Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر

محاسبہ…………….سید فیصل علی

ہاتھرس عصمت دری معاملے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ 16 دسمبر 2012 کے ’نربھیاکانڈ‘ کے بعد ایک بار پھر ملک میں جنسی درندگی کے خلاف کہرام مچا ہوا ہے۔ دلی سے لے کر ملک کا ہر بڑا شہر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے، کینڈل مارچ نکالے جا رہے ہیں، مظاہرے ہو رہے ہیں، لیکن یہ تمام مظاہرے و احتجاجات نے نہ صرف جنسی درندوں، بلکہ قانون کے محافظوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے کہ پولیس کے ذریعہ جنسی درندوں کے قبیح عمل پر پردہ ڈالنے کا کام ہو رہا ہے۔ یوپی پولیس کا یہ کردار ہر ذی شعور کو تشویش میں مبتلا کر رہا ہے۔

واضح ہو کہ گزشتہ 14 ستمبر کو ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت دری ہوئی پھر اسے نربھیا کی طرح جسمانی اذیت دی گئی، زبان کاٹ دی گئی، تشدد کے سبب متاثرہ کی ریڑھ کی ہڈی مجروح ہوئی اور وہ 15 دنوں تک اسپتال میں موت سے جنگ لڑتی رہی۔ بالآخر وہ زندگی کی جنگ ہار گئی۔ لیکن شرمناک بات تو یہ ہے کہ پولیس کا موقف یہ ہے کہ ریپ ہوا ہی نہیں، لڑکی کو معمولی چوٹ آئی، اگر ایسا تھا تو پولیس نے راتوں رات متاثرہ کی لاش پٹرول چھڑک کر کیوں جلا دی۔ حتیٰ کہ والدین کو بھی اس کا چہرہ دیکھنے نہیں دیا گیا۔ ہاتھرس کا یہ واقعہ بلاشبہ ایک ایسا سنگین واقعہ ہے، جس سے نہ صرف انسانیت لرز گئی ہے، بلکہ جنسی درندوں کے ساتھ یوپی حکومت کے آگے بھی سوال کھڑا کر دیا ہے۔ حالانکہ یوگی حکومت نے ایس پی سمیت 7 پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا ہے، مگر اس کے باوجود یہ کہا جا رہا ہے کہ لڑکی کی موت فطری ہے، اس کی عصمت دری نہیں ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا لڑکی خود ہی مرگئی؟سوال یہ بھی ہے کہ آخر جنسی درندوں کو بچانے کی کوشش کیوں ہو رہی ہے؟ جنسی درندگی کو عام جرم میں پلٹنے کا کام کیوں ہو رہا ہے؟ کیا اس کے پیچھے وہی پرانی سیاست کار فرما ہے، جس نے صدیوں طاقت کے بل پر کمزوروں کو کچلنے کا کام کیا ہے۔ کیا ذات-دھرم، کی برتری یہاں بھی حاوی ہے؟ آج ہاتھرس میں ایک پنچایت کے ذریعہ بھی یہ فیصلہ لیا گیا ہے کہ اس معاملے میں وہ گرفتار ملزمین کی حمایت کریں گے۔ جبکہ پولیس نے متاثرہ کے اہل خانہ کے گاؤں کو چھاؤنی میں بدل دیا ہے اور ان پر طرح طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اس ریاست کی پولیس، انتظامیہ، بلکہ عدل وقانون بھی محض کٹھ پتلیاں ہیں، جس کی ڈور کسی اور کے ہاتھوں میں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہاں عجب غضب منظرنامے میں ابھر رہے ہیں، حیران کن فیصلے ہو رہے ہیں، ناحق کو حق پر فتح حاصل ہو رہی ہے، سرعام سچائی کی تذلیل اور جھوٹ کی پذیرائی ہو رہی ہے۔ اسی تناظر میں 28 سال بعد بابری مسجد انہدام کا بھی فیصلہ آیا ہے، جس نے پورے ملک کو چونکا دیا ہے۔ عدالت نے بابری مسجد انہدام معاملے کے تمام ملزمین کو نہ صرف بے قصور بتاکر باعزت بری کیا ہے، بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ ملزمین نے مسجد گرانے کے لئے سازش نہیں کی، بلکہ مسجد کو بچانے کی کوشش کی، حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ 6 دسمبر 1992 کو اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی، سادھوی رتھمبرا، ونے کٹیار سمیت تمام لیڈران ایودھیا میں موجود تھے، وہ سازش میں شامل تھے، انہوں نے ایک سال قبل سے ہی ماحول بنانا شروع کر دیا تھا، رام للا ہم آئیں گے، مندر وہیں بنائیں گے کا نعرہ دے کر پورے ملک سے ہزاروں کارسیوکوں کو ایودھیا بلایا گیا تھا۔ کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ بھی دیا تھا کہ ایودھیا میں کچھ نہیں ہوگا، بالآخر ’’ایک دھکا اور دو، بابری مسجد توڑ دو‘‘ کے فلک شگاف نعروں کی گونج میں 500 سالہ پرانی مسجد شہید کردی گئی۔

دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ اس شہادت پر کس طرح اوما بھارتی اچھل کر مرلی منوہر جوشی کی پیٹھ پر سوار ہو گئی تھیں اور ان تمام لیڈروں نے جشن منایا تھا۔ بلاشہ یہ سب ایک منصوبہ بند سازش کا منظرنامہ تھا، لیکن عدالت نے 6 دسمبر 1992 کو مسجد شہادت کی ویڈیوز اور آڈیوٹیپ کو بھی مسترد کر دیا۔ جج صاحب نے ان جرنلسٹوں کی گواہی اور فوٹوگراف کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی، جو بابری مسجد کی شہادت کے وقت جائے واردات پر موجود تھے، غرضیکہ تمام چشم دید گواہوں کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ سی بی آئی عدالت کو سپریم کورٹ کا یہ نکتہ بھی نظر نہیں آیا جو اس نے 9 نومبر 2019 کے فیصلے میں کلیئر کیا تھا کہ بابری مسجد کا انہدام قطعی غلط تھا، یہ انہدام تعزیرات ہند کے تحت جرم ہے۔ کورٹ نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ مسجد مندر توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی اور نہ ہی اس جگہ پر کوئی مندر تھا۔ کورٹ نے اس معاملے کے فیصلے کے لئے دوسال کا وقت لیا تھا، جو بعد میں تین سال کر دیا گیا اور جب جج صاحب نے اپنے ریٹائرمنٹ کے چند گھنٹے قبل فیصلہ سنایا تو اس فیصلے پر دنیا چونک گئی، ہندوستان ایک نئے کرب سے دوچار ہوگیا۔

بابری مسجد انہدام کے ملزمین کو اس طرح معصوم ثابت کرکے انہیں باعزت بری کیا جانا ایک دل سوز فیصلہ ہے اور یہ فیصلہ ہندوستانی عدلیہ کا واحد فیصلہ ہے، جس کی کھل کر مذمت ہو رہی ہے اور جس پر بلاتفریق مذہب و ملت ہر طبقہ خیال سوال کھڑا کر رہا ہے کہ جب مسجد کسی نے توڑی ہی نہیں تو وہ ٹوٹی کیسے؟ سینئر صحافی ونودوا، روبیش کمار، اجیت انجم، ارملیش سورا بھاسکر سے لے کر ملک کے کئی دانشوروں اور اداکاروں نے طنز کیا ہے کہ اس فیصلے سے لگتا ہے کہ کسی نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی، کسی نے کوئی سازش نہیں کی، بلکہ مسجد خود بہ خود منہدم ہو گئی۔

حالانکہ ایودھیا معاملے کی جانچ کے لئے 16 دسمبر 1992 لبراہن کمیشن تشکیل دی گئی تھی، جس نے 17 سال بعد 2009 میں اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی، سادھوی وتمبرا، ونے کٹیار سمیت آر ایس ایس اور بی جے پی کے کئی لیڈروں اور کئی افسروں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔ اس کے سربراہ جسٹس لبراہن کا کہنا ہے کہ میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ بابری مسجد کو گرانا ایک سازش تھی، میرے سامنے جو بھی ثبوت رکھے گئے، اس سے واضح تھاکہ بابری مسجد کا انہدام ایک منظم سازش کا نتیجہ تھا۔ اوما بھارتی نے اس واقعہ کی ذمہ داری بھی لی تھی۔ آخر کوئی اندیکھی طاقت نے تو مسجد نہیں گرائی ہوگی، اسے انسانوں نے ہی گرایا ہوگا۔ جسٹس لبراہن کہتے ہیں کہ کمیشن کی رپورٹ تاریخ کا ایک حصہ ہے، جو بتاتی ہے کہ ایودھیا میں کیا ہو اور کیسے ہوا، لیکن جو عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کو نظرانداز کرے، اس کے سامنے لبراہن کمیشن کی رپورٹ کیا حیثیت رکھتی ہے؟

بہر حال مجھے اس پر حیرت نہیں ہے کہ بابری مسجد انہدام کے ملزمین بری ہوگئے، اب اس پر ردعمل کے اظہار سے فائدہ کیا یہ تو ہونا ہی تھا، مگر ملک کے جو حالات ہیں، جو سیاست ہے، نام نہاد ہندتوو کی جو فکر ہے، اس کو اس فیصلے سے تقویت ضرور ملے گی، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک جج بڑا قیافہ سناش ہوتا ہے، وہ جان لیتا ہے کہ کٹہرے میں کھڑا شخص مجرم ہے یا بے گناہ! لیکن وہ اپنے تجربے پر نہیں، بلکہ شواہد و ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔ کبھی کبھی وہ فیصلہ سناتے وقت ایک کرب سے بھی گزرتا ہے۔ گجرات فسادات کے معاملے میں ایک جج نے فیصلے میں ملزمین کو بری کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے احساس ہے کہ فلاں شخص قصوروار ہے، لیکن اسے سزا دینے کے لئے میرے پاس ایک بھی ثبوت نہیں ہے۔ کاش ثبوت اور شواہد کے فقدان کے تحت فیصلہ سنانے والے سی بی آئی عدالت کے جج صاحب بھی دوچار لفظ ایسا ہی لکھ دیتے تو شاید ان کی مجبوری سمجھی جاتی، لیکن ریٹائر ہوتے ہوتے انہوں نے اپنے فیصلے میں نہ صرف ملزمین کو بری کیا، بلکہ کارسیوکوں کو بھی کلین چٹ دے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کا انہدام کارسیوکوں نے بھی نہیں کیا، بلکہ کارسیوکوں کے بھیس میں آتنک وادیوں نے کیا ہوگا۔ بہرحال ملک ایک عجب ستم گر دور سے گزر رہا ہے، جہاں پولیس، انتظامیہ کٹہرے میں کھڑے ہیں، وہیں عدلیہ پر جو تھوڑا بہت اعتماد تھا، وہ بھی متزلزل ہو رہا ہے۔ یوپی پولیس ثابت کرنے میں لگی ہے کہ ہاتھرس کی متاثرہ کا ریپ ہوا ہی نہیں، اس کی موت فطری ہے تو دوسری طرف سی بی آئی عدالت نے 28 سال پرانے بابری مسجد انہدام معاملے میں فیصلہ سنایا ہے کہ مسجد کو کسی نے گرایا ہی نہیں اور کسی نے توڑا ہی نہیں۔ اب اس عجب منطق پر کیا کہا جائے، بقول شاعر :

قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر

([email protected])

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close