Khabar Mantra
محاسبہ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک…..

محاسبہ...........................سید فیصل علی

کل ہندوئوں کے 46نامی گرامی سنتوں، مہنتوں اور مٹھادیشوں نے حکومت کو الٹی میٹم دیا ہے کہ 31جنوری سے قبل ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا کام شروع نہیں ہوا تو ہندوئوں سے اپیل کی جائے گی کہ وہ بی جے پی کو ووٹ نہ دیں۔ سنتوں نے اس کے لئے براہ راست مودی کو تاخیر کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون بنائیں اور مندر نرمان کی راہیں ہموار کریں۔ کیونکہ مندر معاملہ میں ہم عدالت پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔

سنتوں کا یہ الٹی میٹم اس وقت میں دیا گیا ہے جب ایک سیکولر اقدار کا علم بردار با اصول، با ضمیر، با کردار و وضع دار شخصیت کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنے ہوئے صرف دو دن ہوئے ہیں، جہاں انہوں نے پہلے ہی دن اپنے تیور اور اپنے حوصلے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے ’’ہاں میں سخت ہوں، جیسا ہوں ویسا ہوں، مجھے کوئی بدل نہیں سکتا۔‘‘ ظاہر ہے چیف جسٹس کا یہ جملہ ملک کے کمزور سیکولر اقدار کی رگوں میں امید اور توانائی فراہم کرتا ہے تو فسطائی فکر رکھنے والوں کو لرزہ بر اندام بھی کرتا ہے۔ 5 اکتوبر کو وشو ہندوپریشد کی قیادت میں ملک کے نامور سادھوئوں اور سنتو ںکا جو اجلاس ہوا ،وہ اسی خوف کا منظر نامہ ہے، جہاں ہنس دیو آچاریہ، انوبھوتا نند، سابق مرکزی وزیر سوامی چنمیا نند وغیرہ نے دو ٹو ک کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ سے مایوسی ملی ہے، ہم عدالت پر بھروسہ نہیں کر سکتے چنانچہ حکومت قانون بنا کر مندر نرمان کاریہ آرمبھ کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو بی جے پی 2019کا الیکشن ہار سکتی ہے۔

اگر چہ ایودھیا میں مندر بنانے کا یہ الٹی میٹم باسی کڑھی میں ابال جیسا ہے۔ ہر الیکشن میں اسے پکایا جاتا ہے، لیکن اس بار جو باسی کڑھی میں ابال آیا ہے، اس کے تعفن کے کیا اثرات ہوں گے، اس پر مجھے بھی تشویش ہے۔ اس بار 2019میں رام مندر تعمیر سب سے بڑا ایشوہوگا۔ سیاست پر مذہبی جنون کا غلبہ ہوگا۔ جی ایس ٹی، نوٹ بندی، مہنگائی، بے روز گاری، کسانوں کی خودکشی، ملک میں بڑھتے عصمت دری کے واقعات تمام تر اہم ایشو کو پس پشت لے جائیں گے۔ ملک میں پہلے ہی سے ماب لنچنگ، بیف خوری، گائے وغیرہ کے نام پر خونی کھیل جاری ہے کہ اب رام مندر کے نام پر کتنے بکھیڑے ہوں گے، نفرت کی سیاست کتنی کینچلی بدلے گی، یہ سوچ کر ذہن پریشان ہوتا ہے۔ ہندوستان جہاں کی رواداری، انیکتا میں ایکتا کی دنیا مثالیں دیتی ہے، اب وہاں این آر سی کے نام پر آسام کے40 لاکھ لوگوں کو ملک بدر کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، وہ افسوس ناک ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ حکومت و انتظامیہ قابل بھروسہ نہیں ہے، لیکن اس سے فلاح کی توقع بھی نظر نہیں آتی۔ جس تیزی کے ساتھ ملک کی دیرینہ رواداری اور سیکولر اقدار کے رنگ روپ بدل رہے ہیں، اس سے ہر ذی شعور تشویش زدہ ہے کہ وہ کدھر جائے۔ آغاز ایسا بد نظر ہے تو انجام کیسا ستم گر ہو گا۔ ایسے ماحول میں جب ہم سپریم کورٹ کی طرف دیکھتے ہیں تو تمام تر خوف اور مایوسی کے باوجود ایک امید کی لہر رگوں میں ضرور دوڑ جاتی ہے کہ آج عدالت عظمیٰ کی سب سے بلند کرسی پر وہ شخص بیٹھا ہے، جو ہندوستانی سیکولزم اور عدلیہ کے وقار کے تحفظ کے لئے 8ماہ 22 دن قبل عوام کے سامنے آیا تھا اور اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف محاذ آرائی کی تھی اور بے لاگ کہا تھا کہ آج ملک کی سیکولزم اور جمہوریت کے ستون کو بچانے کی ضرورت ہے۔ 12 جنوری 2018 ہندوستان کا وہ تاریخی دن ہے، جب سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے ملک کے سیکولرزم کو خطرہ قرار دیا تھا اور عدلیہ کی شفافیت پر سوال اٹھایا تھا۔ ججوں کی اس پریس کانفرنس سے فسطائیت کو یقیناً ایک جھٹکا لگا ہو گا اور انہوں نے محسوس کیا ہو گا کہ اب ان کی دال نہیں گلنے والی۔

سیکولرزم اور عدلیہ کے وقار کو بچانے کی آوازکو اٹھانے والے رنجن گگوئی آج چیف جسٹس بن چکے ہیں چیف جسٹس بنتے ہی انہوں نے بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے کی عرضی کو خارج کر دیا ہے، جو چنائو سدھار کو لے کر تھی، اور دو ٹو ک کہا ہے کہ ڈسپلن اور قانون کے معاملہ میں میں بہت سخت ہوں اور ہم بدل نہیں سکتے۔ غالباً اسی ایک جملے نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ سپریم کورٹ الہ آباد ہائی کورٹ کی طرح پنچایت نہیں کرے گا بلکہ ثبوت و شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا۔ سنتوں کے الٹی میٹم سے حکومت بھی شش و پنج میں مبتلا ہے کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ وہ رام مندر کے تعلق سے قانون بھی نہیں بنا سکتی کہ راجیہ سبھا میں اس کے پاس اکثریت نہیںہے اور وہ آرڈیننس لانے میں بھی دقت محسوس کرے گی کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں 29 اکتوبر سے یومیہ سماعت ہونے والی ہے۔ چنانچہ سادھو سنتوں کے الٹی میٹم پر حکومت کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے یہ تو وقت بتائے گا لیکن سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کے تیور، ان کی حق پسندی سے سادھو سنتوں کو مایوسی بھی ہے۔

چیف جسٹس رنجن گگوئی ایک آدرش وادی، گاندھی وادی اور سنسکاری شخصیت کا نام ہے، جنہوں نے حلف لینے کے بعد سب سے پہلے اپنی ماں کے پائوں چُھوئے اور گاندھی جی کی سمادھی پر جا کر گلہائے عقیدت پیش کئے۔ یہ دونوں چیزیں ان کی تہذیبی اقدار و سنسکار اور گھریلو تربیت کو ظاہر کرتی ہیں حالانکہ رنجن گگوئی بڑے گھرانے کے سپوت ہیں۔ ان کے والد آسام کے وزیر اعلی تھے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ میری تربیت جس ماحول میں ہوئی ہے، اس کے تحت میں بے ایمانی اور ضمیر کا سودا نہیں کر سکتا۔ میرے بڑے بھائی تو ہمیشہ کھیل میں بھی بے ایمانی اور اصول شکنی نہ کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ شاید اسی ایمان داری اور اصول کی پابند ی کا نتیجہ ہے کہ رنجن گگوئی کے پاس اپنا ایک گھر بھی نہیں ہے، کوئی کار تک نہیں ہے، ان کی بیوی کے پاس محض 20تولے کے زیورات ہیں۔ والد کے حکم کی پاسداری میں رنجن گگوئی نے یو پی ایس سی کی تیاری کی اور اس کو کلیئر بھی کر لیا۔ انہوں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ کے حکم پر میں نے سول سروس کلیئر تو کر لیا ہے لیکن میری دلچسپی قانون میں ہے تاکہ میں مظلوم کو انصاف دلا سکوں۔ مظلوم کو انصاف دلانے کا جذبہ رکھنے والا یہ شخص آج ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سب سے بڑی کرسی پر براجمان ہے اور17 نومبر 2019 تک اس کرسی کو سمان دیتے رہیںگے۔ ان کے سامنے بے شک کئی چیلنجز ہوں گے۔ اہم ایشو وہ خو ددیکھیں گے، ایودھیا، این آر سی جیسے حساس معاملے انہی کے سامنے پیش ہو ں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فسطائی قوتوں کو سپریم کورٹ سے مایوسی ہے اور وہ حکومت کو کو الٹی میٹم دے رہی ہیں مندر بنائو، ورنہ ووٹ نہیں۔ بہرحال ،مندر بنانے کا الٹی میٹم دینے والوں کی نظریں اب حکومت کی طرف ہیں تو عدل و قانون پر بھروسہ کرنے والوں کی امیدیں سپریم کورٹ سے وابستہ ہیں۔ بقول غالب

دام ہر موج میں ہے حلقۂ صدکام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close