹک شہر ہے اس کی گلیمر کی چکاچوندھ دنیا کو متاثر کرتی ہے۔ریاست کی عظیم فلمی صنعت کو باہر نہیں جانے دیا جائیگا۔ وہیں مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے بالی ووڈ کی منتقلی کو منگیری لال کا سپنا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کہاں راجا بھوج کہاں گنگو تیلی ، کہاں مہاراشٹرکی شان وشوکت کہاں یوپی کی غربت،یہ سب اپنی حکومت کی ناکامی چھپانے اور بے روزگاری کی طرف سے توجہ ہٹانے کا شگوفہ ہے۔

بہرحال ملک آج کورونا کے سخت شکنجے میں ہے، پورا ملک ایک ہیجان کے عالم میں ہے۔ کورونا ویکسین کب آئے گی لوگ اس کے منتظر ہیں۔ اترپردیش، پنجاب، ہریانہ کے لاکھوں کسان دس دنوں سے دہلی کی ناکہ بندی کئے ہوئے ہیں زرعی قانون کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں تو ایسے نازک حالات میں بے روزگاری، بھوک، غربت، نقل مکانی خاص کر کورونا سے نجات دلانے کے عمل کے بجائے عجب غضب حکمت عملی بنائی جا رہی ہے، نوئیڈا میں فلم سٹی کے قیام کے لئے ممبئی کی فلم نگری میں سیندھ لگانے کا عمل بھلے ہی ہندوتو نواز سیاست کو راس آئے مگر اس عمل سے فن وثقافت اور گنگا جمنی تہذیب کا ہر پرستار ایک تشویش میں مبتلا ضرور ہو چکاہے۔ بقول غالب:

بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی، پردہ داری ہے

([email protected])

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close