Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

بوسٹن میں دین کی خدمت

یوں تو مسلمان دنیا کے جس خطہ میں گئے وہاں انہوں نے اپنی اسلامی تہذیب، تشخص اور معاشرے کا خاص دھیان رکھا۔ ذریعہ معاش کے لئے جد و جہد کرتے ہوئے انہوں نے دین کی خدمت کے لئے بھی وقت لگایا۔ وہ جس خطہ میں گئے دینی مدارس، مکاتب، مسجدوں کی تعمیر کو آگے بڑھایا اور آج نتیجہ یہ ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں دینی مکتبوں اسلامک سینٹروں کو چھوڑ کر تقریباً 98لاکھ مسجدیں موجود ہیں اور اس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم امریکہ کو لاکھ اسلام دشمن کہیں مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں مسلمانوں کے دینی کام میں کبھی بھی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ بلاشبہ امریکہ میں دین کی سب سے زیادہ خدمت ہو رہی ہے۔ بڑے بڑے ڈاکٹر، انجینئر و مذہبی قائدین نے تمام مسلکی تفریق کے باوجود اپنے اپنے طور پر دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ امریکہ کا روشن منظر نامہ ہے کہ وہاں اسلامک سینٹر اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے جتنی تنظیمیں وجود میں آئی ہیں انہوں نے مسلمان بچوں کی جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ دین کی تعلیم بھی ان کی رگوں میں پیوست کر رہے ہیں۔ امریکہ میں بے شمار اسلامک سینٹر ہیں جن کے ذریعہ مسلمانوں کی فلاح کی راہیں نکالی جاتی ہیں اور دین کی خدمت کو انجام دیا جاتا ہے۔ بوسٹن میں واقع اسلامک سوسائٹی آف بوسٹن کلچرل سینٹر آئی سی سی اس کی شاندار مثال ہے، جہاں دین کی خدمت کی راہیں نکالی جا رہی ہیں ساتھ ہی ساتھ مسجدوں کے قیام کا بھی سلسلہ جاری ہے آئی سی سی میں قائم راکسبری مسجد کا دس سال قبل افتتاح ہوا تھا اور یہ افتتاح کسی بڑے مسلم قائد، مذہبی رہنما نے نہیں کیا تھا بلکہ میساچوسیٹ کے عیسائی گورنر ڈیول پیٹرک نے کیا تھا اور اس تقریب میں بوسٹن کے میئر تھامس مینینو بھی موجود تھے۔ یہ امریکہ میں مذہبی رواداری کی بہترین مثال ہے۔ آئی سی سی میں قائم راکسبری مسجد کا نقشہ آئی سی سی بورڈ کے چیئر مین ڈاکٹر ولید فتائحی نے ایک سعودی آرکیٹکیٹ ڈاکٹر سامی انگوائی سے تیار کرایا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عبادت گاہیں خواہ کسی مذہب کی ہوں وہ ایک یادگار ہوتی ہیں اپنے مذہب کی شناخت ہوتی ہیں۔ گورنر ڈیول پیٹرک نے افتتاحی تقریب میں جہاں مسلمانوں کے اسلامی تشخص کی ستائش کی۔ وہیں، اس مسجد کے بارے میں یہ جملہ بھی ادا کیا تھا کہ ’یہ مسجد ایک شان دار مونومنٹ ہے‘۔ بلاشبہ امریکہ میں جو بھی مساجد تعمیر ہو رہی ہیں یا اسلامک سینٹر قائم کئے جا رہے ہیں وہ سبھی اسلامی تاریخ کی بنیاد بھی بن رہے ہیں۔ گورنر نے آئی سی سی کے ذریعہ دیگر مساجد کی تعمیر کی ستائش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ زیادہ تر مسجدیں قصبوں میں بنائی جاتی ہیں لیکن اب یہ مسجد بوسٹن میں بنائی گئی ہے، جہاں عبادات کے علاوہ دیگر تقریبات بھی منعقد کرنے کے لئے کمیونٹی سینٹر کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کا مقصد امریکی معاشرہ سے مسلمانوں کے روابط مضبوط کرنا ہے اور مسلمانوں کی تعلم وتربیت، شادی بیاہ و دیگر مقاصد کے لئے بھی یہاں الگ سے انتظام کیا گیا ہے جو ہندوستان کے تناظر میں حیران کن ہے۔ یہاں مسجدیں صرف نماز پڑھنے کے لئے ہوتی ہیں اس کے بعد مقفل کر دی جاتی ہیں لیکن امریکہ، یوروپ میں مساجد کا استعمال دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ ملت کی بہبود کی راہیں نکالنا بھی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں وہاں کے مسلمان خوش حالی کے دور سے گزر رہے ہیں ان کے اسلامی کردار اور حسن وسلوک سے امریکہ کی نئی نسل بھی متاثر ہو رہی ہے۔ قرآن کو پڑھ رہی ہے، سمجھ رہی ہے اور اسلام سے نزدیک ہو رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج امریکہ میں غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کر رہی ہے۔ زیر نظر مضمون آئی سی سی کے زیر اہتمام قائم کئے گئے راکسبری مسجد کی تعمیرات اور اس کے پروجیکٹ کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ کاش برصغیر میں بھی ایسا دینی ماحول بن جائے جو ملت کے بچوں کو عصری تعلیم کی طرف گامزن کرے اور دین کی مضبوط خدمت بھی انجام دے۔

ایک طویل انتظار کے بعد بوسٹن (Boston) میں واقع راکسبری کراسنگ (Roxburry Crossing) کے نزدیک 68,000 مربع فٹ رقبہ پر محیط اسلامک سوسائٹی آف بوسٹن کلچرل سینٹر (ICC) میں قائم راکسبری مسجد کا دس سال قبل میساچوسیٹ (Massachusett) کے گورنر ڈیول پیٹرک (Deval Patrick) نے افتتاح کیا تھا، جنہوں نے اپنے خطاب میں یہ جملہ بھی ادا کیا تھا کہ’’یہ ایک شاندار مونومینٹ ہے‘‘۔ اتفاق کی بات تو یہ بھی تھی کہ اس وقت بوسٹن کے میئر تھامس مینینو (Thomas M. Menino) بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ آئی سی سی بورڈ کے چیئر مین اور جدہ میں واقع انٹرنیشنل میڈیکل سینٹر کے سی ای او اور ڈاکٹر ولید فتائحی (walid Fetaihi) کے ذریعہ شروع کئے گئے منصوبہ کے تعمیری کام کا ڈیزائن سعودی آرکیٹیکٹ ڈاکٹر سامی انگوائی (Sangi Angwai) نے تیار کیا تھا۔ اس وقت مینیسوٹا ڈیموکریٹ کیتھ ایلسین (Keith Ellison)، امریکی کانگریس کے اولین مسلم رکن ڈاکٹر اوسامہ قندیل (Dr.Osama Kandeel) کے علاوہ سیکڑوں مسلمان اس مسجد کی افتتاحی تقریب کے موقع پر جمع ہوئے تھے۔ ایلسین نے اس وقت اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس سے ہمارے ملک کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے، جہاں پر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد رہتے ہیں اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ مذہبی رواداری کے ساتھ زندگی گزارنا سب سے بہترین طریقہ ہے۔‘‘

آئی سی سی پروجیکٹ کے اولین مرحلہ میں 3000نمازیوں کی گنجائش کے علاوہ دیگر سہولیات جیسے ایک لائبریری، ایک بین عقائد سینٹر، تحائف کی دکانیں، ثقافتی اور تعلیمی کارگزاریوں کے ہال، کانفرنس روم، دفاتر اور زیر زمین پارکنگ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ 35فٹ اونچائی والی اس عمارت میں ایک کمپیوٹر لیب کے علاوہ میت کو غسل کرانے اور اس کی تدفین کا بھی انتظام کیا گیا تھا اور دوسرے مرحلے میں ایک ایسا اسکول قائم کیا گیا تھا جس میں درس وتدریس کے لئے 17کمرے تعمیر کرائے گئے تھے۔

بوسٹن گلوب کی رپورٹ کے مطابق مسلم امریکی سوسائٹی (MAS) جو کہ اسلامک سوسائٹی آف بوسٹن کلچرل سینٹر چلا رہی تھی اس نے ماہ رمضان کے دوران مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کی خوشی میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا اور اسی دن نمازیوں کے لئے اس کے دروازے کھول دیئے گئے تھے۔ یہ معمول آج بھی جاری ہے لیکن اسی سال 26 اور 27جون کو رسمی افتتاح کے لئے جو پروگرام منعقد کیا گیا تھا اس کا اہتمام بہت زبردست پیمانے پر کیا گیا تھا۔ مسجد والی سڑک کے پار واقع ریگی لیوس ٹریک اینڈ ایتھلیٹک سینٹر میں اہم افتتاحی تقریب کے دوران بین عقائد افراد کو ناشتہ دیا گیا تھا۔ اس وقت نہ صرف ربن کاٹ کر مسجد کا افتتاح کیا گیا تھا بلکہ اذان دینے کے بعد اس مسجد میں نماز بھی ادا کی گئی تھی اور نماز عشاء کے بعد اسی خوشی میں بوسٹن میریئٹ کوپلے پلس (Boston Marriott Copley Place) میں عشائیہ بھی دیا گیا تھا۔ مسلم امریکی سوسائٹی کے ایک رکن بلال کلیم نے اس وقت کہا تھا کہ ’’امریکہ کی ثقافتی اور مذہبی تاریخ میں بوسٹن نے جو رول ادا کیا ہے، میں اسے اس طرح سے دیکھتا ہوں کہ یہ روایت ہمیشہ جاری و ساری رہے گی اور امریکہ میں واقع یہ مسجد اسلامی تاریخ کی کلیدی یاد گار رہے گی‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’امریکہ میں آئی سی سی دیگر مسجدوں سے بالکل مختلف ہے کیونکہ یہ قصبوں کے بجائے شہر میں واقع ہے۔ اس مسجد میں عبادات کے علاوہ دیگر تقریبات منعقد کرنے کے لئے اسے کمیونٹی سینٹر کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کا مقصد سرگرم سماجی زندگی سے مسلمانوں کے ساتھ ربط قائم کرنا ہے۔‘‘ تقریباً 30برسوں سے استعمال میں آنے والی اس مسجد کی تعمیر پر 15.6ملین ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ اس مسجد کی چوطرفہ ستائش کی گئی تھی جیسا کہ مندرجہ ذیل جملوں سے ثابت ہو جاتا ہے جن کا ڈیوڈ لانگ (David Long) نے اظہار کیا تھا کہ ’’اب وقت آگیا ہے کہ مذہب کے تعلق سے تمام تنازع ختم ہو گیا ہے کیونکہ ہر ایک شخص نے ایک سچے خدا اور ایک سچے عقیدہ کا اعتراف کر لیا گیا ہے۔‘‘

ایک نامعلوم تبصرہ نگار نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’نئی مسجد نہایت خوبصورت ہے جو کہ قابل تعریف ہے علاوہ ازیں پڑوس کے لوگ خوش ہیں اور پورے شہر میں اس کی وجہ سے خوشی کا ماحول ہے، شاید آپ میں سے بہت سے لوگ اس بات کا پچھتاوا کر رہے ہوں گے کہ گمراہ کرنے والے لوگوں نے اس مذہب کا مطالعہ کئے بغیر مسلمانوں کو بدنام کرنے کا حربہ استعمال کیا شاید وہ اپنے شہر، اپنی ریاست اور اپنے ملک میں تعمیر ہونے والی اس مسجد کو دیکھ لیتے تو ان کا نظریہ تبدیل ہو جاتا۔‘‘

1981سے نیو اسلامک سوسائٹی آف بوسٹن کلچرل سینٹر، اسلامک سوسائٹی آف بوسٹن کی یہ تیسری توسیع تھی۔ 80کی دہائی میں بوسٹن ری ڈیولپمنٹ اتھارٹی (BRA) نے راکسبری میں مذہبی اور ثقافتی سینٹروں کے لئے ایک رقبہ مختص کر دیا تھا لیکن جب دیگر لوگوں کی جانب سے مسجد تعمیر کرانے کی درخواستیں نامنظور ہو گئی تھیں تو یہ اراضی آئی ایس بی کو فروخت کر دی گئی تھی۔ نومبر 2002میں آئی ایس بی نے سرکاری لیڈروں جیسے مینینو (Menino) کے میئر، سٹی کونسلر چُک ٹرنر، امریکی نمائندہ مائیکل ای کیپیوانو(Michael E.Capuano) اور مذہبی رہنمائوں جیسے امریکی کیتھولک چرچ کے بشپ فلپ ٹیکسیرا (Filipe Teixeira) اور اسلامک سینٹر آف نیو انگلینڈ کے نمائندہ امام طلال عید (Talal Eid) کی موجودگی میں کھدائی کا کام شروع کر دیا تھا۔ اس کے بعد آئی ایس بی میں نسلی اعتبار سے مختلف لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔ حالانکہ بڑے پیمانے پر آبادی میں تعداد کا یہ سلسلہ عرب سے شروع ہواتھا لیکن جن لوگوں نے اس کی ممبرشپ اختیار کی تھی ان میں تنوع تھا۔ ایسا اندازہ لگایاگیا ہے کہ کسی بھی جمعہ کی نماز میں مختلف 27 نسلوں کے لوگ شرکت کرتے تھے ڈیزائن اور تعمیرات کے دوران اس پروجیکٹ کے سامنے کئی چیلنجز تھے، ان میں سے ایک اقتصادی چیلنج تھا لیکن جن لوگوں نے اس کام کے لئے کاوشیں کی تھیں انہوں نے کبھی بھی اس کی وسعت کے بارے میں نہیں سوچا تھا کہ یہ اتنا وسیع اور مقبول پروجیکٹ ہو جائے گا۔ 9/11 کے بعد آئی ایس بی نے اپنے ذاتی ذرائع کے توسط سے اس مسلم مخالف نظریہ سے دفاع کرنے کی سعی کی تھی جس کی وجہ سے پورے ملک کے مسلمان متاثر ہو گئے تھے۔ آئی ایس بی (ISB) نے ایم اے ایس (MAS) کے تعاون سے 9جون 2007 میں ایک مینار پر غلاف چڑھانے کی تقریب کا اہتمام بھی کیاگیا تھا۔ اس کے بعد 27جون کو آئی ایس بی اور ایم اے ایس مشترکہ طور پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان رواداری کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے ’’یوم بین طبقاتی استحکام ‘‘کا انعقاد کیا تھا، جس کی وجہ سے مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے لئے کلچرل سینٹر سے زبردست تقویت ملی تھی اور بوسٹن علاقہ میں مذہبی اختلاف کے باوجود شاندار مذہبی اور کلچرل فضا قائم ہو گئی تھی۔ اس کمپلیکس کے ماہرین تعمیرات کی اس بات میں دلچسپی تھی کہ اس مسجد کی تعمیر اینٹوں اور بادامی رنگ کے کنکریٹ سے کی گئی تھی اور اس کی ابھاردار محرابیں اسلامی صناعی سے آراستہ کی گئی تھیں اور درمیانی حصہ میں سنہری گنبد تعمیر کرایا گیا تھا۔ اس مسجد میں انتظامی امور کے دفاتر بھی قائم کئے گئے تھے۔ یہاں پر نہ صرف اسلامی فن پاروں اور کتابوں کا ایک سینٹر قائم کیا گیا بلکہ سماجی تقریبات کے لئے ایک کثیر مقصدی ہال اور ایک مطبخ تیار کیا گیا تھا جو کہ رمضان المبارک کے علاوہ شادی بیاہ یا دیگر سماجی تقریبات کے موقع پر استعمال کئے جاتے تھے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یہاں پر زیر زمین پارکنگ کا بھی انتظام کیا گیا تھا جہاں پر بیک وقت 570 کاریں کھڑی کرنے کی گنجائش ہے۔ مرد اور خواتین کے ذریعہ نماز ادا کرنے کے لئے یہاں پر الگ الگ عبادت خانہ ہیں۔ یہاں پر ایک اسلامی اسکول بھی ہے جہاں پر طلبا کنڈرگارٹن سے لے کر پانچویں کلاس تک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں سب سے نزدیک شیرون (Sharon) اور میتھوین (Methuen) اسلامی اسکول ہیں جو کہ بوسٹن کے باہر تقریباً 25کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہیں۔

اسلامک سوسائٹی آف بوسٹن اسسٹنٹ ڈآئریکٹر سلمیٰ کاظمی نے بتایا تھا کہ یہاں پر واقع لائبریری عوام کے لئے کھول دی جائے گی۔ لائبریری کمیٹی نے اس بات پر بھی غوروخوض کیاتھا کہ ہبریو(Hebrew) کالج اور اینڈورنیوٹن تھیولو جیکل اسکول (Andover Newton Theological School) کے آس پاس ایک کنسورٹیم قائم کیا جائے اور وہاں پر بین عقائد کتابیں فراہم کرائی جائیں تاکہ ان سے مسلمان اور غیر مسلم دونوں استفادہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ اس سینٹر میں اسلامی ضابطہ کے تحت میت کو غسل دینا اور اس کی تدفین کے لئے بھی خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ لائبریری اور میت کی تدفین کے تعلق سے سہولتیں فراہم کئے جانے کے بارے میں اس سینٹر سے زیادہ امیدیں وابستہ تھیں، جن کو اس سینٹر نے پورا کر دیا تھا۔ یہ سینٹر راست طور پر راکسبری کمیونٹی کالج (RCC) سے متصل ہے۔ یہ نیاسینٹر اراضی کے اس خطہ پر واقع ہے جو کہ 40برس سے کالی پڑا ہو اتھا۔

بوسٹن شہر اور آئی سی بی دونوں کو یہ امید ہے کہ یہ سینٹر مسلم تاجران اور وہاں کے باشندوں کو اپنی جانب متوجہ کرے گا، جس کی وجہ سے وہاں کی اقتصادی صورتحال بھی بہتر ہو جائے گی۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ بوسٹن کے تمام طبقات کو ایک ایسا پلیٹ فارم مل گیا ہے جہاں پر بین عقائد مذاکرات کئے جاتے ہیں جن سے ایک دوسرے کو سمجھنے اور رواداری کا ماحول ہموار کرنے میں تعاون ملتا ہے لہذا یہ مسجد بھائی چارہ، یکجہتی اور روداری کا اب ایک اہم مرکز بن گئی ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close