Khabar Mantra
محاسبہ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

محاسبہ...........................سید فیصل علی

پارلیمانی انتخابات کے دوران ’’چوکیدار‘‘ سب سے بڑا نعرہ بن چکا ہے۔ بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈران مرکزی وزراء سے لے کر شہر بلاک کے صدور تک سبھی اپنے نام کے آگے ’’میں ہوں چوکیدار‘‘ کا لقب لگا کر ملک کے تئیں اپنی خدمات کا ڈمرو بجا رہے ہیں۔ راجناتھ سنگھ نے ملک کے سب سے بڑے چوکیدار کی حمایت کرتے ہوئے نیا نعرہ دیا ہے ’’چوکیدار پیور ہے ستّا میں آنا شیور ہے‘‘ جبکہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے چوکیدار چور ہے کا نعرہ کو اپنی انتخابی مہم کا سب سے بڑا حصہ بنا دیا ہے۔ انہوں نے چوکیدار چور ہے کا نعرہ لگا کر براہ راست پی ایم مودی کو نشانہ پر لیا ہے۔ اتنا ہی نہیں وہ انتخابی جلسوں میں ہزاروں سامعین سے چوکیدار چور ہے کی تائید بھی کرا رہے ہیں۔ رافیل گھپلہ، مالیہ، نیرو مودی، چوکسی وغیرہ کے ذریعہ گھپلوں کے ذریعہ وہ سیدھے وزیراعظم کو گھیر رہے ہیں۔ اپنے وزیراعظم کو گھرا دیکھ کر اب مریدان مودی کی ایک بڑی تعداد ملک کا چوکیدار بن چکی ہے اور ستم سیاست یہ ہے کہ چوکیداروں کی جتنی تعداد بڑھ رہی ہے اتنے ہی گھپلوں کا پردہ فاش ہو رہا ہے۔ کانگریس نے چوکیدار بننے والے کئی بڑے لیڈروں کی قلعی کھول دی ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی ہی پارٹی کے سینئر لیڈر کرناٹک کے سابق وزیراعلی یدی یروپا سے 15سو کروڑ روپے لے کر ان کی بدعنوانیوں پر پردہ ڈالا ہے۔

پارلیمانی الیکشن میں چوکیدار والا یہ نعرہ کتنا کارگر ہو گا یہ تو وقت بتائے گا لیکن اتنا ضرور ہے کہ راہل گاندھی نے ملک کے چوکیدار کو کٹہرے پر کھڑا کر دیا ہے اور یہ بات دیگر ہے کہ ملک کا چوکیدار انتخابی جلسوں میں اپنی صفائی پیش کرنے کے بجائے دیش بھکتی اور ایئر اسٹرائک کا کریڈٹ لیتے ہوئے عوام سے کہہ رہا ہے کہ آپ کو مجھ جیسا مضبوط فیصلہ کرنے والا وزیراعظم چاہیے یا کمزور سرکار؟ گویا مودی کو بھی احساس ہے کہ کہیں بازی پلٹ نہ جائے۔

چوکیدار دوبارہ آئے گا یا نہیں اس پر ملک بھر میں سیاسی منتھن جاری ہے۔ دانشوروں کی منڈلی میں اٹکلیں لگائی جا رہی ہیں۔ ٹی وی چینلوں کے جتنے بھی سروے آئے ہیں۔ ان سب میں یہی رجحان ملتا ہے کہ 2019 کے پارلیمانی الیکشن میں 2014 کا منظرنامہ نہیں ہوگا۔ اپوزیشن کا گٹھ بندھن بی جے پی کی دہلی کی طرف بڑھتے قدموں کو یوپی، بہار میں ہی روک دے گا۔ پارلیمنٹ میں نہ تو کانگریس کی اکثریت ہوگی نہ ہی بی جے پی حکومت سازی کے لائق ہوگی۔ معلق پارلیمنٹ میں گٹھ بندھن میں شامل جماعتوں کا بول بالا ہوگا۔ وہ بادشاہ گر بن کر ابھریں گی۔ چنانچہ حکومت سازی کے لئے جوڑ توڑ، خرید وفروخت، لین دین، مول بھاؤ کا بازار گرم ہو گا اور جس کی تجوری جتنی بھاری ہوگی وہی سکندر بنے گا ۔ملک کی دو بڑی جماعتیں بی جے پی اور کانگریس دونوں اچھی طرح آنے والے دور کا اندازہ لگا رہی ہیں۔ دونوں جماعتیں گٹھ بندھن کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ دہلی کو فتح کرنے کے لئے طرح طرح سے سیاسی بساط بچھا رہی ہیں۔

پانچ سالہ دور اقتدار میں گوکہ حکومت ہر سطح پر ناکام رہی ہے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، بے روزگاری، کسانوں کی خودکشی، ماب لنچنگ، دلتوں پر مظالم جیسے مناظر تو ابھرے تو ملک کی ترقیاتی گروتھ بھی زوال پذیر ہوئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب بی جے پی کے پاس جذباتی ایشو کے سوا کوئی ایشو نہیں ہے۔ بابری مسجدکے معاملہ میں اب ثالثوں کی مدد لی جا رہی ہے۔ رام جنم بھومی پر فلم ریلیز ہو چکی ہے۔ یہ فلم ملک کے عوام کے ذہنوں کو بنیادی مسائل سے ہٹانے کے لئے بنائی گئی ہے۔ اس کے اثرات بھی الیکشن پر پڑ سکتے ہیں لیکن افسوس تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن بھی اس معاملہ میں خاموش ہے اور عدالت نے بھی اس فلم کی نمائش پر پابندی لگانے سے اپنا دامن بچا لیا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا بی جے پی ایئرفورس اسٹرائک کا فائدہ اٹھا سکے گی۔ کیا پارلیمانی انتخاب میں دیش بھکتی اور راشٹرواد کا نعرہ ’چوکیدار چورہے‘ کے نعرے پر حاوی ہو جائے گا اور تمام ایشوز کو پس پشت کر دے گا۔

راہل گاندھی نے وقت کے تیور کو بھانپ لیا ہے کہ آج ملک میں سب سے زیادہ پریشان متوسط اور غریب طبقہ ہے چنانچہ انہوں نے مودی کی دیش بھکتی اور راشٹرواد کا جواب غریبوں کا ہاتھ تھام کر دیا ہے۔ انہوں نے دنیا کے سب سے بڑے کم از کم آمدنی گارنٹی منصوبہ ’نیائے‘ کا اعلان کرکے ہندوتو کے علمبرداروں کو چونکا دیا ہے اور عوام کا رخ سماجی اور اقتصادی مسئلہ کی طرف موڑ دیا ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی نے اعلان کیا ہے کہ اگر ان کی سرکار بنی تو ملک کے سب سے غریب 20 فیصد خاندانوں کو 72 ہزار روپے سالانہ مدد کی جائے گی۔ یہ رقم سیدھے ان کے اکائونٹ میں جمع ہوگی۔ اس منصوبہ سے ملک کے 25کروڑ انتہائی غریب افراد مستفید ہوں گے۔ گوکہ غریبوں کے لئے 6 ہزار ماہانہ کا اعلان بی جے پی کے ذریعہ کسانوں کو 6 ہزار سالانہ کا جواب سمجھا جا رہا ہے۔ راہل کے اس قدم سے بی جے پی کے ایوان اقتدار و سیاست میں ہلچل مچی ہوئی ہے بی جے پی چیخ و پکار کر رہی ہے کہ آخر یہ رقم کہاں سے آئے گی؟ کیا ملک پر کوئی نیا ٹیکس لگے گا؟ نیتی آیوگ بھی بی جے پی کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے۔ راہل گاندھی نے ’نیائے‘ منصوبہ کو غریبی پر سرجیکل اسٹرائک قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ملک کے چند لوگوں کی ترقی کے لئے ساڑھے تین لاکھ کروڑ روپے خرچ کئے جا سکتے ہیں تو غریبوں کے لئے کیوں نہیں کئے جا سکتے۔ راہل گاندھی نے باقاعدہ اس منصوبہ کا بلیو پرنٹ بھی بنا لیا ہے۔ امکان ہے کہ نیائے منصوبہ پر 3 لاکھ 60 ہزار کروڑ روپے کا صرفہ آئے گا،جو قومی بجٹ کا 13فیصد ہے اور جی ڈی پی کا 2 فیصد ہے۔ ریزروبینک کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے بھی نیائے منصوبہ کو غریبی مٹانے والا منصوبہ قرار دیا ہے۔

ہمارے ملک میں حکومت، سیاست اور دولت کی عجب تگڑی رہی ہے تمام سرکاریں ٹیکس کے نام پر نوکری پیشہ افراد اور متوسط طبقہ کا ہی لہو نچوڑتی رہی ہیں اور امیروں پر مہربان رہی ہیں کیونکہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستان کا ’’سپر رچ طبقہ‘‘ اپنی آمدنی سے بہت کم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ جبکہ دنیا کے بڑے ملکوں میں اضافی ٹیکس کے لئے غریبوں کی جیب نہیں خالی کرائی جاتی بلکہ امیروں پر زائد ٹیکس لگا کر فلاحی منصوبہ چلائے جاتے ہیں۔ فرانس، برازیل، امریکہ، جرمنی سمیت بیس ممالک میں غریبوں کی کم از کم آمدنی کا تجربہ ہوتا رہا ہے۔ ان ملکوں کے منصوبہ اور تجربے ہمارے کام آ سکتے ہیں۔

چنانچہ غریبوں کی آمدنی کی گارنٹی دینے کے راہل کے اعلان سے کارپوریٹ گھرانوں سے لے کر بی جے پی تک میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اگر اس منصوبے کے تحت ملک کے ایک فیصد سپر امیروں پر نیا ٹیکس لگتا ہے تو غریبوں کی فلاح کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ جن سپر امیر گھرانوں کی دولت سے سیاست کا نظام چل رہا ہو کیا وہ اس منصوبے کو کامیاب ہو نے دے گا؟ دولت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے دولت ہمیشہ سیاست پر حاوی رہی ہے۔ نیائے منصوبہ بلاشبہ ایک تاریخ ساز قدم ہے لیکن یہ تاریخ ساز قدم اس وقت تک منزل پر پہنچیں گے جب ملک کی اقتدار و سیاست میں تبدیلی آئے گی۔ فی الحال دیکھنا یہ ہے کہ غریبوں کو آمدنی کی گارنٹی دینے والے اس منصوبہ کا پارلیمانی الیکشن پر کتنا اثر ہوتا ہے یا عوام اسے محض چناوی وعدہ سمجھ کر دیش بھکتی کی لہروں میں بہہ جاتے ہیں اور اپنے بنیادی مسائل نظر انداز کر دیتے ہیں اور چوکیدار پھر نئے تام جھام کے ساتھ برسر اقتدار آتا ہے۔ بقول غالب ؔ

دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close