Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

حجاب سے خوفزدہ مغرب

پردہ نہ صرف اسلامی معاشرت کا ایک حصہ ہے بلکہ ہندوستانی تہذیب میں بھی پردہ کی خوبصورت جھلکیاں آج بھی نظر آتی ہیں۔ بڑوں کے سامنے گھونگھٹ میں آنا، پلّو سر پر رکھنا یہ تکریم کی علامت ہے، جو غیر مسلموں میں نظر آتی ہے مگر دور جدید کی فتنہ طرازیوں نے معاشرہ کو اتنا بوجھل بنا دیا ہے کہ اب پردہ کی مخالفت کی جا رہی ہے، اسے آزادی نسواں کا دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔ عورتوں کی برابری کے نعرہ کا سب سے زیادہ اثر پردہ پر پڑا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج پوری دنیا میں مردوں کی طرح کھلے عام زندگی کی جدو جہد میں شامل ہونا، مردوں کی طرح لباس زیب تن کرنا ہی مساوات زمانہ بن چکا ہے اور اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ اب حجاب اور نقاب دونوں نشانے پر ہیں۔ کہیں پردہ کے تعلق سے اسلامی شعار پر وار ہو رہا ہے تو کہیں حجاب اور نقاب پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ اسکولی بچیوں تک کو حجاب پہننے سے روکا جا رہا ہے۔ حالانکہ مضحکہ خیز دلیل یہ ہے کہ اس کی وجہ سے دہشت گردی کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ ان خواتین نے بھی اس پابندی کے خلاف آواز اٹھانا شروع کر دی ہے۔ اقوام متحدہ نے اس سمت خصوصی دھیان دیا ہے۔ لبنان میں فوجی خواتین برقعہ استعمال کرتی ہیں اس طرح وہ نہ صرف خود کو محفوظ سمجھتی ہیں بلکہ مسلم معاشرے کا احترام اور ماحول سے ہم آہنگی بھی مقصود ہے۔ بلاشبہ حجاب یا پردہ اسلامی شعار کی بہترین شناخت ہے، پردہ بے شک سماجی برائیوں اور ماحول کی آلودگی سے محفوظ رکھتا ہے۔ آپ کسی بھی ماحول میں کیوں نہ ہوں اگر آپ حجاب یا برقعہ میں ہیں تو دوسروں کی نظر میں آپ کے لئے قدرتی طور پر احترام کا جذبہ پیدا ہو جائے گا۔ اس کا تجربہ خود کئی غیر مسلم خواتین کو ہو چکا ہے اور وہ خود اب حجاب کی قائل ہو چکی ہیں۔ گوکہ پوری دنیا میں جدیدیت اور خباثت کے لئے حجاب اور پردہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ سو اس کی مخالفت ہو رہی ہے مگر یہ قدرت کا عجب کرشمہ ہے کہ پردہ کی جتنی مخالفت ہو رہی ہے خواتین پردہ کی حامی ہوتی جا رہی ہیں۔ خاص طور پر اپنے جدید ماحول سے اکتائی ہوئی خواتین اسلامی معاشرہ اور پردہ، حجاب سے نہ صرف متاثر ہو رہی ہیں بلکہ اس کی تقلید بھی کر رہی ہیں اور اسلام کی طرف راغب ہو رہی ہیں۔ زیر نظر مضمون پردہ اور حجاب کے تناظر میں مسلم معاشرہ کا ایک ایسا روشن منظر نامہ پیش کر رہا ہے، جس میں مغرب خوفزدہ بھی ہے کہ مغربی خواتین اسلامی معاشرے کے اس عظیم ترین ماحول کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ اسلام سے ان کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ حجاب اور پردے پر پا بندی کا سبب بن رہا ہے:

جہاں ایک جانب دین اسلام میں حجاب یا نقاب زیب تن کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہیں دوسری جانب امریکہ اور مغربی ممالک میں اس پر نہ صرف تنقید کی جا رہی ہے بلکہ بہت سے مغربی ممالک میں تو نقاب پہننے پر پا بندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ سب دہشت گردی کی آڑ میں شناخت واضح کرنے کے نام پر خواتین اور طالبات کے ذریعہ نقاب زیب تن کرنے کی مخالفت ہو رہی ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کا خیال ہے کہ دہشت گرد نقاب پہن کر دہشت گردانہ وارداتیں انجام دیتے ہیں جبکہ یہ مفروضہ بالکل غلط ہے لیکن اس سلسلے میں امریکہ نے تقریباً تمام غیرمسلم ممالک کو اپنا ہم نوا بنا لیا ہے۔ بہت سے ممالک میں نقاب پہن کر اسکولوں میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ اسکارف کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ یہی روش آج اپنے وطن عزیز میں بھی اختیار کی جا رہی ہے۔ بہت سے اسکولوں میں نقاب پہن کر طالبات کے اسکول میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ غیر مسلم خاتون نقاب زیب تن کرکے طلاق ثلاثہ کے خلاف ہنو مان چالیسہ پڑھتے ہوئے دکھائی گئی ہے جب کہ اس کے ہاتھ میں کلاوہ بندھا ہوا تھا۔ یہ نقاب کو اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مذموم سازش کے مترادف ہے۔ مسلم خواتین پردہ کرنے کے لئے نقاب زیب تن کرتی ہیں جو مذہبی طور پر ان کا حق ہے کوئی بھی مردا نہیں برقعہ پہننے پر مجبور نہیں کرتا ہے بلکہ مسلم خواتین نقاب زیب تن کرنے کو باعث فخر تصور کرتی ہیں۔ آج بھی ہمارے ملک کے دور دراز علاقوں میں غیر مسلم خواتین پردہ کرتی ہیں۔ پردہ معاشرے میں نہ صرف کئی برائیوں سے بچاتا ہے بلکہ یہ ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے، اسی لئے اسلام میں پردہ کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک جانب جہاں نقاب پر اعتراضات کئے جا رہے ہیں تو دوسری جانب ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں دیگر مذاہب کی خواتین نے رواداری کے اعتبار سے نقاب زیب تن کیا۔ ایسی ہی ایک مثال پولینڈ کی ایک فوجی خاتون اہلکار نے پیش کی تھی، جس نے ماہ رمضان کے دوران مسلم خواتین کے درمیان آپسی رواداری کا جذبہ دکھاتے ہوئے نقاب زیب تن کیا تھا۔

لبنان میں جب امن قائم کرنے کے لئے اقوام متحدہ نے ایک فو جی دستہ بھیجا تھا تو اس میں خواتین کا ایک فوجی دستہ بھی شامل تھا اور اس دستہ کی ایک فوجی خاتون نے فوجی کیپ اتار کر برقعہ زیب تن کر لیا تھا۔ پولینڈ سے تعلق رکھنے والی کیتھولک مذہب کی پیروکار سلویا مونیکا وسزومرسکا (Sylvia Monika Wyszomirska) نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ماہ رمضان میں اس نے حجاب اس لئے زیب تن کیا تھا تاکہ وہ جنوبی لبنان کے معاشرے میں ہم آہنگ ہوتے ہوئے وہاں کے باشندگان خصوصی طور پر خواتین کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کر سکے۔ اسی لئے انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں جس ماحول میں کام کر رہی ہوں اس کی پروا کئے بغیر میں نے یہ محسوس کیا کہ مجھے ماہ رمضان کے دوران رواداری اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرنی چا ہیے۔“

37 سالہ وسزومرسکا (Wyszomirska) جوکہ چار ماہ سے لبنان میں تعینات تھیں انہوں نے اس بات کا انکشاف اے ایف پی نیوز ایجنسی کے سامنے کیا تھا۔ انہوں نے وضاحت کی تھی کہ ان کے فوجی دستہ کو چونکہ مسلمانوں کے علاقے میں تعینات کیا گیا تھا، اس لئے انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ فوجی وردی کے اوپر وہ برقعہ پہنیں گی۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ یہ جذبہ ان کے دل میں پیدا ہوا تھا اور ان پر تھ پا نہیں گیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ جب سے ان کے فوجی دستہ کو مسلم علاقے میں تعینات کیا گیا تھا تو انہوں نے اس وقت ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ فوجی وردی کے اوپر اسلامی نقاب ضرور پہنیں گی۔ ان کے سینئر افسران بھی ان کے اس نظریہ سے نہ صرف متفق تھے بلکہ انہوں نے وسزومرسکا (Wyszomirska) کی ستائش بھی کی تھی کہ انہوں نے مقدس ماہ رمضان کے دوران اس جذبہ کا اظہار کیا۔

اس سلسلے میں وسزومرسکا (Wyszomirska) کا کہنا تھا کہ ”میرے افسر نے مجھے اس بات کا مشورہ دیا تھا کہ وہ رمضان المبارک کے تعلق سے دیگر فو جیوں کو بھی جانکاری فراہم کرائیں تا کہ وہ روایت کے مطابق ما ہ رمضان کا نہ صرف احترام کریں بلکہ سحر سے روزہ افطار کرنے تک وہ کسی بھی روزہ دار کے سامنے کھانے پینے کو بھی ترک کردیں۔ امن بحال کرنے والے پولینڈ کے فوجی دستہ کی 36 سالہ ایک دیگر خاتون فوجی اہلکار کا یہ کہنا تھا کہ ان کے نزدیک حجاب پہننا ایک قابل ستائش قدم ہے، جس کے توسط سے وہ مقامی باشندوں سے قربت حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ وہ بذات خود ایسا نہیں کریں گی کیونکہ اس کی وجہ سے وہ بالکل مختلف نظر آئیں گی لیکن وسزومرسکا کا نظریہ مختلف تھا حالانکہ دیہی افراد کو اس وقت قدرے تعجب ہوتا تھا جب وہ انہیں بھاری بھرکم فوجی وردی پر نقاب پہنے ہوئے دیکھتے تھے۔

ڈیبائن (Debbine) گاؤں کی حجاب پہننے والی ایک مسلم طالبہ ظاہرہ حجازی (Zahraa Hijazi) نے کہا تھا کہ ”مجھے سلویا کو حجاب پہنے ہوئے دیکھ کر اس لئے تعجب ہوا تھا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہے کیونکہ عیسائی ہونے کے باوجود صرف راہبائیں ہی اسکارف پہنتی ہیں۔“ ڈیبائن کے میئر محمد شریف ابراہیم نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ ان کی انتظامیہ کے بہت سے اراکین کو وسزومرسکا (Wyszomirska)کے حجاب زیب تن کرنے کے فیصلے پر تعجب ہوا تھا کیونکہ یہ ایک غیر معمولی اقدام تھا لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ کہا تھا کہ ”لبنان میں اقوام متحدہ کی عبوری فورس اور لبنان کے مقامی باشندوں کے درمیان رکاوٹوں کو دور کرنے کی جانب یہ ایک قابل ستائش موقف ہے۔ ایک چھوٹی سی بچی کی ماں وسزومرسکا (Wyszomirska) نے بتایا تھا کہ انہوں نے اسی رنگ کا حجاب زیب تن کرنا پسند کیا تھا جس رنگ کی کیپ 13000 پولینڈ کے فوجی پہنتے تھے۔ کراکون (Karkon)کی باشندہ وسزومرسکا (Wyszomirska)اقوام متحدہ کے 200 فوجیوں کے لئے مترجم کا کام انجام دیتی تھی اور اپنے اسی کام کی وجہ سے وہ مارجایون (Marjayon) خطے میں واقع گاؤں کے باشندوں کے رابطے میں آئی تھیں۔ جب وسزومرسکا (Wyszomirska)کو جنوبی لبنان میں تعینات کیا گیا تھا تو ان کے لئے اسلامی روایت کی جانکاری حاصل کرنے کا یہ پہلا موقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل انہیں کویت، عراق اور شام میں تعینات کیا گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں عربی زبان اور روایتوں کی بہت اچھی جانکاری ہو گئی تھی۔ اس ضمن میں انہوں نے بتایا تھا کہ ”جب میں جا گیلونسکی (Jagiellonski) یونیورسٹی میں مشرقی زبانوں کی تعلیم حاصل کر رہی تھی تو گھر واپس آنے سے قبل ہی میں ان ممالک کے رسم و رواج، تاریخ اور جغرافیہ سے واقف ہو گئی تھی اور ان ممالک جیسے لبنان، عراق، شام اور کویت میں خدمات انجام دے چکی تھی۔

وسزومرسکا کے حجاب زیب تن کرنے سے فاصلوں کی برف پگھل گئی تھی اور دیہی باشندے ماہ رمضان میں ان کے نزدیک آ گئے تھے جس سے اعتماد کی فضا ہموار ہو گئی تھی اور اس کا فائدہ نہ صرف انفرادی طور پر وسزومرسکا (Wyszomirska) کو ملا تھا بلکہ ان کے فوجی دستہ کے دیگر فوجیوں کو بھی فائدہ تھا۔ شروعات میں ان کے تعلقات میں گرمجوشی نہیں تھی۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ ”چونکہ ہم دولت مند ملک سے نہیں آئے تھے اس لئے ہمارے پاس انہیں تحفہ میں دینے کے لئے کوئی چیز نہیں تھی۔ ہم انہیں کچھ دے سکتے تھے تو وہ صرف احترام اور مسکراہٹ ہی دے سکتے تھے لیکن جب میں نے حجاب پہننا شروع کیا تو وہ میرے اور میرے ساتھیوں کے ساتھ بہت ہمدردی رکھنے لگے تھے۔ وہ خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال بھی کرنے لگے تھے اور اس طرح کے خوشگوار ماحول نے ہمارے لئے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے دروازے وا کر دیئے تھے۔ انہوں نے کافی یا مٹھائیاں پیش کرنے کے لئے ہمیں اپنے گھر بلانے کے لئے دعوت دینی شروع کر دی تھی اور جب ہم بچوں کے نزدیک سے گزرتے تھے تو وہ ہاتھ ہلا کر مسکراہٹ کے ساتھ ہماری جانب دیکھنے لگتے تھے“ اسی لئے انہوں نے کہا تھا کہ اس علاقے میں واقع مواضعات جیسے ڈیبائن (Debbine) بلات (Blat) اور ایرڈ (Arid) انہیں ایسے لگتے ہیں کہ وہ ان کے دوسرے گھر ہیں۔

دریں اثنا ء غیر مسلم طالبات نے کناڈا میں حجاب کے تعلق سے منعقد سیمیناروں میں شرکت کرنی شروع کر دی تھی۔ پردے کے پیچھے (Behind the Veil) عنوان سے منعقد کئے گئے ایک سیمینار میں 28 غیر مسلم طالبات نے شرکت کی تھی جہاں پر انہوں نے ان مسلم خواتین کی زندگیوں کے بارے میں جانکاری حاصل کی تھی جو کہ نقاب زیب تن کرتی تھیں۔ یہ تجربہ کرنے کے بارے میں سارہ یٰسین جو کہ ٹیکسٹائل اور ایپرل (Apparel) منجمینٹ میں ایک جونیئر کے طور پر کام کرتی ہیں، نے سوچا تھا۔ انہوں نے ایک دن میں مسلم خواتین کے ذریعہ ملبوسات زیب تن کرنے کے بارے میں جانکاری دینے کے لئے طالبات کو مدعو کیا تھا۔ اس دوران مسلم طالبات کے ایک پینل کے ہمراہ پروگرام کے منتظمین نے شرکاء سے بات چیت کرتے ہوئے ان کے گزشتہ تجربات اور اس پروگرام کے موجودہ تاثرات کے بارے میں بھی گفتگو کی تھی لیکن ایک طالبہ میگھان وژکے (Meghan Witzke) جوکہ گرافک ڈیزائننگ میں جو نیئر ہے، نے کہا تھا کہ ”میں نے تو محض تجسس کی بنیاد پر اس پروگرام میں شرکت کی تھی کیونکہ یہ ایک دلچسپ نظریہ تھا، انہوں نے مزید کہا کہ جب میں حجاب زیب تن کرتی ہوں تو مجھے کوئی بھی عجیب و غریب نظروں سے نہیں دیکھتا“۔ انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ جب میرے بال کھلے ہوئے ہوتے ہیں تو لوگ میری جانب زیادہ دیکھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں میرے تئیں احترام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مسلم خواتین جوکہ حجاب پہنتی ہیں اس کے فوائد کے بارے میں اس وقت تک تجربہ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ عملی طور پر اس کا جائزہ نہ لیں۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا ”ایسا محسوس نہیں ہوتا ہے کہ آپ خود کو چھپا رہی ہیں اور ایسا بھی محسوس نہیں ہوتا ہے کہ آپ کسی سے شرمندہ ہیں بلکہ حجاب پہننے پر آپ کو فخر محسوس ہوتا ہے۔“

ابتدائی تعلیم کی ایک سینئر اور پینل کی ممبر عائشہ علی نے اس بات کو نوٹ کیا تھا کہ لوگ اس بات کی جانکاری حاصل کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے کہ جو خواتین حجاب زیب تن کرتی ہیں وہ ظاہری طور پر پابندی کرنے کے بجائے اپنی شخصیت پرکشش بنانے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ ’پردے کے پیچھے‘ پروگرام میں شرکت کرنے والی کیتھرن سمّس (Katherine Sammis) نے اس وقت کہا تھا کہ ”میں جب بھی اپنے گھر سے نکلتی تھی تو میں ذرا بھی خائف نہیں ہوتی تھی کیونکہ میں نے یہ دیکھا تھا کہ کیمپس میں مسلم طلبا کس طرح سے اس لباس کی تعظیم کرتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے حجاب کے تعلق سے کوئی بھی فقرہ بازی نہیں کرتا تھا لیکن کچھ طلبا ایسے بھی تھے جو انہیں بار بار پلٹ کر دیکھتے تھے۔ اسی طرح سارہ اویریبی (Sarah Oraby) جوکہ بایو میڈیکل انجیئرنگ کی جونیئر اور پینل کی ممبر تھیں ان کا کہنا تھا کہ نقاب پہننے کے بعد مجھے ا س بات کا احساس ہوتا ہے کہ میں بھی اس معاشرہ کا ایک حصہ ہوں۔

انڈسٹریل ڈیزائننگ کی ایک سینئر کا کہنا تھا کہ حجاب زیب تن کرنا بذات خود احتساب کرنے کا درس دیتا ہے اور ہمیں اپنے ہر عمل کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔چنانچہ اس ضمن میں انہوں نے کہا تھا کہ ”میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ میں پورے گروپ کی نمائندگی کر رہی ہوں، میں ان کی غلط نمائندگی نہیں کر سکتی ہوں۔ اس پینل میں ایسی مسلم طالبات شامل تھیں جو کہ روزانہ حجاب پہننا پسند کرتی تھیں اور ان میں سے کئی روزانہ برقعہ پہننا پسند نہیں کرتی تھیں، جو اسکارف پہننا پسند کرتی تھیں ان کی اپنی پسند تھی اور اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا اور نہ ہی کسی قسم کی پابندی عائد کی گئی تھی لیکن اس تعلق سے اوریبی کا کہنا تھا ’حالانکہ کچھ خواتین اور طالبات کا یہ کہنا تھا کہ ”حجاب پہننے پر انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہم پیچھے قدم نہیں اٹھاتے ہیں“۔

انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر کوئی شخص وہیل چیئر پر بیٹھ کر ایتھلیٹ کا ایک ریکارڈ قائم کر سکتا ہے تو حجاب ہمیں کوئی بھی کارنامہ انجام دینے میں رکاوٹ پیدا نہیں کر سکتا ہے۔ پینل کی دیگر ممبران سمیت علی نے اس دن کو یاد کیا تھا جب انہوں نے پہلی مرتبہ عوامی طور پر حجاب زیب تن کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ جب وہ نقاب پہن کر اسکول گئی تھیں تو مایوسی کا شکار ہو گئی تھیں لیکن انہیں اس بات کا یقین تھا کہ ان کی سہیلیاں ان کی حوصلہ افزائی کریں گی۔ اس طرح سے نقاب پہننے میں جو جھجھک محسوس ہوئی تھی وہ بھی دور ہو گئی تھی۔

اسلام میں خواتین کے ذریعہ حجاب زیب تن کرنے کی نہ صرف تاکید کی گئی ہے بلکہ اسے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں خواتین کو آزادی دینے کے نام پر انہیں عریاں کیا جا رہا ہے جو کہ اسلامی تہذیب کے عین مخالف ہے۔ حجاب زیب تن کرنے سے خواتین کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے اور غیر مسلم معاشرہ میں بھی اب اس حقیقت کا اعتراف کیا جانے لگا ہے جوکہ اہل اسلام کے لئے باعث فخر بات ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close