Khabar Mantra
محاسبہ

مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے

محاسبہ...........................سید فیصل علی

پارلیمانی انتخاب سے قبل جس میڈیا نے ملک میں مودی لہر کا طوفان اٹھانے میں جو رول ادا کیا تھا، فوج کے بجائے پلوامہ کا ہیرو مودی کو بناکر پیش کیا تھا، اسی میڈیا نے ورلڈکپ کے دوران مودی کو کرکٹ کے بازی گر کے طور پر پیش کیا۔ سیمی فائنل میں مودی کی کرشمائی شخصیت کے تحت خصوصی پروگرام پیش کیا ’کیا پردھان منتری ہندوستان کو ورلڈکپ دلائیں گے؟‘ سیمی فائنل سے صرف ایک دن قبل ایک بڑے ٹی وی چینل نے یہ دعویٰ کیا کہ ’جیتے گا تو انڈیاہی‘ کیونکہ مودی کا مقدر اتنا طاقت ور ہے کہ وہ ٹیم انڈیا کو ورلڈکپ دلا ہی دے گا۔ ٹی وی چینل کا دعویٰ تھا کہ آج مودی جی کا اقبال اتنا بلند ہے کہ ناممکن بھی ممکن ہو جاتا ہے اور ہرطرف نعرہ بن گیا ہے کہ’مودی ہے تو ممکن ہے‘، چنانچہ مودی کے دم سے ٹیم انڈیا ہرحال میں ورلڈکپ جیتے گی۔

جس میڈیا نے پلوامہ کا بدلہ لینے کے لئے بالاکوٹ اسٹرائیک کا کریڈٹ فوج کے بجائے سیدھے وزیراعظم کو دیا، اب اسی میڈیا کے ذریعہ ٹیم انڈیا کی جیت کا سہرا وزیراعظم کے سر پر باندھنے کی کوشش بھلے ہی چاپلوسی کی حدوں کو پار کر گئی ہو، مگر دنیا کی نظروں میں اس چاپلوسی نے ہندوستانی میڈیا کا کردار اور وزیراعظم کا وقار بھی مجروح کر دیا ہے۔ میڈیا کے اس گرتے ہوئے معیار نے ہرذی شعور کو زبردست جھٹکا بھی دیا ہے۔ ناظرین کی ایک بڑی تعداد ٹی وی پر اس طرح کے پروگراموں سے گریز کر رہی ہے۔ مگر اس کے باجود ٹی وی چینلوں کی بے شرمی میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے، وہ حسب دستور اندھ بھکتی کو فروغ دے کر ہندوتو کی ذہنیت کو خوراک پہنچا رہے ہیں۔ اندھ بھکتوں کو ایسے پروگراموں کے تحت چنڈوخانے کے گپ کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ ٹی وی پر اندھ بھکتی کے فروغ کے لئے طرح طرح کے کرتب دکھائے جا رہے ہیں، اگر ٹیم انڈیاجیت گئی ہوتی، ورلڈکپ حاصل کرلیا ہوتا تو یہی میڈیا مودی مودی کا طوفان کھڑا کر دیتا اور کہتا کہ دیکھا مودی نے ٹیم انڈیاکو جیت دلا دی۔

ٹی وی پر اب تو مدعوں کے بجائے اندھ بھکتی کے تماشے ہی نظر آ رہے ہیں۔ ہر روز بے تکے الم غلم بے سر اور پیر کے پروگرام دکھائے جا رہے ہیں، جس کا ایک ہی مقصد ہے کہ ملک کی ذہنیت کو ہندوتو کے نشے سے سرشار رکھا جائے اور اندھ بھکتی کے نشے کی آڑ میں ہر بنیادی مسائل کو پس پشت کیا جائے۔ کسی مدر سے میں اگر طمنچہ مل جائے تو پھر یہ مسئلہ قومی ایشو بن جاتا ہے۔ اناؤ میں مدرسے کے بچوں کی جے شری رام نہیں بولنے پر پٹائی ٹی وی کا موضوع بحث نہیں ہے۔ آج ٹی وی چینلوں کا مقصد صرف اندھ بھکتوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔ اندھ بھکتی کی انتہا ہے کہ اب ٹی وی پر سائیں دکھائے جا رہے ہیں، حالانکہ آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں فوٹوٹیگ کے ذریعہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانا کتنا آسان ہوگیا ہے، اس بحث سے قطع نظر ہمارے ٹی وی چینل ہندوستانی عوام کو اس حد تک بے وقوف سمجھ رہے ہیں کہ وہ جو پیش کریں گے عوام اسے پسند بھی کر لیں گے۔ ٹی وی چینل اسی سوچ کے تحت دھڑلے سے ایسے بے تکے پروگرام پیش کررہے ہیں، جنہیں دیکھ کر نہ صرف کوفت ہوتی ہے، بلکہ میڈیا کے گرتے معیار پر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تنزلی کا انجام کیا ہوگا؟ جمہوریت کا یہ چوتھا ستون کیا ملک کی جمہوریت کو ڈبو کر ہی دم لیگا؟

روبیکا لیاقت، شویتاسنگھ، انجنا اوم کشیپ، سدھیر چودھری، ارنب رائے وغیرہ کی چیخ پیکار، دھوم دھڑاکہ ہی کیا ہندوستانی میڈیا کی شناخت ہے؟ یا پرسکون ماحول، نرم دم لہجے میں سنجیدہ گفتگو اور سنجیدہ سوال میڈیا کا چہرہ ہونا چاہیے؟ یہ آج ہر ذی شعور کے آگے ایک بڑا سوال بن کر ابھر رہا ہے۔ ٹی وی پر ڈبیٹ ایسی ہوتی ہے، جیسے جنگ لڑی جا رہی ہو، اینکر خود پارٹی یا عدالت بن جاتا ہے۔ تین طلاق کے موضوع پر ایک مولوی کی درگت کا منظر بھی لوگوں نے دیکھا۔ کل دن بھر ٹی وی پر یوپی کے ایک برہمن ایم ایل اے کی بیٹی کی بھاگ کر کی گئی شادی کو لے کر ڈبیٹ چلتی رہی۔ ایک دلت لڑکے سے براہمن لڑکی کی شادی کو پورے ملک کا ایشو بنا دیا گیا، مگر آج کہیں بھی غریبی، مفلسی، بے روزگاری، خستہ حال معیشت، تعلیمی تفریق، پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی لوٹ، تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم کے موضوع پر ڈبیٹ نہیں ہو رہی ہے۔ آج بہار کے چمکی بخار پر کوئی کھوج خبر نہیں ہے، جبکہ مظفرپور میں آج بھی بچے چمکی بخار کا شکار ہو رہے ہیں۔

شاید آج کے میڈیا کو سنجیدہ مسائل اور ملک کے بنیادی ایشوز کی ضرورت نہیں، اسے صرف اور صرف ایسے فروعات اور خرافات کی تلاش ہے، جس سے ٹی وی پر نفرت کی غلاظت پھیلائی جا سکے، کسی نہ کسی طور پر ہندوتو کی رگوں میں توانائی لائی جا سکے۔ اب کسی دیوار پر سائیں کی تصویر دکھائی جا رہی ہے، مگر کسی کو شمالی ہند کے لوگوں کا خیال نہیں ہے، جہاں آسام، بہار، بنگال کے کئی اضلاع شدید سیلاب کی زد میں ہیں۔ بہار کے 11 اضلاع پورنیہ، کشن گنج، کٹیہار، کھگڑیا، سپول، سیتا مڑھی، مغربی ومشرقی چمپارن، مدھوبنی بدترین سیلاب کے نرغے میں ہیں، 15 سے زائد افراد سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں، پانی کا کرنٹ لیول ڈینجرلیول کو پار کر چکا ہے۔ خاص کر سیتامڑھی اور چمپارن کے علاقے تباہی کے دہانے پر ہیں۔ بیرگنیا سے چکوا، بہریروا کے مصیبت زدگان کے فون پر فون آ رہے ہیں، مصیبت سے بچانے کی اپیل کی جا رہی ہے، مگر ٹی وی پر اس صورتحال کو لے کر کوئی چرچا نہیں ہے، راحت کاری پر کوئی ڈبیٹ نہیں۔

اکیسویں صدی میں مریخ پر پرچم لہرا دیا گیا، ہندوستان چندریان 2 بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے، ہندوستان خلاء میں اپنی طاقت دکھانے والا دنیا کا چوتھا ملک بن رہا ہے، مگر ہمارے ٹی وی چینل ہمیں دور جہالت میں بھیجنے پر کمر بستہ ہیں۔ حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ ٹی وی پر اس طرح کے غلاظت بھرے اور خرافاتی پروگرام دھڑلے سے چلائے جا رہے ہیں، مگر وزارت اطلاعات ونشریات خاموش ہے۔ اس خاموشی سے بھی کہیں نہ کہیں ہندوتو کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اور یہی فروغ دور حاضر کی اقتدار وسیاست کی جان ہے۔ تعجب تو اس بات پر بھی ہے کہ ہندوتو کے فروغ کے لئے کئی مسلم ایکسپرٹ کے طور پر ٹی وی پر بلائے جاتے ہیں، اگر ان کی پڑتال کی جائے تو وہ جاہل مطلق ہوتے ہیں، ان کو نہ سبجیکٹ کا ہی علم ہوتا ہے اورنہ وہ سوالوں کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ٹی وی کے یہ مسلمان ہندوستانی مسلمانوں میں بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے، بہتوں کو میں پہچانتا ہوں جوکہ نہ تعلیم یافتہ ہیں، نہ سندیافتہ ہیں اور نہ باشعور، صرف ڈھائی ہزار روپلّی کی خاطر اسلام، شریعت اور ہندوستانی مسلمانوں کی پگڑی اچھالنے والوں کا مہرہ بن رہے ہیں اور ہندوتو کو توانائی پہنچاتے ہیں۔ مگر سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ جمہورت کے چوتھے ستون جس کا معیار دن بہ دن تنزلی کی طرف گامزن ہے، اس کے گرتے معیار کو روکنے کے لئے کون ساقدم اٹھایا جائے؟ جمہوریت کے چوتھے ستون کے تحفظ کے لئے کون سی تدبیر اختیار کی جائے؟ جس سے ہندوستانی میڈیا اور ہندوستانی جمہوریت کا چہرہ روشن ہو سکے، مگر کیا کیا جائے سیاست ہی الٹی چل رہی ہے، دور ہی عجب غضب ہے۔ بقول ڈاکٹرراحت اندوری:

نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close