Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

اسلام کا تشخص کے لئے مغرب میں جدوجہد

اسلام اور اس کے فروغ میں تجارت کا اہم رول رہا ہے۔ مسلم عرب تجّار بحری راستوں سے تجارتی سامان لے کر دنیا کے سفر پر نکلتے تھے۔ ساحلوں پر تجارت کرتے تھے۔ ہندوستان عربوں کے لئے ایک بہترین تجارتی مرکز تھا۔ چنانچہ ہندوستان میں اسلام کی روشنی عرب تاجروں کی وجہ سے پھیلی۔ ویسے بھی ہندوستان سدا سے ایک روادار اور امن پسند ملک رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر مسلمانوں کو قدم جمانے میں زیادہ دشواریاں پیش نہیں آئیں۔ صوفیاء کرام کے علم وفضل اور کردار وعمل نے بھی اسلام کا چراغ روشن کرنے میں بھی اہم رول ادا کیا۔ ہندوستان شروع سے ہی پوری دنیا کے لئے ایک مثالی ملک رہا ہے۔ یہاں کے کیرالہ کے دور قدیم سے ہی عربوں سے گہرے رشتے تھے۔ چیرامن کا راجہ پیرو مل نے شق القمر کا معجزہ ہندوستان میں دیکھا تھا اور اسی سے متاثر ہو کر وہ حضورؐ اکرم کا دیدار کرنے مکہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ پھر وہ مشرف بہ اسلام ہو کر واپس لوٹا تو راستے میں اس کی موت ہو گئی مگر اس کی وصیت پر اس کے جانشینوں نے کیرالہ میں مسجد کی تعمیر کرائی اور پھر تو برصغیر اسلام کی روشنی سے منور ہونے لگا۔غرض یہ کہ اسلام کے فروغ میں عرب سیاحوں، تاجروں نے دنیا کے ہر گوشے میں پہنچ کر جہاں اپنی معیشت و معاشرت کی جڑیں مضبوط کیں۔ وہیں، دین کے فروغ کو بھی اپنا فریضہ سمجھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج اسلام کا سورج مشرق سے مغرب تک اپنی روشنی بکھیر رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کل تک ایشیا اور مشرق وسطی افریقہ وغیرہ میں اسلام کی تابناکی دنیا کو متوجہ کر رہی تھی مگر آج کا منظر نامہ یہ ہے کہ اسلام اور اس کے پیغامات مغرب کو حد درجہ متاثر کر رہے ہیں۔ خاص کر یوروپ اور امریکہ میں جس تیزی کے ساتھ اسلام کا فروغ ہو رہا ہے اور یہ اجاگر ہو رہا ہے کہ اسلام اب تعلیم و ترقی یافتہ طبقے کو تحقیق و دلائل کی روشنی میں اپنی شناخت پیش کر رہا ہے اور اپنی افادیت اور عظمت سے اسلام اور اسلامی معاشرہ مغربی تہذیب کو متاثر کر رہا ہے۔ زیر نظر مضمون ایک طرح سے 6 ویں صدی سے لے کر تاحال یعنی مشرق کے ابتدائی دور سے لے کر حال کے مغربی ممالک میں اسلام کے فروغ اور اسلامی تاریخ کی جھلکیاں پیش کر رہا ہے اور ہمیں درس دے رہا ہے کہ کس طرح اسلام نے دنیا میں اپنی عظمت و رفعت کا پرچم بلند کرکے کس طرح مغرب کے اہل دانش کو اسلامی شعور و فکر اور پیغامات سے متاثر کیا اور کس طرح مسلمانوں نے دنیا میں اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے ساتھ دین کو بھی سر بلند کیا۔ مسلمانوں کی اسی جد و جہد کا نتیجہ ہے کہ امریکہ میں اسلام کی جڑیں تیزی سے مستحکم ہوتی جا رہی ہیں اور دوسرے براعظموں کی بہ نسبت امریکہ میں اسلام اپنے فروغ اور خدمات کے کمال پر ہے:

اسلام کے ظہور پذیر ہونے کے بعد سے ہی اسلام کو نہ صرف عرب ممالک میں ہی فروغ ملنا شروع ہو گیا تھا بلکہ غیر ممالک کے بہت سے علاقے اس کی آگوش میں آگئے تھے۔ مشرق وسطیٰ کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی تاجروں اور سیاحوں نے اسلام کو فروغ دینے میں اپنی خدمات پیش کی تھیں، جن کی مذہبی تبلیغ سے دیگر مذاہب کے مقلدین کثیر تعداد میں مشرف بہ اسلام ہونے لگے تھے۔ یہاں تک کہ 629 عیسوی میں پیغمبر اسلامؐ کے ایک صحابی جب تجارت کی غرض سے اپنے ایک ساتھی اور اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ ہندوستان کی ریاست کیرالہ میں آئے تھے تو اس وقت چیرامن پیرومل وہاں کے راجہ تھے۔ انہوں نے اپنے محل کی چھت سے شق قمر کا منظر دیکھا تھا اور اپنے دربار کے پنڈتوں سے معلوم کیا تھا کہ انہوں نے شق قمر کا منظر (جس کا ذکر قرآن کریم میں درج ہے) بذات خود دیکھا تھا۔ یہ کیا ماجرہ ہے؟ پنڈتوں نے حساب کتاب لگا کر بتایا کہ ”عرب دیش میں ایک اوتار ہوا ہے اسی کا کرشمہ ہے“ جب پیغمبر اسلام ؐ کے ایک صحابی ملک دینار تجارت کرنے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے پیرو مل کے دربار میں پہنچے تو انہوں نے یہی سوال ملک دینا رسے پوچھا تھا۔ ملک دینار نے بتایا کہ عرب میں پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کا یہ معجزہ تھا۔ اس کے بعد پیرو مل عرب کے لئے روانہ وہ گئے تھے اور حضور پاک ؐکا شرف حاصل کرنے کے بعد مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔ راجہ کی اجازت سے ملک دینار کو نہ صرف تجارت کی اجازت مل گئی تھی بلکہ انہوں نے کیرالہ میں ہندوستان کی اولین مسجد تعمیر کرائی تھی، جسے انہوں نے ’چیرامن جامع مسجد‘ کے نام سے منسوب کیا تھا جوکہ آج بھی ہندوستان کی اولین مسجد کے طور پر معروف ہے۔

اسی طرح دیگر ممالک میں بھی تاجروں اور سیاحوں نے اسلام کی تبلیغ کی تھی۔ افریقہ ممالک کے مختلف علاقوں میں لوگوں نے اسلام کو فروغ دینے میں کارہائے نمایاں انجام دیئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب امریکہ نے افریقہ کے باشندوں کو اپنا غلام بنایا ہوا تھا۔ غلامی کی زندگی کے دوران ہی اسلام نے انہیں مساوات کا درس دیا تھا۔ ابھی حال ہی میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ شمالی امریکہ میں سیاحت کرنے والے بہت سے سیاحوں کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ وہاں پر زندگی گزارنے والے ان کے آباو اجداد کا تعلق ہندوستانی قبیلوں سے بھی تھا۔ امریکہ میں غلامی کی زندگی گزارنے والے افریقہ کے باشندے جب اسلام قبول کر لیتے تھے تو ان پر اور زیادہ مظالم ڈھائے جاتے تھے لیکن اب صورتحال یکسر بدل گئی ہے۔

اس وقت اسلام امریکہ میں تیزی کے ساتھ فروغ حاصل کرنے والا مذہب بن گیا ہے۔ ایک ایسا بھی وقت آیا تھا جب اسلام میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہو گیا تھا لیکن اس کے پس پشت بھی ایک دلچسپ رو داد ہے جب الیکس ہیلے (Alex Helay) نے روٹ (Root) کے عنوان سے رپورٹ شائع کی اور پرائم ٹائم میں قسط وار ایک ڈاکو مینٹری ٹیلی ویژن پر ایک ہفتہ تک 70 کی دہائی میں نشر کی تھی تو اس کی وجہ سے اسلام کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے میں امریکی باشندوں میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔

امریکہ کے اولین سیاہ فام صدر براک اوبامہ جوکہ بنیادی طور پر مسلمان ہیں۔ انہوں نے اپنے دور صدارت میں مسلمانوں اور اسلام کو مقامی طور پر اور بین الاقوامی سطح پر میڈیا سے رو برو کرایا تھا۔ ہیلے نے اپنی تخلیق ’روٹ‘ میں اپنے جد امجد کنتا کنتے (Kunta Kinte) کے بارے میں ذکر کیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ کنتا کنتے کو 1767 میں پکڑ کر انہیں غلام بنا دیا گیا تھا جوکہ 1750 میں ہی مسلمان ہو گئے تھے۔ اس وقت وہ گامبیا کے گاؤں جو فرے (Juffure) میں رہائش پذیر تھے۔ وہاں سے انہیں لارڈ لگو نیئر (Lord Liggonier) نام کے بحری جہاز سے لنّا پولس میری لینڈ لایا گیا تھا اور پھر انہیں ورجینیا (Virginia) کے ایک کاشت کار کو فروخت کر دیا گیا تھا۔ وہاں پر انہیں اپنی اسلامی وراثت کے تحفظ کے لئے زبردست جد و جہد کرنی پڑی تھی۔ کولمبس (Columbus) سے قبل کی جانکاری اور غلامی کے رواج کی جانکاری کا احاطہ کرتے ہوئے جب امیر محمد (Amir Mohammad) نے ایک مضمون مرتب کرکے اسے America.org پر پوسٹ کیا تو لوگوں نے اس کا مطالعہ کرنے میں بہت دلچسپی دکھائی تھی۔ 11000- الفاظ پر مبنی یہ ایک طویل مضمون تھا۔ اس کے کچھ اقتباسات مختصر طور پر قارئین کی جانکاری کے لئے درج کئے جا رہے ہیں۔

1768 میں ایک مسلمان جس کا نام چارنو (Charno) تھا، جوکہ ساؤتھ کیرولینا میں رہائش پذیر تھا۔ اس نے قرآن کریم کی چارسورۃ تحریر کی تھیں اور اس وقت وہ کپتان ڈیوڈ اینڈرسن (Captain David Anderson) کا غلام تھا۔ کم از کم 9 ایسے مختلف لوگوں کے بارے میں رپورٹ ملی تھی کہ اس زمانے میں انہوں نے عربی رسم الخط میں عبارتیں تحریر کی تھیں۔ 1769میں ساوننا جارجیا گزٹ نے تین مسلم خواتین جن کا نام جمینا (Jamina)، بلندا (Blinda) اور ہاگر (Hagor) تھا کے گینیا (Guinia) سے فرار ہونے کے بارے میں اشتہار دیا گیا تھا۔ 1774 سے 1775 تک فرار ہونے والے مسلم غلاموں کے بارے میں اشتہارات شائع ہوتے رہے تھے۔ ساواناہ جارجیا گزٹ میں جس طرح سے مسلم غلاموں کے فرار ہونے کے بارے میں اشتہارات شائع ہوتے رہے تھے اسی دوران 7ستمبر 1774 کو ایک نیگرو (سیاہ فام) فرار ہو گیا تھا، جس کا نام محمد تھا اور وہ اپنے عقیدہ پر مستقل طور پر قائم رہا تھا۔

ڈاکٹر بیری فیل (Dr.Berry Fell) نے اپنی کتاب ساگا امریکہ (Saga America) میں تحریر کیا ہے کہ جنوب مغربی پیما (Pima) کے باشندوں کے پاس الفاظ کا ایک ایسا خزینہ موجود تھا، جو بنیادی طور پر عربی زبان سے ماخوذ تھا۔ اس کتاب سے ہمیں اس بات کی بھی جانکاری ملتی ہے کہ اینو کاؤنٹی، کیلیفورنیا میں ایسی قدیم چٹان موجود ہے جس پر عربی میں عیسیٰ ابن مریم کنندہ ہے۔ فیل (Fell) نے نیوادہ (Navoda)، کولوریڈو (Colorado)، نیو میکسکو (New Maxico) اور انڈیانا (Indiana) کے مسلم اسکولوں کو بھی دریافت کیا تھا جن کو 700-800 عیسوی سے منسوب کیا جاتا ہے۔

کولمبس نے 1492 میں جب اپنے اولین بحری سفر کی مہم شروع کی تھی تو اس کے کپتان بنیادی طور پر مسلمان تھے، جن میں سے ایک کا نام مارٹن الون سوپن زون (Martin Alonso Pinzon) تھا جوکہ بحری جہاز پنٹا (Pinta) کا کپتان تھا اور اس کا بھائی وینسینٹے یانیکس پن زون (Vicente Yanex Pizon) تھا جو کہ نینا (Nina) کا کپتان تھا۔ وہ دونوں جہاز رانی کے ماہرین تھے جنہوں نے کولمبس کے بحری سفر کی مہم میں بیش بہا تعاون دیا تھا اور فلیگ شپ (Flag Ship) سینٹا میریا کی مرمت بھی انجام دی تھی۔ پن زون کے اہل خانہ کو آزاد کرکے مراقش کے سلطان ابو زیان محمد سوئم جن کا تعلق المرینہ سلسلہ سلاطین (1196-1465) سے تھا، انہیں سونپ دیا گیا تھا۔ کولمبس نے 21 اکتوبر 1492 میں اپنے دستاویزات میں لکھا تھا کہ جب ان کا بحری جہاز کیوبا (Cuba) کے شمال مشرقی ساحل سے گزر رہا تھا تو اس نے گبارا (Gibara) کے نزدیک ایک خوبصورت پہاڑ پر ایک مسجد دیکھی تھی اور مسجد کے کھنڈرات اور اس کی میناروں پر قرآن کریم کی آیات نقش تھیں۔ میکسکو، ٹیکساس اور نیو ادا میں اسی طرح کے مناظر تھے۔ 1527 عیسوی میں اسپین کے دریافت کارپن فِلک ڈی نرویز (Panflie De Narvaez) نے اسپین سے امریکہ تک کا بحری سفر کیا تھا۔ اس کے پانچ جہازوں میں 600 افراد سوار تھے۔ اس بحری سفر میں اس کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے کئی جہاز طوفان سے تباہ ہو گئے تھے اور ہندوستانیوں کا ایک گروپ بھی ہلاک ہو گیا تھا لیکن اس کے گروپ کے چند لوگ سلامت رہے تھے۔ اس کے بعد نرویز کے سابق خزانچی کا کیبزاڈی واکا (Cabeza de Vaca) نے گروپ کے باقی ممبران کی لیڈرشپ سنبھال لی تھی جن میں ایسٹے وانیکو (Estevanico)بھی شامل تھا۔

ایسٹے وانیکو ایک مسلم عرب نیگرو تھا جو کہ ازامور (Azamore) سے مراقش کے بحراوقیانوس کے ساحل پر آیا تھا۔ وہ دونوں لوگوں کے درمیان ایسا اولین شخص تھا جوکہ میکسکو کے مغربی ساحل تک پہنچ گیا تھا، جہاں سے اس نے خشکی کے راستے سے فلوریڈا سے بحرالکاہل کے ساحل سے اپنی مہم شروع کی تھی۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ ایسنٹے وانیکو نے ایک گائڈ کے طور پر اپنی خدمات انجام دی تھیں اور انہیں میکسکو شہر تک پہنچنے میں 9 ماہ لگ گئے تھے۔ 1538 میں ایسنٹے وانیکو نے فرائر مارکو (Friar Marco) کے ہمراہ سبولیا (Cibolia) کے سات افسانوی شہر تلاش کرنے کے لئے ایک پرخطر مہم شروع کی تھی اسی دوران اس نے ایریزونا (Arizona) اور نیو میکسکو کو دریافت کیا تھا۔ وہ مختلف نسل کا اولین رکن تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نارتھ میکسکن پیو بلوس (North Mexican Pueblos) میں گیا تھا۔

1654عیسوی میں انگریز دریافت کاروں (Explorers) نے یہ انکشاف کیا تھا کہ ایک کالونی میں انہوں نے باریش ’موروں‘ (Moors) کو یوروپی لباس زیب تن کئے ہوئے دیکھا تھا۔ کان کنی اور چاندی پگھلانے والے یہ لوگ کیبنوں (Cabins) میں رہتے تھے اور پہاڑیوں کے درمیان نماز ادا کرتے تھے۔ ان پہاڑوں کی جگہ پر اب شمالی کیرولینا (North Carolina) ہے۔ ایسی رپورٹ بھی ملی ہیں کہ 1684 میں ’مور‘، ڈوور(Dover) کے نزدیک ڈیلا ویئر (Delaware) اور برج ٹن (Bridgeton) کے نزدیک جنوبی نیوجرسی میں پہنچ گئے تھے۔ اس وقت متحدہ ہائے امریکہ میں مقامات، مواضعات، سڑکوں، قصبوں، شہروں، جھیلوں (تالابوں) اور دریاؤں کے ایسے 500 سے زائد نام ہیں جو کہ عربی زبان سے اخذ کئے گئے ہیں۔ 1730 میں ایوب المعروف جاب (Job) سلیمان ڈیالو جوکہ اعلی تعلیم یافتہ مسلم تاجر تھا اس کا اغوا کر لیا گیا تھا اور 1730 سے 1733 تک اسے غلام بنایا گیا تھا وہ سینیگل (Senegal)کے بندو (Bindu) سے آئے تھے لیکن انہیں گامبیا میں پکڑ لیا گیا تھا۔

جنوبی کیرو لینا (South Carolina) کے ریکارڈ کے مطابق 3مارچ 1753 میں مسلمان شمالی افریقہ آئے تھے۔ جنوبی کیرو لینا کونسل جرنل نمبر 21، باب اول، صفحہ 298-299 پر درج ہے کہ دو لوگوں نے جن کا نام ایبل کو نڈر (Abel Conder) اور محمد (Mohomet) تھا، نے اپنے واسطے عربی زبان کی آزادی کے لئے جنوبی کیرو لینا رائل اتھارٹی میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ وہ اسیلاہ (Asilah) سے مراقش کے بار بیری ساحل پر آئے تھے۔ اس کی روداد یہ ہے کہ 1736 میں وہ پر تگالیوں کے ساتھ جنگ کرنے میں مصروف تھے اور جب ان کو شکست ہو گئی تو انہیں پکڑ لیا گیا تھا۔ ایک افسر جس کا نام ہینری ڈوبرب (Henry Daubrib) تھا، اس نے ان سے معلوم کیا تھا کہ کیا وہ کیرولینا میں پانچ سال تک ان کی خدمات انجام دینا پسند کریں گے۔ جب وہ جنوبی کیرولینا پہنچ گئے تو وہاں سے انہیں ڈینیل لاروچ (Daniel La Roche) منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس طرح 1753 تک اس نے انہیں 15 سال تک غلام بنائے رکھا تھا۔

1790 میں جوزف بینین ہالے (Joseph Benenhalay) المعروف یوسف بن علی جن کا تعلق شمالی افریقہ سے تھا انہیں سمٹر کاؤنٹی (Sumter County) کی مردم شماری میں شامل کیا گیا تھا۔ جنرل تھامس سٹمر نے بینین ہالے کو ایک عرب نژاد شخص کے طور پر شامل کیا گیا تھا ایک دیگر شخص جان اسکاٹ نے ان کے ہمراہ امریکہ کی انقلابی تحریک میں حصہ لیا تھا۔ شورش ختم ہونے کے بعد سٹمر انہیں اسٹیٹ برگ کے نزدیک اندرون ملک لے گیا تھا، جہاں پر اس نے رہائش اختیار کرلی تھی۔ اس کی نسل نو سٹمر کاؤنٹی میں ترک افراد کے طور پر معروف ہو گئے تھے۔ چنانچہ مختلف مرحلوں سے گزرنے کے بعد یہ افریقی نژاد افراد جنہیں سیاہ فام ہونے کی وجہ سے غلام بناکر رکھا جاتا تھا، آخر کار وہ امریکہ کے باشندے ہو گئے تھے۔ اسی لئے وہ امریکہ کے قدیم ترین مسلمانوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔

آج بھی ان قدیم امریکہ مسلمانوں کے ورثاء یہاں آباد ہیں جوکہ سرگرمی کے ساتھ اسلام کی تبلیغ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ویسے بھی امریکہ میں لوگوں کے مشرف بہ اسلام ہونے کا سلسلہ دراز ہو گیا ہے۔ اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے والے لوگوں میں امریکہ کی مشاہیر شخصیات بھی شامل ہیں۔ تاہم ان ابتدائی امریکہ مسلمانوں نے زبردست پریشانیاں برداشت کرتے ہوئے اسلام کو فروغ دیا تھا، ان کا جذبہ توحید نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close