Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

محاسبہ…………….سید فیصل علی

ملک میں تبلیغی جماعت پر کورونا کا ٹھیکرا پھوڑنے والوں کی جھوٹ کا غبارہ پھٹ چکا ہے۔ بامبے ہائی کورٹ نے ہندوستان میں آئے تبلیغی جماعت کے غیر ملکیوں کے متعلق پولیس کی ایف آئی آر کو نہ صرف مسترد کردیا ہے، بلکہ یہاں تک کہا ہے کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو بلی کا بکرا بنایا گیا ہے، تبلیغی جماعت کے لوگوں کو کورونا پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے کر جس طرح پروپیگنڈہ ہوا، وہ نامناسب اور قابل مذمت ہے۔ بامبے ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ گودی میڈیا کی نفرت انگیز اور جھوٹی تشہیر پر نہ صرف زبردست طمانچہ ہے، بلکہ نام نہاد ہندوتو کے علم برداروں کو بھی آئینہ دکھا رہا ہے، یہ فیصلہ انہیں یہ بھی بتا رہا ہے کہ سیکولر ہندوستان کا بھگوا کرن اتنا آسان نہیں، عدالتیں لاکھ بے بسی کا مظہر ہیں، لیکن کوئی نہ کوئی جرأت مند جسٹس نفرت کی بازی کو پلٹ بھی سکتا ہے۔

27 مارچ سے لے کر 25 اپریل تک سیاسی، سرکاری گلیاروں سے لے کر میڈیا ہاؤسوں تک تبلیغی جماعت کو لے کر زہریلا شور مچایا گیا۔ تبلیغی مرکز کی معمولی سے چوک کو لیکر میڈیا نے تل کا تاڑ بنایا۔ مارچ اور اپریل کے مہینے میں ہندو-مسلم اتحاد کو تار کرنے کی جو کوشش ہوئی، وہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ میڈیا کے ذریعہ زہریلی نشریات سے کورونا سے پریشان اذہان کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑنے کی سعی ہوئی، کورونا کو مسلمان بنا دیا گیا۔ تبلیغی جماعت کو کورونا جماعت سے موسوم کردیا گیا۔ مرکز کے لوگ ’کورونابم‘ کہے جانے لگے، تبلیغی مرکز دہلی کورونا مرکز کہا جانے لگا۔ ٹی وی پر کورونا جہاد سے دیش بچاؤ، مسجدوں پر سرکاری تالے لگاؤ، لاک ڈاؤن کے دشمن ہیں تبلیغی، دھرم کے نام ادھرم وغیرہ کے عنوانات کے تحت دھواں دھار ڈبیٹ ہونے لگے، ملک کو کورنا سے نجات دلانے کے لئے غور و فکر کے بجائے گودی میڈیا مہینوں تبلیغی جماعت کو کورنا کی جنگ میں سب سے بڑا روڑا ثابت کرنے کا تماشا ہوتا رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دہلی سے لے کر چنئی، ممبئی، حیدرآباد، کولکاتہ، پٹنہ وغیرہ تک مسجدیں کھنگالی گئیں، سیکڑوں تبلیغی گرفتار کئے گئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 30 مارچ سے 27 اپریل تک 271 میڈیا چینلوں کا نقارہ صرف ایک اسی ایشو پر بجتا رہا۔ بڑے اخبارات میں 28 دنوں تک اسی موضوع پر 11,074 رپورٹیں شائع ہوئیں، وہاں 4 مہینوں تک کورونا پر رپورٹنگ کے بجائے تبلیغی جماعت کا مرکز لعن طعن کا مرکز بنا رہا۔ ظاہر ہے اس عمل سے مسلمانوں کیخلاف اکثریتی طبقہ کے کروڑوں افراد کا ذہن آلودہ ہونا لازمی ہے اور یہ آلودگی ملک کے امن وآشتی پر کیا قہر ڈھائے گی یہ بڑا سوال ہے۔

”مجھے یہ کہنے میں قطعی گریز نہیں کہ تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں سے بھی بڑی چوک ہوئی، انہوں نے حالات کی سنگینی اور نزاکت کو نہیں سمجھا، وہ کورونا کے خطرے کے پیش نظر وقت سے قبل غیر ملکی مہمانوں کو رخصت نہیں کر پائے۔ کاش تبلیغی مرکز کے امیر مولانا سعد میڈیا کے پروپیگنڈے کا سامنے آکر مقابلہ کرتے، حقائق کی وضاحت کرتے ہوئے عوام میں آکر اپنی باتیں رکھتے تو اتنا بڑا معاملہ نہیں بنتا۔ مرکز کے ذمہ داروں کی خاموشی نے بھی میڈیا کو ایجنڈا فراہم کر دیا۔ لیکن ہم بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کے اس اہم نکات سے انکار نہیں کر سکتے کہ جب جب ملک پر کوئی قومی آفت آئی ہے اور حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام ہوئی ہے تو گودی میڈیا اس ناکامی کو چھپانے کے لئے کسی بلی کے بکرے کو تلاش کرتی ہے اور ناکامی کا ٹھیکرا اسی کے سر پر پھوڑ دیتی ہے“۔ اسی حکمت عملی کے تحت ہندوستان کی 21 ویں صدی کی گودی میڈیا نے تبلیغی جماعت کی نادانستہ غلطی کا خوب خوب نقارہ بجایا اور کورونا کے پھیلاؤ کا پورا طوق جماعت کے گلے میں ڈال دیا اور 4ماہ تک مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتی رہی، لیکن خدا کا شکر ہے کہ بامبے ہائی کورٹ نے نہ صرف جماعت کے گلے سے یہ طوق نکال دیا ہے، بلکہ طوق ڈالنے والوں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔

بامبے ہائی کورٹ کے جسٹس تلواڑ اور جسٹس شیولنکر نے تبلیغی جماعت کو لے کر جو فیصلہ دیا ہے، وہ ملک کے پورے نظام اور میڈیا پر ایسا طمانچہ ہے، جس کی گونج دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ ”ہائی کورٹ نے دوٹوک کہا ہے کہ دہلی کے تبلیغی مرکز کے اجتماع میں جو غیرملکی آئے تھے، ان کے خلاف میڈیا نے زبردست پروپیگنڈہ کیا اور ان کی امیج کو خراب کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ غیر ملکی ہندوستان میں کورونا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ کورٹ نے حکومت اور پولیس سمیت انتظامیہ کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ جہاں جہاں کوئی وبا یا کوئی قومی آفت آتی ہے تو سیاسی سرکار بلی کا بکرا ڈھونڈتی ہے۔ تمام حالات اس امکان کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ان غیرملکی مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنانے کے لئے چنا گیا اور ہندوستان میں کورونا کے تازہ اعداد و شمار اس بات کا غماز ہیں کہ عرضی دہندگان کے ساتھ اسی کارروائی انتہائی نامناسب تھی۔ وقت آگیا ہے کہ غیرملکیوں کے خلاف کارروائی کرنے والے اس کا کفارہ ادا کریں۔ ان کا جو نقصان ہوا ہے، اس کے ازالے کی مثبت سعی کریں۔ کیونکہ ہندوستان کی تہذیب مہمان کو بھگوان سمان سمجھتی ہے۔

کورٹ نے سوال کیا کہ کیا ہم واقعی اپنی اس عظیم روایت کی تقلید موجودہ معاملے میں کر رہے ہیں؟ کیونکہ غیرملکی تبلیغیوں پر لگائے گئے الزامات اس بات کا غماز ہیں کہ ان کی مدد کے بجائے انہیں غلط الزام میں پھنساکر جیل میں ڈال دیا گیاکہ وہ سفر کے دستاویزات کی خلاف ورزی کر رہے تھے اور وائرس پھیلانے کے ذمہ دار تھے۔ اگر تبلیغیوں کے ذریعہ وائرس پھیلانے کی بات میں ذرا بھی دم ہوتا تو ان سبھی کے خلاف قانونی کارروائی ہوتی۔ کورٹ نے یہ بھی سوال اٹھایا ہے کہ ان غیرملکی تبلیغیوں ان کے ملک بھیجا جاسکتا تھا، ایسی حالت میں ان کے اہل خانہ کس پریشانی سے دوچار ہوں گے، یہ فکر کا موضوع ہے۔ کورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنوری سے قبل ملک میں کئی جگہوں پر دھرنے مظاہرے ہو رہے تھے، ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، وہ سی اے اے، این آرسی کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے، موجودہ معاملے میں یہ کارروائی ان مسلم مظاہرین کے دل وذہن میں خوف ودہشت پیدا کرنے کے لئے کی گئی اور یہ اشارہ دیا گیا کہ ان کے خلاف کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ غیرملکیوں کے خلاف کارروائی کے پیچھے غلط منشا واضح ہے اور یہ کارروائی بدنیتی سے کی گئی۔

بامبے ہائی کورٹ نے یہیں تک حکومت اور میڈیا پر لعن طعن نہیں کی ہے، بلکہ اس نے صاف صاف کہا ہے کہ اس معاملے پر میڈیا نے جس طرح پروپیگنڈہ کیا، اس کی پشت پناہ سرکاری وسیاسی نظام ہے۔ عدالت نے پولیس اور مہاراشٹر حکومت پر جو تبصرہ کیا ہے، وہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ تبلیغیوں کے کیس میں پولیس نے اپنا دماغ نہیں، بلکہ میکانیکل دماغ سے کام کیا ہے، لگتا ہے کہ ریاستی سرکار نے بھی سیاسی دباؤ میں یہ کام کیا ہے۔ اس معاملے میں پولیس کو جو قانونی اختیارات ہیں، اس کی تعمیل کرنے کی جرأت پولیس نہیں دکھا سکی۔ ریکارڈ اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس نے دماغ سے کام نہیں لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ غیرملکی تبلیغیوں کیخلاف مقدمہ چلانے کیلئے ریکارڈ پر کوئی ثبوت نہیں ہے۔ حکومت دوسرے ملک کے لوگوں کے ساتھ تفریق نہیں کرسکتی“۔

بہرحال بامبے ہائی کورٹ نے تبلیغی جماعت کے گلے سے کورونا کا طوق بھلے ہی نکال دیا ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ سرکاری ایجنسی، سیاسی پشت پناہی اور میڈیا کی کارستانی نے تبلیغی جماعت کو ناجائز طور پر کٹہرے میں کھڑا کیا، جو انتہائی نامناسب ہے، مگر سوال تو یہ ہے کہ میڈیا نے جس طرح سے تبلیغی جماعت کو لے کر اکثریتی طبقہ کے ذہن کو آلودہ کیا ہے، کیا وہ آلودگی اتنی آسانی سے زائل ہوسکے گی؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ عدالت کے اس فیصلے سے ہر ذی شعور کو تھوڑی راحت، تھوڑا حوصلہ اور تھوڑی امید بھی جاگی ہے، لیکن کیا اس فیصلے کے آئینے میں زہریلی سیاست کے بازی گر اپنا چہرہ دیکھ سکیں گے؟ نام نہاد ہندوتو کے علمبرداروں کو کیا یہ فیصلہ راس آئے گا؟ کیا یہ فیصلہ نفرت کے بازی گروں کا ’ہردے پریورتن‘ کر سکے گا؟ بقول محشر بدایونی:

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیئے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائیگا

([email protected])

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close