Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

بیچاری معیشت کی کمر توڑ کے رکھ دی

محاسبہ…………….سید فیصل علی

’قید تنہائی‘ سے نجات پانے کے امکانات فی الحال نظر نہیں آرہے ہیں، لاک ڈاؤن کی میعاد 17 مئی تک بڑھا دی گئی ہے، حکومت نے پورے ملک کو 3 ژون میں تقسیم کر دیا ہے، جس کے تحت 130 اضلاع ’ریڈ ژون‘، 284 اضلاع ’اورینج ژون‘ اور بقیہ 319 اضلاع ’گرین ژون‘ میں تقسیم کئے گئے ہیں۔ دہلی، ممبئی، کولکاتہ، بنگلور، احمدآباد، کانپور، لکھنؤ سے لے کر نوئیڈا تک تمام بڑے شہر’ ریڈژون‘ کی گرفت میں ہیں، ’اورینج ژون‘ اور’گرین ژون‘ کے عوام کو کس حد تک چھوٹ ملے گی اس پر غورخوض جاری ہے، لیکن اتنا تو نظر ہی آرہا ہے کہ ملک سے پوری طرح لاک ڈاؤن کو ختم کرنا حکومت کے بس میں نہیں ہے، بس اس نے ژون بناکر ’قیدتنہائی‘ کے زخموں پر مرہم رکھنے کی سعی کی ہے۔

دراصل کورونا وائرس کے خلاف میڈیکل سطح سے لے کر دیگر امور تک آدھے ادھورے کام کے دوران لاک ڈاؤن کا خاتمہ خطرے کی گھنٹی ہے، خدشہ یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد کہیں اس وبائی عذاب کی رفتار پھر تیز نہ ہو جائے۔ راہل گاندھی کا مشورہ بھی درست ہے کہ سرکار کو میڈیکل اور راحت کے محاذ پر زیادہ تیز رفتاری دکھانے کی ضرورت ہے، ٹیسٹنگ زیادہ سے زیادہ ہونی چاہیے، مگر المیہ تو یہ ہے کہ ٹیسٹنگ کٹس کے معیار پر ہی سوال کھڑے ہوچکے ہیں، کٹس خریداری میں بھی گھپلے کی خبریں آرہی ہیں، علاوہ ازیں کس کو کورونا ہے یا دیگر مرض ہے یہ بھی ایک مرحلہ بن چکا ہے، ڈاکٹر کورونا کے خوف سے کسی بھی مرض کا علاج کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ ایک لڑکی کورونا کی جانچ رپورٹ 3 بار نگیٹیو آنے کے بعد چوتھی بار پوزٹییو آنے سے جانچ کٹس پر ہی بڑا سوال کھڑا ہوگیا ہے۔ ادھر کوارنٹائن سینٹر کی حالت دیگرگوں ہے، اسپتالوں میں بیڈ کی کمی کا بھی زبردست سامنا ہے، چنانچہ کورونا مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور لاک ڈاؤن کے معاملے میں بھی اس کی میعاد کی تاریخ کسی مقدمے کی طرح آگے بڑھتی جا رہی ہے۔

لاک ڈاؤن سے عام زندگی، نیم متوسط طبقہ بالخصوص مزدور طبقہ انتہائی مایوس کن اور بداعتمادی کے دوراہے پر کھڑا ہے، تمام تر پابندیوں کے باوجود قومی شاہراہوں پر مزدوروں کا قافلہ رواں دواں ہے۔ فی الحال ہرطرف مایوسی ہی مایوسی ہے۔ ان مزدوروں کو بچانے اور ان کی راحت کاری کیلئے کوئی سرکاری حل نظر نہیں آرہا ہے۔ گزشتہ دنوں بہار کا ایک مزدور گورکھپور پہنچتے پہنچتے موت کا شکار ہوگیا۔ بلیا سے آنے والا ایک مزدور چھپرا میں پولیس کی گرفت میں آگیا، لہٰذا بڑی تعداد میں مزدوروں کی نقل مکانی کورونا کے خلاف جنگ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ دراصل شکم کی آگ بڑی جان لیوا ہوتی ہے، اس کا احساس وہی کرسکتا ہے، جس نے بھوک کی تپش جھیلی ہو۔ خدا کا شکر ہے کہ یکم مئی لیبر ڈے کے موقع پر 2200 مزدروں کے ساتھ ایک اسپیشل ٹرین جھارکھنڈ کے لئے روانہ ہوئی۔ حکومت نے مزدوروں اور طلباء کیلئے 6 اسپیشل ٹرین چلائے جانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن امریند سنگھ، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش کی سرکاریں بھی مزدوروں کی واپسی کی حکمت عملی تیار کر رہی ہیں۔ بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی راجستھان کے کوٹہ سے 2500 بچوں کو لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دہلی کے وزیراعلیٰ اروندکجریوال نے بھی کوٹہ راجستھان سے بچوں کو لانے کے لئے 40 بسیں روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مگر شرمناک بات تو یہ ہے کہ بہار کے مزدور جو ملک میں سب سے زیادہ ہیں اور وہ پریشان ہیں، ان کی واپسی کیلئے نتیش سرکار کے پاس نہ کوئی پلان ہے اور نہ کوئی حکمت عملی، وہ حسب دستور کان میں تیل ڈالے بے حسی کی چادر اوڑھے مزدوروں کی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں، حالانکہ آرجے ڈی کے جواں سال لیڈر اور سابق نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو نے نتیش حکومت کو 2000 بسیں دینے کا آفر کیا ہے تاکہ پھنسے ہوئے مزدوروں کو واپس لایا جائے، لیکن نتیش کمار اس پر بھی تیار نہیں ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ایم ایل کا بیٹا راجستھان کے کوٹہ میں تھا، اسے واپس لانے کے لئے ساتھ دینے والے ایس ڈی او کو ہی معطل کردیا گیا۔ کاش راشن پانی سے محروم بھوک پیاس کے مارے جگہ جگہ پھنسے ہوئے مزدوروں کیلئے کوئی ’لولی لنگڑی‘ مدد بھی مل جاتی، نتیش کمار ذرا بڑے دل کا مظاہرہ کرتے تو مزدوروں کو راحت مل جاتی۔

قومی معیشت تو پہلے بھی نفرت کی سیاست کا شکار رہی ہے، قومی معیشت آج بھی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے، جس طرح نوٹ بندی کا فیصلہ آناً فاناً میں لیا گیا، اسی طرح لاک ڈاؤن کا فیصلہ بھی عجلت میں لیا گیا ہے، جس نے نہ صرف عوام بلکہ ملک کی معیشت کی بھی کمرتوڑ دی ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بھارت کو یومیہ 38ہزارکروڑ روپے کا خسارہ ہو رہا ہے۔ جی ڈی پی آج 1.9 فیصد سے بھی نیچے جانے کی کگار پر ہے، صنعتیں بند ہیں، لاکھوں فیکٹریوں میں تالے لگے ہوئے ہیں، تمام سرکاری کام کاج ٹھپ ہے، معیشت کا جوحال ہے، وہ ہندوستان کی ترقی کے آگے سوال بن کر کھڑا ہوگیا ہے، ایک مہینے کے اندر ’مہندرااینڈ مہندرا‘ کی ایک بھی گاڑی فروخت نہیں ہوئی، یہی حال ماروتی کمپنی کا بھی ہے، پیمنٹ سیکٹر میں 24 فیصد کی گراوٹ آگئی ہے اور یہ گراوٹ بدستور جاری ہے، بینکنگ نظام بالکل ٹھپ ہے، لیکن ای ایم آئی چارج لگ رہا ہے، نیچورل گیس کی خریداری میں 15 فیصد کی کمی آئی ہے، ٹیکسٹائل سیکٹر کا برا حال ہے، غیرملکی آرڈر کینسل کردیئے گئے ہیں۔ غور طلب ہے کہ مکمل ایکسپورٹ کی 16فیصد آمدنی ٹیکسٹائل سے آتی ہے، 10 کروڑ لوگ اس روزگار سے جڑے ہوئے ہیں، اب جن پر تلوار لٹک گئی ہے۔ ’ای سی ایم اے ای‘ کے اعدا و شمار کے مطابق بے روزگاری کی شرح 25 کروڑ تک جا پہنچی ہے اور اگر یہی حالت رہی تو یہ تعداد 40 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوروان 10 کروڑ لوگوں کی ’ورک پاور‘ صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔

اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ ملک کی معیشت کی کمزور رگوں میں توانائی دینے کے لئے حکومت کے پاس کون سا طریقہ ہے؟ گرچہ اس معاملے میں پی ایم نے 4 بار خصوصی میٹنگ کی ہے، مگر آج ہرذی شعور فکر مند ہیں کہ ملک کی معیشت کو سنبھالنے کے لئے حکومت کے پاس کون سی حکمت عملی ہے؟ آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے بھی اسی تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ آج ملک کیلئے سب سے بڑا چیلنج متوسط طبقہ، نیم متوسطہ طبقہ، خاص کر مزدور طبقہ ہے، لوگوں کے پاس نوکریاں نہیں ہیں، آمدنی کے ذرائع ختم ہو چکے ہیں اورفی الحال غریبوں کی مدد کیلئے 35 ہزار کروڑ روپے کی ضروت ہے اور سب سے بڑا چیلنج تو یہ ہے کہ ملک کی تباہ شدہ معیشت کو پٹری لانے کیلئے حکومت کے پاس کون سا ’روڈ میپ‘ ہے؟ حکومت نے عجلت میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ تو لے لیا، جو بہرحال کسی حد تک کارآمد بھی ہے، ورنہ مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی، سڑکوں پر لاشیں بچھی ہوتیں۔ آج ملک کے سامنے معیشت کی زبوں حالی بھی ہے، لاک ڈاؤن سے عوامی بے زاری، کورونا مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا لاک ڈاؤن کے بعد زندگی پٹری پر لوٹ سکتی ہے؟ معیشت کو پھر وہی پرانے مقام تک پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا اس پر حکومت کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال رمضان المبارک کا یہ ماہ مقدس بڑی فضیلتوں اور رحمتوں کا ہے، برکتوں کے اس مہینے میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ اس ملک پر اپنی رحمتوں کا سایہ قائم رکھے گا، مزدروں کو راحت ملے گی، کورونا کا شکنجہ کمزور ہوگا، ملک میں ایک بار پھر نفرت کی سیاست کا خاتمہ ہوگا، مایوسی ختم ہوگی، حوصلے بلند ہوں گے اور اسی حوصلے کے ساتھ قومی معیشت بھی اپنے سابقہ مقام پر لوٹ آئے گی۔ بقول شاعر:

بیچاری معیشت کی کمر توڑ کے رکھ دی
اس ملک کو نفرت کی سیاست نے ڈبویا

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close