Khabar Mantra
محاسبہ

مداری نئے سپنوں کی پٹاری لے کر نکلا ہے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

الیکشن کے تین مرحلوں کے بعد یہ ماحول بننے لگا ہے کہ ظالم کی حکمرانی بس چند دنوں کی کہانی ہے۔ جمہوریت کی آواز کے شکاریوں، گنگا جمنی تہذیب کے روندنے والوں، دھرم کے نام پر دلوں کو بانٹنے والوں اور ملک کے اوپر ایک خاص فکر کو تھوپنے والوں کے دن پورے ہو چکے ہیں۔ عوام جذباتی ایشو کے جھانسے سے نکل چکے ہیں۔ ملک کی چوکیداری کا دعویٰ کرنے والے چوکیدار نے ملک میں کیا گُل کھلائے ہیں، عوام اب اس الیکشن میں حساب لے رہے ہیں۔ بے روزگاری سے پریشان نوجوان، کھیتی سے بدحال کسان، چھوٹے تاجر اور معاشی خستہ حالی سے دوچار چھوٹے صنعتکار اچھے دنوں کا خواب دکھانے والوں کو بخشنے والے نہیں ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ یوپی بہار میں گٹھ بندھن نے ملک میں مودی حکومت کی تشکیل نو کے آگے اونچی دیوار کھڑی کر دی ہے۔ اب نہ تو نام نہاد ہندوتو کی دہائی کام آرہی ہے نہ ہی فوج کے نام پر ووٹ مانگنے کا حربہ کام آ رہا ہے۔

خاص کر یوپی اور بہار میں جو انتخابی حالات ہیں، ووٹروں کی پراسرار خاموشی ہے وہ ایک طوفان کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔ ان دو ریاستوں سے بی جے پی کا سوپڑا نہ صاف ہو جائے کہا نہیں جا سکتا۔ یو پی، بہار ایسی ریاستیں ہیں، جہاں 2014 میں 100 سے زائد سیٹیں این ڈی اے کے کھاتے میں چلی گئی تھیں۔ اگر یو پی بہار میں مودی کی بی جے پی کو جھٹکا لگ گیا تو پھر یہ یقیناً عوام کا انتقام ہی سمجھا جائے گا کیونکہ 2014 میں بدلاؤ اور عوامی جوش کا جو کھلا منظر نامہ تھا اب کی بار برعکس ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عوام غصہ سے بھرے بیٹھے ہیں۔ موقع کی تلاش میں ہیں کہ وہ اچھے دنوں کا خواب دکھانے والوں کو سبق سکھا سکیں اور پرانے دنوں کو واپس لا سکیں۔ میں بھی بہار کے شیوہر پارلیمانی چناؤ کے مہا بھارت میں ہندوتو کے علمبرداروں اور ملک پر نئی تہذیب تھوپنے والوں کے خلاف کھڑا ہوں۔ مہاگٹھ بندھن کے آر جے ڈی امیدوار کے طور پر مجھے جس طرح یہاں کے عوام بالخصوص پسماندہ و انتہائی پسماندہ طبقات، دلتوں و انتہائی پسماندہ دلت، یادوؤں اور مسلمانوں کی حمایت ملی ہے۔ انہوں نے شیوہر میں بدلاؤ کے لئے مجھ پر جس طرح اعتماد کیا ہے، اس سے میرے اندر حوصلہ کی ایک نئی روشنی پیدا ہو چکی ہے۔ شیوہر میں تعلیمی اور اقتصادی بدحالی دور کرنے کی راہ میں یہ حوصلہ میرے لئے مشعل راہ بن چکا ہے۔

آج دنیا عوامی خدمات کے لئے روبوٹ بنا رہی ہے۔ چاند پر بستی بسانے کا خاکہ تیار کیا جا رہا ہے وہیں ہندوستان کا شیوہر ہے، جہاں برسہا برس سے یہاں کے ووٹ حاصل کرکے دہلی گئے لیڈران نے یہاں کی سدھ بدھ نہیں لی۔ ’میک اِن انڈیا، اسمارٹ سٹی‘ کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کے آگے شیوہر ایک سوال بن کر کھڑا ہے۔ شیوہر میں بیلواپل، پھلوریا پل کے مطالبات، سڑکوں کی بدحالی، تعلیمی اداروں کا فقدان، بے روزگاری کا طوفان کس کس بات کا رونا رویا جائے؟ مگر شکر ہے کہ اب قدرت نے رسی کھینچنا شروع کر دی ہے۔ بہار، یوپی کا ماحول بدل رہا ہے۔ یہ گمان غالب ہو رہا ہے کہ اب سماج کو بانٹنے، آواز کو دبانے، بھگوا فکر تھوپنے اور نام نہاد ہندو راشٹر کا نعرہ لگانے والوں خاص کر ملک کی دولت کچھ خاص صنعت کاروں کی جیب میں ڈالنے والوں کے ہاتھ میں اب ملک کی کمان نہیں ہوگی بلکہ ملک کے دبے کچلے عوام دلتوں، پچھڑوں، اقلیتوں کی بات کرنے والوں کے ہاتھ میں ہوگی۔

بہار اور یوپی میں نام نہاد ہندوتو کی کھاٹ کھڑی ہو تی دیکھ کر بی جے پی شدید بوکھلاہٹ کی شکار ہے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی کا عذاب ملک پر مسلط کرنے والے پریشان ہیں۔ رافیل گھپلہ، مالیہ، مودی اور میہل چوکسی وغیرہ 26 صنعتکاروں کے ذریعہ بینکوں کو چونا لگانے کے عمل سے بدعنوانی کا جو منظر ابھرا ہے، اس سے بھی بی جے پی پریشان ہے اور وکاس اور ترقیاتی ایشوز پر وہ عوام کے درمیان جانے سے گریزاں ہے کیونکہ عوام وکاس کے نام پر سوال ضرور پوچھیں گے۔ چنانچہ وہ اپنے ترکش کے آخری تیر کا استعمال کر رہی ہے۔ دیش بھکتی، راشٹر پریم، فوج اور پاکستان کے نام پر عوام کے ذہن کو مو ڑنے کا کھیل جاری ہے۔ مگر ہندوستان کے خمیر میں معصومیت اور جذباتیت ضرور ہے لیکن رواداری کی خوشبو بھی شامل ہے۔

ہندوستان کی مٹی ملک کی تہذیب کی تبدیلی کو قبول نہیں کر سکتی۔ راشٹر بھکتی کا داؤ الٹا بھی پڑ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹر پُرجوش نہیں ہیں۔ووٹنگ کی شرح کم ہو رہی ہے خاص کر یوپی، بہار میں بدلاؤ کی خاموش لہر چل رہی ہے۔ بیمار لالو پرساد کو جیل میں بند رکھنے کا معاملہ بھی بہار کے عوام پر اثر ڈال رہا ہے۔ اہل بہار اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ مودی حکومت لالو پرساد کو جیل میں بند رکھ کے مظلوموں کی آواز کو دبانا چاہتی ہے۔ فرقہ پرستی سے ٹکر لینے والوں کو ہرانا چاہتی ہے۔ لالو سے اسی عوامی ہمدردی کا نتیجہ ہے کہ پانچ پانڈو راہل، لالو، مکیش سہنی، کشواہا، مانجھی کا مہاگٹھ بندھن مودی کی مقبولیت اور حکومت کے لئے ایک چلینج بن کر کھڑا ہو چکا ہے۔ 2019 کے مہابھارت میں ظلم کے علمبرداروں کی نہیں مظلوموں، پچھڑوں، دلتوں، اقلیتوں کی جیت ہوگی۔ ملک کا اقتدار، آئین، قانون، عدلیہ اور قومی اداروں کو یرغمال بنانے والوں کے ہاتھ میں نہیں ہندوستان کے سیکولر عوام کے ہاتھ میں ہوگا۔ راہل اور تیجسوی کی للکار ’نیائے ہوگا اس بار کا سپنا ساکار ہو گا‘ لالو کو جیل میں بند رکھنے والے خود اسیر زنداں ہوں گے۔

سب سے مقبول مقولہ یہ ہے کہ جمہوریت عوام کے لئے، عوام کے ذریعہ، عوام کی حکومت ہے، لیکن اب اس مقولہ کی کینچلی بدل چکی ہے۔ اب ملک کی جمہوریت کی آنکھوں میں خوف و دہشت، بے اطمینانی بے سکونی اور بے چارگی کے آنسو ہیں۔ ملک میں ہر سمت لاقانویت اور آتنک کا دور دورہ ہے۔عدلیہ، قانون و آئین سب اس دور میں پناہ مانگ رہے ہیں۔ مسند انصاف پر بیٹھے ججوں پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ سیکولر اقدار اور ملک کے سنسکار کی آواز اٹھانے والوں کے گھروں پر چھاپہ مارے جا رہے ہیں، مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں۔ سچ کی آواز بند کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال ہو رہا ہے۔ فرعونیت کی اس انتہاکو عوام دیکھ رہے ہیں اور بدلاؤ چاہتے ہیں۔ اب یہ بدلاؤ اپنے آخری پڑاؤ کی طرف گامزن ہے۔ عوام بیدار ہو چکے ہیں، وہ سوال کر رہے ہیں کہ سب کا وکاس سب کا ساتھ کہاں ہے؟ عوام جان چکے ہیں کہ اب نہ وکاس ہے نہ سب کا ساتھ۔ عوام اب دلوں کو بانٹنے والوں کو بخشنے والے نہیں ہیں انہیں اعتماد ہے کہ بہار میں پانچ پانڈووں کا حوصلہ، یوپی میں اکھلیش-مایاوتی کا عظیم اتحاد یقیناً ملک کی سیاست کی کایا پلٹ کرے گا، پرانے دن لوٹ آئیں گے، جہاں نہ تو ماب لنچنگ ہوگی، نہ شریعت میں مداخلت ہوگی، کیا کھائیں کیا نہ کھائیں، کیا پہنیں کیا نہ پہنیں پر روک ٹوک نہیں ہوگی، ہندوستان کے پرانے سنسکار میں ہندو-مسلم دوستی کی خوشبو بکھرے گی اور ایسے بھارت کا خاکہ ابھرے گا، جہاں کوئی کسی کا دھرم نہ پوچھے لوگ ایک دوسرے کو انسان سمجھیں۔ پرانا ہندوستان کا خواب میرا بھی ہے لیکن نئے بھارت کا نعرہ لگانے والے سیاست کے مداری الیکشن میں تمام تر حربے استعمال کرتے ہیں، اس بار بی جے پی کے پاس نام نہاد راشٹر پریم اور دیش بھکتی کا نعرہ ہے۔ اچھے دنوں کا نعرہ دینے والوں کا یہ نیا نعرہ ہے، کیا راہل گاندھی کے نیائے اور لالو یادو کے سیکولر نظریات پر وہ حاوی ہو جائے گا یہ بھی ایک سوال ہے؟ بقول شاعر:

گرفتاری کے سب حربے شکاری لے کر نکلا ہے
مداری نئے سپنوں کی پٹاری لے کر نکلاہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close