Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

محاسبہ…………….سید فیصل علی

2016 میں امت شاہ نے بڑے زعم کے ساتھ کانگریس مکت بھارت کا نعرہ لگایا تھا، مگر اقتدار کی قوت، نفرت کی سیاست اور خاص کر دولت کی طاقت کے ذریعہ ملک سے کانگریس کے صفایا کرنے کا بڑبولاپن عوام کو پسند نہیں آیا اور انہوں نے کانگریس مکت بھارت کا خواب چکناچور کر دیا۔ بی جے پی کی تمام ترنفرت کی سیاست، ہندوتو کے ہتھکنڈوں کے باوجود چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان، جھارکھنڈ سے لے کر مہاراشٹر تک یکے بعد دیگرے بی جے پی حکومتوں کا چراغ گل ہوتا گیا اور کانگریس کا اقبال بلند ہوتا رہا، لیکن اب راہل گاندھی کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے جیوتی رادتیہ سندھیا نے کانگریس کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ سندھیا کے بھگوا رنگ دھارن کرنے کے بعد اب بی جے پی نئے تیور کے ساتھ میدان میں ہے۔ مدھیہ پردیش میں وہی پرانا ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے، جو جولائی 2019 میں کرناٹک میں کھیلا گیا تھا، جہاں کئی دنوں کے سیاسی بحران کے بعد 14 مہینے کی جے ڈی ایس- کانگریس والی کمارا سوامی سرکار گرادی گئی تھی۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر یدی یورپا جوڑ توڑ کرکے کرناٹک کے سی ایم بن گئے تھے۔ تقریباً وہی سارا منظرنامہ مدھیہ پردیش میں نظر آ رہا ہے۔ سندھیا حامی 20 ممبران اسمبلی بنگلورمیں بی جے پی حکومت کی شرن میں ہیں۔ حالانکہ ان تمام ممبران کو اسپیکر نے نوٹس دے کر بنفس نفیس حاضر ہونے کو کہا ہے۔ اسپیکر نے سندھیا حامی پانچ وزراء کو برخاست بھی کر دیا ہے، مگر مدھیہ پردیش میں تمام تر اتھل پتھل کے باجود کمل ناتھ سرکار گرانے اور بی جے پی سرکار بنانے کی نئی بساط بچھائی جا چکی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا سندھیا حامی 20 ممبران اسمبلی بی جے پی میں شامل ہو جائیں گے؟ کیونکہ انہوں نے اپنے لیڈر سندھیا کو وزیراعلیٰ بنانے کے لئے کمل ناتھ سرکار کے خلاف آواز اٹھائی ہے، جبکہ بی جے پی نے سندھیا کو راجیہ سبھا کا امیدوار بنا کر بھوپال سے دہلی کا راستہ دکھا دیا ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا مدھیہ پردیش میں کرناٹک کا تجربہ کامیاب ہوسکتا ہے؟ کیونکہ وزیراعلیٰ کمل ناتھ خود ایک منجھے ہوئے سیاستداں ہیں۔ کانگریس میں انہیں مینجمنٹ گرو بھی سمجھا جاتا ہے اور یہ کمل ناتھ کی سیاسی حکمت عملی کا ہی کرشمہ تھا کہ ہندوتو کے سب سے بڑے قلعہ پر کانگریس بالآخر فاتح ہوئی تھی اور پھر تو کانگریس نے تابڑ توڑ کئی فتوحات حاصل کیں۔ مہاراشٹر میں تو بی جے پی کے منھ سے نوالہ چھین کر جس منصوبہ بندی کے ساتھ شیوسینا کے ساتھ جس طرح اقتدار میں آئی، وہ بھی سیاست کا منفرد کھیل ہے۔ سیاست بھی کرکٹ کی طرح ہے، جس میں کب کیا ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جیوتی رادتیہ سندھیا کی بغاوت نے کانگریس کو اندر سے ہلاکر رکھ دیا ہے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی کو پٹخنی دے کر کانگریس جو دو قدم آگے بڑھی تھی، وہ اب ایک قدم پیچھے ہوگئی ہے اور اگر مدھیہ پردیش کی سرکار چلی گئی تو مہاراشٹر کی کامیابی بھی بے معنی ہو جائے گی۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی سرکار کا اثر دوسری ریاستوں پر بھی پڑے گا، راجستھان میں یہ کھیل دہرایا جا سکتا ہے، مگر میں یہ کہوں گا کہ کانگریس کے پاس بھلے ہی تھیلی بانٹنے کی سکت نہیں ہے، لیکن اس میں احمد پٹیل، اشوک گہلوت، دگ وجے سنگھ اور کمل ناتھ سے لے کر ڈی شیوکمار تک ایسے گھاگ سیاستداں اور مینیجر موجود ہیں، جو بی جے پی کی سیاسی بساط الٹ بھی سکتے ہیں۔

آج کانگریس ایک بار پھر بدترین سیاسی بحران سے دوچار ہے۔ کانگریس میں یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ یوتھ لیڈر شپ اور سینئر رہنماؤں کے درمیان خلیج پیدا ہوچکی ہے۔ سندھیا کی بغاوت سے کانگریس میں نئی نسل اور پرانی نسل کے درمیان مت بھید کھل کر سامنے آچکے ہیں، لیکن سندھیا کی بغاوت کانگریس کے لئے کم، نہرو خاندان کے لئے زیادہ نقصاندہ ہے۔ جیوتی رادتیہ سندھیا کا امت شاہ کا دامن تھامنا خطرے کی گھنٹی ہے، کیونکہ کانگریس کے دیگر نوجوان لیڈر بھی یقینا ان کے رابطے میں ہوں گے، اس لئے خدشہ ہے کہ کہیں دوسرے یوتھ لیڈر بھی سندھیا کی تقلید نہ کریں۔ سچن پائلٹ، ملند دیوڑا کی بی جے لیڈروں سے ملنے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ کانگریس لیڈرشپ دوحصوں میں کیوں منقسم ہوئی؟ کانگریس نے سندھیا کو کیسے کھو دیا؟ گرچہ سندھیا نے بی جے پی میں شمولیت کے بعد یہ کہا کہ کانگریس پہلے والی پارٹی نہیں رہی، پارٹی نے ان کو اہمیت نہیں دی، حالانکہ راہل گاندھی نے اس پر کہا کہ سندھیا پہلے آدمی تھے، جو بلا روک ٹوک ان کے پاس آسکتے تھے، مگر بی جے پی میں جانے کی سندھیا کی فکر بالآخر واضح ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کی وچار دھارا انہیں پسند نہیں، وہ نئی وچار دھارا کے قائل ہیں۔ ظاہر ہے یہ وچار دھارا ہندوتو اور ہندوراشٹر کی ہے، جس کی راہوں پر ان کے اجداد چلتے رہے ہیں، خود ان کے دادا آرایس ایس کے اہم لیڈروں میں سے تھے اور ان کی مالی معاونت بھی کرتے رہے تھے۔ ان کی دادی مہارانی وجے راجے سندھیا تا عمر آرایس ایس سے جڑی رہیں، جیوتی رادتیہ سندھیا کے والد مادھو راؤ سندھیا راجیو گاندھی کے انتہائی قریبی رفقاء میں شمار ہوتے تھے، لیکن انہوں نے بھی 1971 میں ’جن سنگھ‘ سے چناؤ لڑے تھے اور بعد میں کانگریس میں شامل ہوگئے۔ ان کی بوا وسندھرا راجے سندھیا بی جے پی کی اہم ترین لیڈروں میں شمار ہوتی ہیں، گویا پورا خاندان ہندوتو کے علم برداروں میں شامل ہے۔ راجستھان کی سابق وزیراعلیٰ وسندھرا راجے نے سندھیا کی بی جے پی میں شمولیت کو گھر واپسی کہا ہے اور کہا ہے کہ اب پوری ٹیم مکمل ہوگئی۔

سندھیا کے کانگریس سے جانے کے بعد کئی سوالات کھڑے ہو رہے ہیں، نہرو- گاندھی خاندان پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔سوال تو یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا کانگریس ٹوٹ رہی ہے؟ کیا بی جے پی کا کانگریس مکت خواب پورا ہوگا؟ کانگریس کے اندر بزرگ لیڈران اور یوتھ لیڈرشپ کے درمیان جو سرد جنگ چل رہی ہے کیا وہ کانگریس کو لے ڈوبے گی؟ ان سب سوالوں کے درمیان سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا نہرو -گاندھی پریوار کانگریس کو سنبھال پائے گا؟ حالانکہ کانگریس ماضی میں کئی ایسی ہی بحرانی کیفیت سے دوچار ہوئی ہے اور بالآخر اسی پریوار نے اسے سہارا دیا ہے، پارٹی کو ایک جٹ کیا ہے۔ سونیا گاندھی 1997 میں سیاست میں آئیں، یہ بھی کانگریس کا بحرانی دور تھا، کانگریس کے کمارا منگلم، شرد پوار اور ممتا بنرجی جیسے قدآور لیڈر اپنی اپنی راہیں الگ بناچکے تھے۔ سونیا کی آمد سے پارٹی کی بحرانی کیفیت نہ صرف تھم گئی، بلکہ کانگریس اقتدار کی منزل تک پہنچ گئی۔ کانگریس نے اتار چڑھاؤ کے کئی مناظر دیکھے ہیں، کانگریس کمزور ہوسکتی ہے، مگر خود کانگریس کے اندر باہر کئی لیڈر ہیں، جو کانگریس کے وجود کو بچانے کے حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ شرد پوار، ممتابنرجی، اسٹالن سے لے کر لالو پرساد یادو تک کئی بڑے لیڈران آج بھی کہتے ہیں کہ قومی سطح پر بی جے پی کا متبادل صرف کانگریس ہی دے سکتی ہے۔ سندھیا کا بی جے پی کا دامن تھامنا بھلے ہی کانگریس کے لئے نقصاندہ ہے، لیکن جو شخص کانگریس کی سیکولر فکر سے اختلاف رکھتا ہو اور بی جے پی کی نئی فکر کا قائل ہو، جس کا پورا کنبہ آرایس ایس نواز ہو، جو کل تک امت شاہ کو پارلیمنٹ میں آئینہ دکھاتا رہا ہو، وہ آج خود نریندرمودی اور امت شاہ کا قصیدہ گو بن کر خود آئینہ بنا ہوا ہے، ایسے خاندانی سنگھیوں پر افسوس کرنے کے بجائے شکر ادا کرنا چاہیے۔ بقول شاعر:

آخر گِل اپنی صرفِ درمیکدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close