Khabar Mantra
محاسبہ

آسان نہیں انصاف کی زنجیر ہلانا

محاسبہ...........................سید فیصل علی

پورا ملک اقتصادی و تہذیبی بحران سے دو چار ہے۔ سابق قومی اقتصادی مشیر اروند سبرامنین نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترقیاتی شرح حالیہ سہ ماہی میں بہت نیچے آگئی ہے اور اس گراوٹ کا اقتصادیات پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ ترقیاتی خستہ حالی گو کہ ملک کے لئے فکر کا موضوع ضرور ہے لیکن یہ خستہ حالی دُور بھی ہو سکتی ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے معیشت و صنعت کی بد حالی ختم بھی ہو سکتی ہے، لیکن ملک میں تہذیبی و ثقافتی زوال کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اگر یہ نہیں رکا تو ملک کی روشن تاریخ و تہذیب، بے مثال رواداری و سنسکار، امن و محبت کی خوشبو بکھیرنے والے تکثیری افکار سب گُم ہو جائیں گے اور ہندوستان کی عظیم شناخت بس تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔

ملک کے پرانے اقدار اور سنسکار کو جس طرح یرغمال بنا کر نئی تہذیب کاچابک چلایا جا رہا ہے، بھیڑ کے ذریعہ جو تماشا دکھایا جا رہا ہے، اس سے ملک کی جمہوریت وسیکولزم ہی نہیں بلکہ عدل و قانون کے ایوانوں میں بھی تشویش کی لہریں ہیں۔ کھلے عام چیف جسٹس آف انڈیا کو دھمکی دینا، پولیس و انتظامیہ کو انگلی پر نچانا، خود مختار آئینی اداروں پر شکنجہ کسنا آج کی اس سیاست کا منظر نامہ ہے، جس نے نہ صرف بھیڑ کے تشدد کو تقویت دی ہے بلکہ ملک میں لاقانونیت کو بھی حد درجہ فروغ دیا ہے کہ آج قاتل سُرخ رو ہو رہا ہے اور مقتول گناہ گار بن رہا ہے۔

3دسمبر کے بلندشہر فساد نے پورے ملک کو فکر و تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، جہاں ایک پولیس انسپکٹر نے اپنی جان دے کر مغربی اترپردیش میں دنگے کی آگ بھڑکنے سے بچا لی۔ کہتے ہیں کہ اگر یہ فساد ایک گھنٹہ پہلے ہوا ہوتا تو بلا شبہ یہ خطرناک روپ دھار چکا ہوتا، لیکن انسپکٹر سبودھ سنگھ مشتعل بھیڑ کو قومی شاہراہ کی طرف جانے میں دیوار بن کر کھڑے ہوگئے، جہاں سے تبلیغی اجتماع سے لوٹنے والے لاکھوں لوگ گزر رہے تھے۔ تبلیغی اجتماع کے شرکاء کا راستہ بدل دیا گیا۔ انسپکٹر سبودھ کی جانبازی اور حکمت عملی نے اترپردیش کو دوسرا مظفر نگر بننے کی سیاست کی ہوا نکال دی مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قانون کی حفاظت کی راہ میں جان دینے والے افسر سبودھ سنگھ آج خود نشانے پر ہیں، انہیں گناہ گار ثابت کیا جا رہا ہے۔ وشو ہندو پریشد کے لیڈر سدرشن چکر نے مطالبہ کیا ہے کہ سبودھ سنگھ کے کردار کی جانچ کی جائے۔ اس سلسلہ میں سوشل میڈیا پر ایک خط بھی وائرل ہوا ہے جو ہندو تنظیموں کی جانب سے فساد سے دو روز قبل مقامی ایم پی بھولا سنگھ کو بھیجا گیا ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ انسپکٹر سبودھ ہندوؤں کے مذہبی معاملات میں خلل ڈال رہے ہیں۔

بلند شہر میں قانون کی بے بسی اور فسطائی قوتوں کی شر پسندی سے پورا ملک فکر میں مبتلا ہے کہ گئو کشی کی افواہ سے کیا کوئی قوم اس قدر مشتعل ہو سکتی ہے کہ قانون کو بھی روند دیتی ہے، تھانہ کو جلا دیتی ہے، پولیس انسپکٹر کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیتی ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ آج بھی انسپکٹر کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے بجائے گئو کشی کرنے والوں کی گرفتاری کو زیادہ ترجیح دی جا رہی ہے۔ بجرنگ دل لیڈر یوگیش، جس نے فساد بھڑکانے میں کلیدی رول ادا کیا، اسے گرفتار نہیں کیا گیا۔ اس فساد میں شامل درجنوں افراد جو ہندو تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کا نام ایف آئی آر میں درج ہے، وہ ویڈیو جاری کرکے خود کو بے قصور ثابت کر رہے ہیں اور ان کی گرفتاری نہیں ہو رہی ہے۔ بلند شہر کے فساد پر یوگی کابینہ کے وزیر اوم پرکاش راج بھر کا کہنا ہے کہ بلند شہر کا فساد بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر گئو کشی کے خلاف جب لوگ مظاہرہ کر رہے تھے تو ان کے پاس بندوقیں اور پستول کیسے آئے؟ انسپکٹر سبودھ سنگھ کیسے ہلاک ہوئے، یہ سب ویڈیو پر وائرل ہو رہا ہے، لیکن وہی ڈھاک کے تین پات۔ جانچ کی نظریں اس سمت مرکوز ہیں کہ گائے کو کس نے مارا. ؟ اس واقعہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ مہلوک انسپکٹر سبودھ سنگھ کی اہلیہ، بہن، بیٹے نے بھی الزام لگایا ہے کہ سبودھ سنگھ کو ان کی حق گوئی کی سزا ملی ہے۔ دادری کے محمد اخلاق قتل معاملہ بھی ان کی موت کی وجہ ہو سکتا ہے۔

غور طلب ہے کہ انسپکٹر سبودھ سنگھ دادری میں گائے کا گوشت رکھنے کے شک میں بھیڑ کے ذریعہ مارے گئے اخلاق کے قتل کی تفتیش کر رہے تھے۔ انہوں نے 24گھنٹے کے اندر10 ملزموں کو گرفتار کر لیا تھا، جس کے بعد ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔ وہ اخلاق معاملہ کے اہم گواہ بھی تھے۔ عدالت میں ان کی پیشی ہونے والی تھی کہ وہ بارہ دن قبل ہی بھیڑ کے ہاتھوں مارے گئے۔ سیاست کی عجب بالا دستی ہے اور قانون کی یہ عجب بے بسی ہے کہ آج اس انسپکٹر کے کردار کی جانچ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، جس نے جان کی بازی لگائی اور بلند شہر کو مظفر نگر ہونے سے بچالیا، لیکن اس معاملہ میں ملزم خاص بجرنگ دل کا لیڈر یوگیش ہنوز آزاد ہے بلکہ ہندو تنظیموں سے جڑے جتنے بھی لیڈر ہیں، جن کے نام ایف آئی آر میں ہیں وہ ویڈیو کے ذریعہ خود کو بے قصور ثابت کر رہے ہیں اور انتظامیہ بھی انہیں گرفتار کرنے سے قاصر ہے۔

بلند شہر فساد میں سیاست کے بازی گروں کا کچھ نہیں بگڑا ہے، کس نے تشدد بھڑکایا، کس نے بھیڑ کی قیادت کی، کون اس کے پس پشت تھا، بھیڑ تنتر کی لگام کس کے ہاتھ میں تھی؟، یہ سب سوالات پس پشت ہو گئے ہیں اور ایک ہی صدا گونج رہی ہے کہ گائے کو کس نے مارا؟ سیاست کی اس بازی گری میں پولیس اور قانون کی بے بسی قابل دید ہے۔ سارا الزام پولیس کی ناکامی کو دیا جا رہا ہے۔ چوکی انچارج، سی او، ایس ایس پی ہٹا دیئے گئے ہیں۔ ایک طرح سے بلند شہرفساد کی گاج پولیس پر ہی گری ہے، بھیڑ تنتر آج بھی گرفت سے باہر ہے۔ پانچ ماہ قبل سپریم کورٹ نے بھیڑ کے ذریعہ تشدد پر سماعت کے دوران یہ تلخ تبصرہ کیا تھا کہ’’جمہوریت میں بھیڑ تنتر کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘، لیکن سپریم کورٹ کے اس تبصرہ سے بے نیاز بھیڑ تنتر آج فسطائی طاقت کا سب سے بڑا ہتھیاربن چکا ہے، جس کے آگے عدل و قانون و انتظامیہ سب بے بس تماشائی ہیں، اس بدلتی تہذیب سے ہر ذی شعور خوف زدہ ہے۔

ستم سیاست تو یہ بھی ہے کہ محمد اخلاق، پہلو خان، محمد جنید، رقبر خان وغیرہ سے لے کر انسپکٹر سبودھ سنگھ تک بھیڑ تنتر کے ذریعہ جو دہشت پھیلا ئی گئی ہے اس سے مجرموں کو سزا دینے کے بجائے ان کی در پردہ حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھیڑ میں شامل ہونے والے بے خوف ہو کر کسی کو بھی مار ڈالتے ہیں۔ بدلتی تہذیب کا یہ ایسا دل سوز منظر نامہ ابھر رہاہے، جو نہ صرف ہندوستانی معاشرے کو آلودہ کرے گا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی ملک کی ترقیات کی راہوں میں بھی کانٹا ثابت ہوگی۔ کل تک مسلمان ماب لنچنگ کا شکار ہوتے تھے لیکن نئی تہذیب کے پیرو اتنے خونخوار ہو چکے ہیں کہ اس بار اس کا شکار قانون کا ایک محافظ ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قانون کے اس محافظ کو بھی کیا انصاف ملتا ہے؟ قانون اس کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا حوصلہ دکھاتا ہے یا موجودہ اقتدار و سیاست کے آگے سرنگوں ہو جاتا ہے؟ بقول اختر بستوی:

آسان نہیں انصاف کی زنجیر ہلانا
دنیا کو جہانگیر کا دربار نہ سمجھو

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close