Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

امیر خود ہی چلائیں گے کارخانے کیا؟

محاسبہ…………….سید فیصل علی

لاک ڈاؤن کے ہیبت ناک دور میں پردھان منتری نے اپنے پانچویں خطاب میں ملک کے لئے 20 لاکھ کروڑ کے راحت پیکیج کا اعلان کیا، لیکن یہ راحت پیکیج واقعی ملک کے لئے راحت کی راہیں ہموار کرے گا یا نہیں یہ سب سے بڑا سوال ہے؟ کیا اس راحت پیکیج سے ملک کے 84 فیصد عوام کے تاریک مستقبل میں روشنی آسکے گی؟ کیا نیم متوسط طبقہ، متوسط طبقہ، غریب طبقہ بالخصوص مزدوروں کو 2 وقت کی روٹی مل سکے گی؟ جو آج بھی اپنے صنعتی شہروں سے اپنے گھروں کی طرف کوچ کر رہے ہیں۔ پردھان منتری نے اپنے ’منگل سندیش‘ میں ان مزدوروں کی نقل مکانی، ان کی خستہ حالی اور راحت کاری کا خاطر خواہ ذکر تک نہیں کیا، جبکہ یہی مزدور اور محنت کش طبقہ قومی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ راہل گاندھی نے یہی سوال اٹھایا ہے کہ انہوں نے مزدوروں کی نقل مکانی، ان کی بے بسی اور ان کی بھوک کا منظر ویڈیو کے ذریعہ دکھایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ محنت کش قومی معیشت کے ’کرندھار‘ ہیں، ان کے ’سوابھیمان‘ میں کمی نہیں آنی چاہیے اور ان کی راحت پر سب سے زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے، لیکن ستم تو یہ ہے کہ سرکار کی تمام تر حکمت عملی امیر طبقہ کو سہولت پہنچانے کی طرف ہے اور بیچارے غریب مزدور ملک کے سرمایہ دارانہ نظام کا شکار ہوکر اپنے مقدر کو رو رہے ہیں۔

پردھان منتری کے حالیہ اعلان کردہ 20 لاکھ کروڑ کے راحت پیکیج پر اپوزیشن نے بھی سوال کھڑا کیا ہے۔ پی چدمبرم نے اسے ایک ’بلینک پیپر‘ قرار دیا ہے کہ کیا واقعی اس راحت پیکیج سے عام لوگوں کو راحت ملے گی؟ یا یہ بھی ایک ’سبھ سندیش‘ بن کر رہ جائے گا۔ کورونا کا مقابلہ کرنے کیلئے مرکز نے ایک لاکھ 70 ہزار کروڑ کا راحت پیکیج دیا تھا، اس پیکیج کے استعمال پر بھی سوالیہ نشان ہے؟ کیونکہ اس پیکیج سے 70 ہزار کروڑ روپے واپس لے لئے گئے، اب 20 لاکھ کروڑ کے نئے راحت پیکیج میں سے 8 لاکھ کروڑ روپے کی ادائیگی آر بی آئی کو کی جائیگی اور بقیہ کا کس طرح استعمال ہوگا، اس کی تشریح بھی باقی ہے؟ یوں تو اس راحت پیکیج سے کسانوں، مزدوروں، چھوٹی صنعتوں کو فائدہ پہنچانے کی باتیں کی جا رہی ہیں، مگر سچائی اس کے برعکس ہے، کیونکہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک میں راحت پیکیج کے دوران لوٹ کھسوٹ، مالی بے ضابطگی کا بازار گرم ہے۔ کورونا سینٹروں کی جو زبوں حالی ہے، وہاں جس طرح متاثرین کو رکھا جا رہا ہے، وہ بھی بے ضابطگی کی شرمناک مثال ہے، وہاں بھی تفریق برتی جا رہی ہے۔ سماجی تفریق اور سرمایہ دارانہ فکر کی انتہا ہے کہ جو اسپیشل ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں، وہاں بھی مسافروں سے تین گنی رقم وصول کرکے ٹکٹ فراہم کرایا جا رہا ہے۔ ایک عام مزدور اور غریب آدمی کیلئے ان ٹرینوں پر سفر کرنا ایک خواب جیسا ہے۔ مہاراشٹر کے بھیونڈی سے گورکھپور جانے والی اسپیشل ٹرین میں 90 سیٹیں خالی چلی گئیں، مگر ان میں غریبوں اور مزدوروں کو نہیں لیا گیا۔ وہاں پہنچنے پر اسپیشل ٹرین کے مسافروں کو سیدھے ہوٹل پہنچا کر کوارنٹین کردیا گیا، جہاں مسافروں کو اپنا خرچ خود اٹھانا ہوگا، حالانکہ کوارنٹین سینٹروں کے لئے حکومت کی جانب سے فی کس 2450 روپے خرچ کرنے کا نظام ہے، جس میں 600 روپے صرف خوراک کیلئے اور بقیہ دیگر امور شامل ہیں، مگر کیا کسی بھی کورونا سینٹر پر اس ضابطے کی تابعداری ہو رہی ہے؟مزے کی بات تو یہ ہے کہ ملازمین کی سیلری میں 2 فیصد اضافہ کا اعلان کرکے سرکار خود اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے، جبکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ امپلائیز پروویڈنٹ فنڈ (ای پی ایس) 12 فیصد کٹتا ہے، اسے 10 فیصد کرکے بقیہ 2 فیصد کو سیلری میں بڑھا دیا گیا ہے، یہ تو وہی بات ہوگئی کہ’’ میاں کی جوتی میاں کے سر‘‘۔

اسی طرح اب 15 ہزار سے کم سیلری والوں کو حکومت ’ای پی ایس‘ دینے کا اعلان کر رہی ہے، لیکن ’ٹی ڈی ایس‘ 25 فیصد کاٹنے کا بھی اعلان ہوا ہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی گریز نہیں کہ اس راحت پیکیج سے عام لوگوں کو کوئی راحت نہیں ملنے والی ہے۔ ’سی ایم ای آئی‘ کی رپورٹ کے مطابق اگر لاک ڈاؤن مزید ایک ہفتہ بڑھے گا تو لوگ سڑکوں پر آجائیں گے اور بے روزگاری کی شرح 25 فیصد سے اوپر جا سکتی ہے۔ ایک اور سروے کے مطابق ہندوستان کے 68 فیصد غریب عوام کے پاس اب 100 روپے فی کس بہ مشکل بچا ہے، ایسے میں مزدوروں کی نقل مکانی بھی وقت کی مجبوری ہے اور وہ 3 گنا مہنگے ٹرین کے ٹکٹ پر سفر کرنے سے قاصر ہیں، حالانکہ سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ مزدوروں کو گھر جانے سے روکنا یا ان پر کسی طرح کی روک لگانا ناممکن ہے۔ سرکار کو مزدوروں کے سلسلے میں فلاحی قدم اٹھانے چاہئیں، مگر مزدوروں کی نقل مکانی کا عالم یہ ہے کہ روزانہ کئی افراد سڑکوں پر کچل کر مر رہے ہیں، صرف 4 دنوں میں مظفر نگر، گونا، سمستی پور، اور یاسے لے کر اناؤ اور ساگر تک 36 مزدور اب تک کچل کر ہلاک ہوچکے ہیں۔ حالیہ واقعہ اوریا کا بس حادثہ ہے، انسانیت کا جنازہ جاتے ہوئے قومی شاہراہوں پر دیکھا جاسکتا ہے، غربت وافلاس اور بے کسی کے ماروں کی یہ نقل مکانی تمام پیکیج کی بخیہ ادھیڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے میں مہاراشٹر سے 25 لاکھ مزدور یوپی اور بہار کی طرف کوچ کرچکے ہیں، اسی طرح 20 لاکھ سے زائد مزدور پنجاب ہریانہ، دہلی اور گجرات کو چھوڑ چکے ہیں۔ صرف 8 دنوں میں مہاراشٹر اور دہلی کی طرف سے آنے والی شاہراہوں پر ٹریفک 4 گنا بڑھ چکا ہے، مگر ان بھیڑ بکری جیسے محنت کشوں کے درد کا احساس کرتا کون ہے؟ پردھان منتری نے اپنے ’منگل سندیش‘ میں معیشت کو بہتر بنانے کیلئے خود پر بھروسہ، ایکونومی، انفراسٹریکچر، سسٹم اور ڈیمانڈ کا جو نسخہ دیا ہے، کیا یہ نسخہ بھوک کے ماحول میں کار آمد ہو سکتا ہے؟ یہ’ اپیدیش‘ تو صرف سننے میں اچھا لگتا ہے۔ ایم ایس ایم ای کے مطابق ساڑھے 3 لاکھ کروڑ روپے بینکوں کو دیئے جانے کا اعلان ہوا ہے، جو بغیر گارنٹی کے قرض فراہم کریں گے، کیا یہ ممکن ہے؟ یعنی نہ ’’نومن تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی‘‘۔ بھارت کی خستہ حالی کو دیکھ کر ورلڈ بینک نے سوشل پروٹیکشن پیکیج کے تحت بھارت کو 75 سو کروڑ کا راحت پیکیج دیا ہے، مگر ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ملک جو ایک طرف کورونا سے جنگ لڑ رہا ہے تو دوسری طرف معیشت کی ٹوٹی ہوئی کمر کو بھی سنبھالنے کوشش کر رہا ہے، ایسے عالم میں پردھان منتری کی دریا دلی بھی دیکھنے کے لائق ہے۔ پردھان منتری نے بلگیٹس سے مشورہ طلب کیا ہے کہ وہ بتائیں کہ دنیا کو فائدہ پہنچانے کیلئے بھارت کیسے بہتر طور پر کام کر سکتا ہے۔ حالانکہ ملک میں کورونا کے درمیان معیشت کی تباہی کا طوفان برپا ہے، اسے کنٹرول کرنے کے بجائے دنیا کو فلاح پہچانے کا طریقہ پوچھا جا رہا ہے، حالانکہ جتنی چادر ہو اتنا ہی پاؤں پھیلانا چاہیے۔ ملک کے 80 فیصد عوام تباہی سے دوچار ہیں، ان کے تحفظ میں ہی معیشت کا تحفظ ہے، کیونکہ معیشت کو صرف پیکیج سے ہی نہیں چلایا جا سکتا۔ آج ہرذی شعور یہی سوال کر رہا ہے، بقول شاعر:

پلٹ کے آئیں گے پھر عیش کے زمانے کیا؟
بھریں کے چین سے دولت کے آشیانے کیا؟
گھروں کو بھاگ رہے ہیں لٹے پٹے مزدور ؟
امیر خود ہی چلائیں گے کارخانے کیا ؟

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close