Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

عازمین حج کو پانی فراہم کرانے کا نایاب کارنامہ…..نہر زبیدہ (آخری قسط)

(گزشتہ سے پیوستہ)

مزدلفہ پہنچنے پر مسجد مشہر الحرام کے نزدیک یہ قنات معمولی طور پر ایک کنویں کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اسی کنویں سے منٰی میں بھی پانی سپلائی کیا جاتا تھا۔ عین زبیدہ ایک ایسا کلیدی کارنامہ تھا جو کہ حج کے دوران عازمین کو راحت بخشتا تھا۔ دستیاب شدہ اولین تخمینہ کے مطابق جب انجینئروں نے 600سے 800کیوبک میٹر پانی فی عازم تقسیم کرنے کا حساب کتاب لگایا تو اس کا اندازہ عین زبیدہ کی گزشتہ تجدید کاری سے ہی لگایا تھا جس کا تناسب تقریباً160ٹینکرس روزانہ تھا۔ اس پانی کی نہ صرف وافر مقدار تھی بلکہ یہ تازہ اور میٹھا بھی تھا، حالانکہ 1950تک عین زبیدہ کے پانی کی روانی برقرار رہی تھی، قنات کے علاقوں میں ٹیوب ویل اور پمپ لگائے جانے سے آبی سطح میں کمی آنے کے سبب بڑھتی ہوئی آبادی کی مانگ پوری کرنا مشکل ہو گیا تھا کیونکہ زمین کی آبی سطح میں گراوٹ آنے کی وجہ سے عین زبیدہ کا پانی سوکھ گیا تھا۔

عین زبیدہ پانی کے بھروسہ مند نظام کا ایک ایسا زبردست ذریعہ تھا، جس سے شہر کے باشندوں اور عازمین کو تقریباً1200سال تک پانی فراہم کیا جاتا رہا تھا۔ شاہ عبدالعزیزیونیورسٹی، جدہ کے ذریعہ کرائی گئی تحقیق کے مطابق قنات کے اندر صاف پانی کی روانی کو یقینی بنانے کے لئے الگ الگ نظام تھے اور عین زبیدہ کی دیکھ بھال کے لئے ایک الگ نظام بھی تھا۔ ان دونوں کو فنڈ فراہم کرنے کے لئے ایک ٹرسٹ قائم کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد مراعات جمع کرنا اور کسی بھی مد میں خرچ کرنے کے لئے رقم مختص کرنا تھا۔ قنات کی صفائی اور اس کی اچھی طرح سے مرمت کرنے کے لئے قابل قدر تعداد میں ملازمین رکھے گئے تھے۔ قنات کے کسی بھی حصہ کے خستہ ہوجانے پر اس کے بارے میں فوری پتہ لگالیا جاتا تھا اور قبل از وقت ماہرین سے رجوع کیا جاتا تھا تاکہ کسی طرح کی پریشانی پیش نہ آئے۔ ریکارڈوں سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ مکہ معظمہ میں رہنے والے تقریباً500ملازمین تنخواہ پر رکھے گئے تھے، جن میں بہت سے ماہرین، کل وقتی اور جز وقتی افسران اور سینکڑوں کارکنان شامل تھے۔ قدرتی آفات کے دوران ہنگامی حالات میں مرمت کرنے کے لئے ان لوگوں کو بلا لیا جاتا تھا۔ ان میں سے کچھ لوگ رضاکارانہ طور پر بھی کام کرتے تھے۔ علاوہ ازیں عین زبیدہ کا ہفتہ وار معائنہ کی جاتا تھا۔ چھ ماہ سے 12ماہ کے درمیان اس چینل کا بڑے پیمانے پر معائنہ کیا جاتا تھا تاکہ جلد از جلد نقصان زدہ حصہ کی مرمت کرائی جا سکے۔ زبردست سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے بعد دیکھ بھال کا خصوصی کام کرایا جاتا تھا، جس کے تحت چینل کے مختلف حصوں کی مرمت کرائی جاتی تھی بلکہ اسے صاف بھی کیا جاتا تھا۔ اوسطاً یہ کام ہر دس سال میں انجام دیا جاتا تھا۔

ملکہ زبیدہ آج کے عراق میں واقع موصل میں 762عیسوی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ خلیفہ آل مہدی کے بھائی جعفر کی دختر تھیں۔ ان کے والد کا اس وقت انتقال ہو گیا تھا جب ان کی عمر محض ایک سال کی تھی چنانچہ ان کے دادا خلیفہ منصور نے ان کی پرورش کی تھی۔ سن بلوغت میں ہی انہوں نے نہ صرف قرآن وحدیث کا مطالعہ کر لیا تھا بلکہ شاعری، آرٹ، تاریخ، ادب اور سائنس میں بھی ان کی خصوصی دلچسپی تھی۔ ان کے دادا جی کے انتقال کے بعد ان کے ایک ماموں نے ان کی دیکھ بھال کی تھی۔

پانچویں عباسی خلیفہ ہارون رشید کے ساتھ زبیدہ کی شادی ہوئی تھی۔ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد وہ 32سال تک با حیات رہی تھیں اور 831عیسوی میں ان کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔ اسلامی تاریخ میں اپنی بے مثال حصولیابیوں کے لئے زبیدہ کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ نہایت باصلاحیت، ذہین، سنجیدہ اور مخلص خاتون تھیں۔ انہوں نے اسکالروں اور شاعروں کو بغداد میں مدعو کیا تھا اور اس مقصد کے تحت ایک فنڈ بھی مختص کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ چاہے وہ اپنے قصر میں موجود ہوں یا نہ ہوں پھر بھی انہوں نے دن رات قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے لئے 100خواتین کو ملازمت دی تھی۔ عین زبیدہ کے علاوہ ملکہ زبیدہ اور خلیفہ ہارون رشید نے اپنے خطہ میں بہت سے پروجیکٹ مکمل کرائے تھے۔ ملکہ اور ان کے شوہر نے بغداد میں بیت الحکمائ لائبریری کے علاوہ دیگر تحقیقی، تعلیمی اور تراجم کے مراکز تعمیر کرانے کو بہت زیادہ اہمیت دی تھی۔

عربی زبان کے تعلق سے ان کی زندگی کی حصولیابیاں دائمی سمجھی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں سے کتب اور مسودات بیت الحکمائ لائبریری میں لائے گئے تھے۔ چنانچہ صدیوں سے بغداد میں واقع اس لائبریری میں آج بھی کام ہو رہا ہے۔ ملکہ زبیدہ نے معروف سائنسدانوں اور اسکالروں کو بہترین مشاہروں پر بغداد میں مامور کیا تھا اور اس کے بعد تراجم اور تحقیقات کے مزید مراکز کھولے تھے۔ ان اسکالروں کو آرام دہ رہائش فراہم کی گئی تھیں اور ان کے ذریعہ کی جانے والی تحقیقات اور تعلیمات سے طلبا مفت استفادہ کرتے تھے۔

مکہ معظمہ میں 26کنویں:
مکہ معظمہ میں پانی سپلائی کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ زیر زمین پانی رہا ہے۔ تاریخ سے اس بات کا انکشاف ہو اہے کہ دور "جہالت "میں مکہ معظمہ میں تقریباً 26کنویں تھے۔ مکہ معظمہ کا اولین تاریخ داں الغزاقی نے تو اپنی کتاب (The History of Makka) میں 20سے زائد کنوئوں کے ناموں کا ذکر کیا ہے۔زم زم بھی صدیوں سے مکہ معظمہ میں پانی سپلائی کرنے کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے۔ زم زم کا قدیم ترین کنواں دور جہالت میں ہی صدیوں سے مکمل طور پر سوکھ چکا تھا۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد ؐ کے دادا حضرت عبد المطلب ؓنے ایک خواب دیکھا تھا، جس کے بعد زم زم کنویں کی اصل جگہ کا پتہ لگا کر وہاں دوبارہ کنواں کھودا گیا تھا۔ اس کے بعد آب زم زم کے کنویں سے پانی کی سپلائی کبھی نہیں رکی اور آج بھی اس میں سے پانی نکل رہا ہے۔ آب زم زم کا کنواں دوبارہ کھلنے کے بعد دیگر بہت سے کنویں بھی کھول دئے گئے تھے۔ بہر کیف جیسے جیسے مکہ معظمہ کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا ویسے ویسے زیادہ پانی کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی۔ ملکہ زبیدہ بے شک مکہ معظمہ میں مقامی باشندوں اور عازمین کو پانی فراہم کرانے کے لئے قنات (چینل) تعمیر کروانے کے لئے معروف ہیں لیکن اس کے علاوہ انہوں نے بغداد سے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ جانے والے راستہ کی مرمت اور تجدید بھی کرائی تھی۔ ایسے بھی بہت سے پروجیکٹ ہیں جن کو انہوں نے پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا اور اس راستہ پر عازمین کے لئے سہولتیں فراہم کرائیں تھیں۔

جب عین زبیدہ کی تعمیر کا کام مکمل ہو گیا تھا تو ملکہ زبیدہ نے اپنے محل کے جھروکے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "آج میں نے عین زبیدہ کے حساب کتاب کا رجسٹر بند کر دیا ہے اور اب اس پر ہونے والے اخراجات کے بارے میں پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ مجھے فوری طور پر ا س کا دگنا اجر وثواب مل جائے گا۔” مکہ معظمہ کی گرینائٹ پہاڑیوں کی وادی کے ساتھ ساتھ ایسے چینلز تعمیر کرائے گئے تھے، جن میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا۔ "برکہ "(Birkah) کے نام سے معروف تالابوں میں اس پانی کو جمع کیا جاتا تھا لیکن یہ کام پہلی ہجری صدی کے دوران بنی امیہ کے اقتدار کے دوران انجام دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود یہ پانی خصوصی طور پر دوران حج ناکافی رہتا تھا اور پانی کی کمی کی دشواری ہمیشہ بنی رہتی تھی۔ مثال کے طور پر گزشتہ صدی کے ابتدائی دور میں عین زبیدہ کے آپریشن میں آنے پر منٰی کے عازمین کو یومیہ اوسطاً 3.75لیٹر پانی فراہم کرایا جاتا تھا، پانی کی یہ مقدار لوگوں کے لئے کافی نہیں تھی۔ اس زمانہ میں معاشرے کے زیادہ تر لوگوں کا انحصار مویشیوں پر تھا اور ان کے لئے پانی کی مقدار نسبتاًکم ہوتی تھی۔ عید الاضحی کے موقع پر مویشیوں کو قربانی کے لئے لایا جاتا تھا اور اونٹوں و گھوڑوں پر سوار ہو کر لوگ مسافت طے کیا کرتے تھے۔ پینے کے لئے ہی نہ صرف پانی کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ کھانا بنانے اور دیگر ضرویات کے لئے بھی پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے کبھی کبھی کچھ کنوئوں کے کھارے پانی کو بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

ملکہ زبیدہ کی بڑی حصولیابیوں میں سے ایک حصولیابی یہ ہے کہ انہوں نے بغداد سے لے کر مکہ معظمہ تک کے راستہ پر عازمین کے لئے سہولتیں فراہم کرائی تھیں۔ اس راستہ کو "راہ زبیدہ” (Darb Zubaydah) کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ اس زمانہ میں عازمین یا مسافر ریگستان میں آندھی چلنے کی وجہ سے نہ صرف راستہ بھٹک جاتے تھے بلکہ کچھ لوگ پیاس کی وجہ سے دم بھی توڑ دیتے تھے۔ ملکہ زبیدہ نے بغداد سے لے کر مکہ معظمہ تک راستہ کی اصلاح بھی کرائی تھی اور متوازی فاصلہ پر نہ صرف انہوں نے کثیر تعداد میں کنویں کھدوائے تھے بلکہ کیمپ نصب کرنے کے لئے علاقوں کی نشان دہی بھی کرائی تھی۔ عازمین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ان کے ساتھ سپاہیوں کو روانہ کرنے کا معمول اختیار کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ پہاڑیوں کی چوٹیوں پر دوران شب عازمین کی رہنمائی کے لئے روشن مینارے بھی نصب کئے گئے تھے۔ اس وقت ملکہ زبیدہ کے حکم پر انجینئروں نے بغداد۔مکہ کے 1200کلومیٹر طویل راستہ کا سروے کرنے کے بعد ایک نقشہ بھی تیار کیا تھا اور راستہ کے ساتھ انہوں نے قبلہ کی سمت کا تعین بھی کیا تھا تاکہ عازمین قبلہ رخ ہو کر اپنی نمازیں ادا کر سکیں۔

ملکہ زبیدہ کے ذریعہ تعمیر کرایا گیا راستہ کئی صدیوں تک استعمال ہوتا رہا تھا، جس کے نشانات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ راستہ بغداد سے شروع ہو کر کوفہ، نجف، قدسیہ اور اسمارہ سے ہوتے ہوئے مکہ معظمہ تک پہنچتا تھا۔ راہ زبیدہ (Darb Zubaydah) کی وجہ سے تمام تر سہولتیں فراہم کئے جانے پر عازمین کا سفر نہایت آسان ہو گیا تھا اور اسی وجہ سے اس خطہ کی ثقافتی اور اقتصادی کارگزاریوں میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ اب راہ زبیدہ (Darb Zubaydah) میں ہر سال میں چھ مہینوں تک عازمین اور مکہ معظمہ جانے والے دیگر زائرین قیام کرتے ہیں۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close