Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

پتھروں کو دے رہے ہیں آئینے کھل کر جواب

محاسبہ…………….سید فیصل علی

بہار اسمبلی الیکشن کے پہلے مرحلے کے انتخابات ہو چکے ہیں، لیکن اس انتخاب سے جو رجحانات مل رہے ہیں، اس سے صاف اجاگر ہے کہ بہار میں کہیں این ڈی اے کا صفایا نہ ہو جائے، کیونکہ بہار میں جس طرح سے تیجسوی کی آندھی کی رفتار بڑھتی جا رہی ہے، اس سے این ڈی اے سخت ہراساں ہے، لیکن ’’چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہ جائے‘‘، اس سے کچھ تشویش بھی ہے، حالانکہ گودی میڈیا اپنے خود ساختہ سروے میں این ڈی اے کی مقبولیت اور اکثریت دکھا رہا ہے، نتیش کمار کے دوبارہ مکھ منتری بننے کا نقارہ بجا رہا ہے، لیکن پہلے مرحلے میں 70 سیٹوں پر ہوئے انتخابات کے بعد بہار میں برسراقتدار جماعت بالکل چپی سادھے ہوئی ہے، کیا اسے بھی اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ اس کے اقتدار کا سورج غروب ہونے والا ہے، لیکن خاموشی کبھی کبھی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے، بی جے پی اقتدار کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے، کوئی بھی تگڑم اپنا سکتی ہے، لیکن قدرت کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ بہار میں جو بدلاؤ کی لہر چل رہی ہے، تیجسوی کی آندھی دن بہ دن جس طرح رفتار پکڑتی جا رہی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے یہ لگتا ہے کہ اس بار اہل بہار فسطائی قوتوں کو اکھاڑ پھینکیں گے۔

بہار کے17 اضلاع میں دوسرے مرحلے کا انتخاب 94 سیٹوں پر 3 نومبر کو ہوگا اور تیسرے مرحلے میں 78 سیٹوں پر انتخاب 7 نومبر کو ہوگا۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے کا انتخاب یہ ثابت کرے گا کہ بہار میں فتح کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ کیا بہار میں مودی کی بدولت بی جے پی کا پرچم لہرائے گا یا اہل بہار مہاگٹھ بندھن کے سی ایم امیدوار تیجسوی کے سر پر تاج رکھیں گے، کیونکہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اب تیجسوی کا سیدھا مقابلہ مودی سے ہے۔ نتیش کے نام پر بھلے ہی این ڈی اے چناؤ لڑ رہا ہے، لیکن عوام میں جس طرح نتیش کے جلسوں میں مخالفت ہو رہی ہے، ان کے امیدواروں کی فضیحت ہو رہی ہے، اس بات کو بھی بی جے پی نے محسوس کیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پوسٹروں سے لے کر چناوی جلسوں تک نتیش کی اہمیت ختم ہو چکی ہے۔ اب بہار میں بی جے پی کو ہی نہیں، نتیش کو بھی مودی کا سہارا ہے۔ این ڈی اے اب مودی کے چہرے سے ووٹروں کو لبھانے کا کھیل کھیل رہی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بی جے پی بغیر ایشو کے چناؤ لڑ رہی ہے۔ مگر کورونا، سیلاب سے پریشان، روزگار کے مارے ہوئے بہار کے لاکھوں نوجوان اور دوسری ریاستوں سے آئے ہوئے لاکھوں مزدوروں کی جو حالت ہے، اسی ایشو کو لے کر تیجسوی یادو میدان میں ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ ایک طرف مودی، یوگی، نڈا اور راج ناتھ سنگھ سمیت 30 سے زائد بھاجپا کے اسٹار پرچارک بہار کے چناوی مہابھارت میں اپنے جوہر دکھا رہے ہیں، لیکن وہ ایک 31 سالہ نوجوان تیجسوی کو گھیرنے میں ناکام کیوں ہو رہے ہیں؟ ان اسٹار پرچارکوں کے چناوی سبھاؤں میں کرسیاں خالی کیوں ہیں؟ اور تیجسوی کے جلسوں میں اتنی بھیڑ کیوں امنڈ رہی ہے، جس پر خود آرجے ڈی نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور الیکشن کمیشن سے شکایت کی ہے کہ تیجسوی یادو کو خاطر خواہ سیکورٹی نہیں مل رہی ہے۔ بہار چناؤ کا سب سے اہم منظرنامہ یہ ہے کہ تیجسوی یادو نے روزگار کو ایک ایسا ایشو بنا دیا ہے، بی جے پی کو اسی کا خوف ہے کہ یہ ایشو کہیں اس کے ہندوتو کی سیاست کو ختم نہ کر دے۔ تیجسوی بھی ہر جلسے میں کہتے ہیں کہ بے روزگاری کو ملک سے ہٹانا ہے تو بہار سے ہی اس کی شروعات ہوگی، تیجسوی تو بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کو بھی بحث کا چیلنج کر رہے ہیں۔

بلاشبہ تیجسوی کی آندھی اور ان کے ایشوز سے مودی، یوگی اور بی جے پی کا پورا پلٹن گھبرایا ہوا ہے۔ چنانچہ اب آرپار کی جنگ کا منظرنامہ ابھر رہا ہے، کیونکہ بہار کا جو چناوی ماحول ہے، عوام کے جو تیور ہیں، اس کو بدلنے کے لئے بی جے پی کے پاس کوئی ایشو نہیں ہے۔ لہٰذا اس چناؤ میں پاکستان، کشمیر، 370 اور تین طلاق سے لے کر رام مندر تعمیر کی باتیں ہو رہی ہیں، لیکن غریبی، بھکمری، دوائی، ڈاکٹر، بے روزگاری، تعلیمی بدحالی، لاکھوں بے وطن مزدور، کورونا کے مارے ہوئے عوام اور سیلاب سے پریشان 17 اضلاع کے لوگوں کے آگے بی جے پی کے بھڑکاؤ بھاشنوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔ ویسے بھی یہ چناؤ بے روزگاری اور تبدیلی کیلئے ہو رہا ہے۔ اس الیکشن کی خاصیت یہ بھی ہے کہ تیجسوی یادو نے جو ایشوز اٹھائے ہیں، اسے عوام اپنا درد سمجھ کر تیجسوی کی آواز سے آواز ملا رہے ہیں۔ مہاگٹھ بندھن کی سرکار بنتے ہی پہلا فیصلہ 10 لاکھ نوکریوں کا اعلان بی جے پی اور جنتادل یو کے گلے میں ایسا اٹکا ہے کہ جسے نہ نگلتے بنتی ہے اور نہ اگلتے۔ حالانکہ شروع شروع میں نتیش کمار سے لے کر نائب وزیراعلیٰ سشیل مودی اور بی جے پی جے ڈی یو کے درجنوں لیڈروں نے اس اعلان کا بڑا مضحکہ اڑایا تھا، عوامی جلسوں میں کہا گیا تھا کہ یہ اعلان ہوا ہوائی ہے۔ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ لیکن تیجسوی یادو نے جس طرح حکومت کو آئینہ دکھایا وہ بھی ان کی سیاسی پختگی کی دلیل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہار کی نکمی حکومت کے ذریعہ ترقیاتی فنڈ کا 40 فیصد حصہ استعمال نہیں ہوتا ہے، 80 ہزار کروڑ روپے بیکار چلے جاتے ہیں، انہیں پیسوں سے 54 ہزار کروڑ روپے کی نوکری دینا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ تیجسوی کی اس دلیل میں بڑا دم ہے، جس نے جملہ باز سیاست کی ہیکڑی نکال دی ہے، سو آناً فاناً میں بی جے پی نے اعلان کر دیا کہ وہ 19 لاکھ روزگار مہیا کرائے گی۔ مگر بہار کے عوام کا سیاسی ادراک اور ریاستوں سے کہیں زیادہ ہے۔ بہار کے عوام مودی کے ہر سال 2 کروڑ نوکریاں دینے اور 15 لاکھ اکاؤنٹ میں ڈالنے کے وعدے کے بعد اب 19 لاکھ روزگار کے وعدہ کو بھی محض چناوی جملہ سمجھ رہے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ چناوی وعدوں کی بھرمار کے باوجود بی جے پی، جنتادل یو کے جلسوں میں خالی کرسیاں اس بات کی دلیل ہے کہ عوام اب جملے بازوں کا شکار نہیں ہوں گے۔ حد تو یہ بھی ہے کہ اب اسمرتی ایرانی نے کئی جلسوں میں کہا ہے کہ بہار میں ساڑھے چھ لاکھ لوگوں کو نوکریاں دی گئی ہیں، حالانکہ بہار میں صرف ساڑھے تین لاکھ کر مچاری ہی کام کر رہے ہیں۔ عوام کے سامنے اس سفید جھوٹ کا بھی پردہ فاش ہو چکا ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا بہار میں جھوٹ کے بل پر پاکستان، کشمیر، تین طلاق اور مندر کی دہائی دے کر بی جے پی اقتدار حاصل کر لے گی؟

حالانکہ پہلے مرحلے میں جو پرجوش ووٹنگ ہوئی ہے، اس نے واضح اشارہ دے دیا ہے کہ بہار کروٹ بدلنے والا ہے، حالانکہ اب بھی گودی میڈیا بہار میں این ڈی اے کی سرکار بنانے کا دعویٰ کر رہا ہے، اسے شاید دوسرے اور تیسرے مرحلے کی پولنگ کا انتظار ہے، جہاں سیکولرووٹ بکھرنے کی امیدیں ہیں۔ بہوجن سماج، ایم آئی ایم وغیرہ گٹھ بندھن کی وجہ سے بھاجپا کو طاقت ملنے کی بھی آشا ہے۔ خاص کر سیمانچل، متھلانچل کے مسلم اکثریتی علاقوں میں کھڑے کئے گئے مسلم امیدوار بی جے پی کی جیت کا سبب بنیں گے۔ یوگی آدتیہ ناتھ جس طرح ہندو بھاؤناؤں کو ابھار کر بی جے پی کی نیّا پار لگانے میں لگے ہوئے ہیں، اسی طرح اویسی بھی جذباتی ایشوز کے ذریعہ اپنی مسیحائی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ مگر اس چناؤ میں جہاں پہلی بار ذات پات، مذہب، دھرم سے اوپر اٹھ کر روزگار اور بدلاؤ سب سے بڑا مسئلہ ہے، وہاں اویسی کس پارٹی کے لئے مسیحا ثابت ہوں گے یہ بہار کا عام مسلمان بھی سمجھتا ہے۔ بہار میں مایاوتی-اویسی گٹھ بندھن نے خود بی جے پی کی سیاست کی پول کھول دی ہے۔ لالو پرساد کے M+Y (مسلم-یادو) سمیکرن کو توڑنے کے لئے جہاں مایاوتی نے بڑی تعداد میں یادؤں کو کھڑا کیا ہے، حتی کہ تیجسوی کے آبائی ضلع گوپال گنج میں بھی رابڑی دیوی کے سگے بھائی سادھو یادو کو تیجسوی کا کاٹ کرنے کے لئے کھڑا کیا گیا ہے، وہیں اویسی صاحب نے بھی جو کی ہاٹ اسمبلی حلقہ جو تسلیم الدین مرحوم کا قلعہ سمجھا جاتا ہے، جہاں بی جے پی سمیت فسطائی قوتوں کو 50 سالوں میں سر اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی، اس بار وہ بڑے حوصلے سے جوکی ہاٹ کو دیکھ رہی ہیں، جہاں آرجے ڈی کے امیدوار تسلیم الدین کے بڑے بیٹے سرفراز عالم کے مقابلے میں چھوٹے بیٹے شاہنواز کو کھڑا کر دیا ہے۔ اس طرح مایاوتی یادوؤں کے اور اویسی مسلمانوں کے کندھوں سے مسلم-یادو ووٹوں پروار کر رہے ہیں۔ مگر اس سیاست کا بھی چہرہ قدرت نے عیاں کر دیا ہے۔ چناؤ سے قبل ہی مایاوتی کھل کر سامنے آگئی ہیں۔ راجیہ سبھا کے چناؤ میں اکھلیش کو کمزور کرنے کے لئے انہوں نے بی جے پی کا ساتھ دینے کا اشارہ کیا ہے۔ اسی تناظر میں کیا بہار کے مسلمان اور یادو دوست نما دشمن اویسی اور مایا کے گٹھ بندھن کو ووٹ دیں گے؟ کیا بہار کے مسلمان زندہ مکھی نگل لیں گے۔ یہ سوال بھی بڑا مضحکہ خیز ہے۔

بہر حال متھلانچل اور سیمانچل کے چناؤ سے بی جے پی کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں، لیکن مجھے امید ہے کہ تیجسوی کی جو آندھی چلی ہے، وہ ایک نئی تاریخ رقم کرے گی۔ بے روزگاری ملک گیر ایشو بنے گی، بہار ہی نہیں ملک میں فسطائیت، فرقہ پرستی اور نفرت کے بازی گروں کا حوصلہ پست ہوگا۔ تیجسوی کی آندھی کا اثر دہلی کے ایوان واقتدار کو یہ سندیسہ دیگا کی بہار بیدار ہو چکا ہے۔ مندر، مسجد، چین پاکستان، کشمیر، تین طلاق وغیرہ کے سامنے اب ملک میں وکاس اور روزگار کے ایشو کھڑے ہوں گے اور یہی ایشوز بی جے پی کے اقتدار و سیاست کی ہوا نکال دیں گے۔ بقول شاعر:

انقلاب صبح کی کچھ کم نہیں یہ بھی دلیل
پتھروں کو دے رہے ہیں آئینے کھل کر جواب

([email protected])

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close