Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

نیکیاں اہل سیاست نہیں کرنے دیتے

محاسبہ…………….سید فیصل علی

ملک میں کووڈ-19 کی تیسری لہر چل پڑی ہے، خاص کر جس طرح راجدھانی دہلی میں گزشتہ 15 دنوں میں کورونا کی یلغار ہوئی کہ مریضوں کی تعداد لاکھ سے اوپر پہنچ گئی اور یہ تعداد مزید بڑھ رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دہلی اور این سی آر کے خطے ہنگامی صورتحال سے دو چار ہیں، کچھ پابندیاں لگائی گئی ہیں ماسک نہیں پہننے پر جرمانہ کی رقم چوگنی کی گئی ہے۔ یوپی، ہریانہ اور دہلی کی سرحدوں پر چوکسی بڑھا دی گئی ہے۔ کورونا کی تیسری لہر میں گجرات، مہاراشٹر، تمل ناڈو، راجستھان، مدھیہ پردیش سے لیکر یوپی تک نے اپنے پاؤں جس طرح پسارے ہیں اس سے پورا ملک پھر تشویش میں مبتلا ہو چکا ہے کہ آخر کب اس وبا سے جان چھوٹے گی، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ ملک اب تک کورونا سے دفاعی جنگ لڑ رہا ہے، فاتح کب ہوگا کہنا مشکل ہے، لیکن اس دفاعی جنگ نے قومی معیشت کی جس طرح کمر توڑی ہے، بے روزگاری میں اضافہ کیا ہے اس کے پیش نظر عالمی سطح کے ماہرین اقتصادیات نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آئندہ سال 2021 تک یہی صورتحال رہی تو آدمی لقمہ لقمہ کو ترسے گا۔

لیکن ان تمام تر تشویش و ومسائل سے بے نیاز عوام کی بے چینی دور کرنے کے بجائے اب ہندوتو کی کھیر پکانے کا کھیل شروع ہو چکا ہے۔ لو جہاد کا معاملہ پھر گرم ہو چکا ہے۔ سماج میں انتشار پھیلانے کے لئے اب قانونی بساط بچھائی جا رہی ہے۔ مدھیہ پردیش، ہریانہ، کرناٹک، آسام اور اترپردیش کی بی جے پی حکومتیں اپنی اپنی ریاستوں میں محبت کی شادی کے خلاف قانون بنانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ لو جہاد کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔ بین مذاہب شادی کے معاملے میں ملوث افراد ناقابل ضمانت ملزم سمجھے جائیں گے ان کے لئے 7 سال کی سزا کا التزام ہوگا، حالانکہ ہندوستان کا آئین بین مذاہب شادیوں کی اجازت دیتا ہے مگر اس کے برعکس بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں لو جہاد کے خلاف قانون بنایا جا رہا ہے، جسے ماہرین قانون غلط قرار دے رہے ہیں۔

میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کیا پورا ملک نام نہاد ہندوتو کے افیون کا عادی ہو چکا ہے کہ وہ اپنے تمام مسائل و مصائب اور کورونا کو نظر انداز کرتے ہوئے ہندوتو کے افیون کے خمار میں ڈوبا ہوا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ اب اس برے دور میں بھی کسی کو نہ ملک کی ترقی چاہئے نہ وکاس اور نہ روزگار چاہئے، اس بے حسی کے نقطہ پر میں مسلسل الجھن میں رہتا ہوں۔ بہار کا الیکشن گزر گیا، تیجسوی کی آندھی کو بھی دنیا نے دیکھا، مگر ہوا کیا؟ پانسہ پلٹ گیا، حالانکہ کچھ سیاسی پنڈتوں کا کہنا تھا کہ بھائی یہ تو ہندوتو کا ہی دم خم تھا کہ بہار میں بی جے پی کی آبرو رہ گئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی تمام تر نکمے پن کو پوشیدہ رکھنے کے لئے بھولے بھالے عوام کو ہندوتو اور راشٹرواد کے افیون کا عادی بناتی جا رہی ہے۔ اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ کورونا کی مار سے ملک کو سنبھالنے اور اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے ہندوتو سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ لہذا اب ملک کی پریشان سوچ کو نیا رخ دینے کے لئے لو جہاد کا فتنہ سامنے لایا گیا ہے تاکہ بدترین حالات کے شکار عوام اپنا دکھ درد بھول جائیں اور ہندوتو، راشٹر واد کو مقدم سمجھتے ہوئے بی جے پی حکومت کے گن گان کریں۔

مجھے اس پر تشویش نہیں کہ لوجہاد کا قانون آنے سے سیکولرازم کی توہین ہوگی، عشاق کا بڑا خسارہ ہوگا، ان کی عاشقی کا شباب جیل خانے میں گزرے گا۔ مجھے تشویش صرف اس پر ہے کہ لو جہاد کے نام پر پھر ہندو مسلم کا نقارہ بجے گا، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو درہم برہم کرنے کی ڈفلی بجائی جائے گی۔ دراصل نفرت کی سیاست کے بطن سے نکلنے والا لو جہاد بی جے پی کو سوٹ کرتا ہے۔ چنانچہ بی جے پی اقتدار والی ریاستیں اب پوری تیاری کے ساتھ اس کے خلاف قانون بنانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے باضابطہ اعلان کیا ہے کہ وہ اسمبلی کے سرمائی اجلاس میں فریڈم آف رلیجن بل 2020 پیش کریں گے،جس میں لوجہاد کے ملزم کو 5 سال کی سزا ہوگی، اس کا جرم ناقابل ضمانت ہوگا، لیکن مدھیہ پردیش میں بنائے جا رہے اس قانون میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ وہاں لو جہاد کے بین مذاہب شادی کے لئے ایک ماہ قبل ڈی ایم سے اجازت لینی ہوگی۔ مدھیہ پردیش سے قبل کرناٹک، ہریانہ اور آسام حکومتیں بھی لو جہاد کے خلاف قانون بنانے کا اعلان کر چکی ہیں، لیکن اب یوپی حکومت میں بھی لو جہاد کے خلاف قانون بنانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس کا مسودہ محکمہ قانون تیار کر رہا ہے لیکن یہ قانون دیگر ریاستوں کے مقابلے سخت ہو گا۔ یوپی کے لو جہاد کی سزا کی مدت 7 سال ہوگی۔ دراصل لو جہاد کے فتنہ کو اس وقت زیادہ تقویت ملی جب الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک تبصرہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ شادی کے لئے تبدیلی مذہب ناجائز ہے۔ ہائی کورٹ کا یہی نظریہ ہندوتو کے لئے وردان بن گیا ہے۔ چنانچہ یوگی جی نے دوچار قدم آگے بڑھ کر یہاں تک دھمکی دے دی کہ جو لوگ لو جہاد کی آڑ میں بہن بیٹیوں کی عزت سے کھلواڑ کرتے ہیں ان کا رام نام ستیہ ہو جائے گا۔ اترپردیش کا لوجہاد قانون کتنا سخت ہوگا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا، لیکن اترپردیش سے اٹھی ہندوتو کی آواز پورے ملک کی نمائندگی کرتی ہے اور ایک طرح سے بی جے پی کے اقتدار وسیاست کو طاقت بخشتی ہے۔ اترپردیش کا ماحول لو جہاد کو لے کر مزید خراب ہو سکتا ہے۔ ماہرین قانون کہتے ہیں کہ ایسے قانون لانے سے نفرت بڑھے گی اور پیچیدگیاں بھی پیدا ہوں گی۔ لو جہاد ایک فتنہ ہے جسے بی جے پی نے اچھالا ہے۔حالانکہ ملک میں اسپیشل میرج ایکٹ 1954 بہت پہلے ہی سے موجود ہے، جو بین مذاہب شادیوں کے معاملے میں نافذ ہوتا ہے۔ نئے قانون سے اگر کچھ ہوتا ہے تو یہی کہ ملک کے نوجوانوں کی اپنی پسند کا شریک حیات چننے اور اپنے اعتقاد کے مطابق مذہب منتخب کرنے کے اختیار پر بھی پابندیاں لگیں گی۔ کیا یہ ایک سیکولر ملک کے لئے شرمناک بات نہیں ہے؟ کیا یہ ایک مہذب سماج کی توہین نہیں ہے؟

بہر حال آج کے اس دور کشاکش میں یہ بھی امید ہے کہ اس بے تکے قانون جسے ملک کا آئین تسلیم نہیں کرتا کیا خود اسے ملک کے عوام تسلیم کرلیں گے۔ کیونکہ پارلیمنٹ میں حکومت ہند کا موقف بھی واضح ہو چکا ہے۔ داخلی امور کے وزیر مملکت کشن ریڈی نے باضابطہ پارلیمنٹ میں اعلان کیا ہے کہ ہندوستان کے قانون میں لوجہاد کی کوئی تشریح نہیں ہے۔ تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کورونا اور معیشت کے بھیانک دور میں لو جہاد کا فتنہ کیوں اٹھایا جا رہا ہے۔ محبت میں بڑی طاقت ہوتی ہے، وہ مذہب، ذات، دھرم نہیں دیکھتی۔ نام نہاد لوجہاد یا ہند و مسلم شادی ذہنی اور جذباتی یکسانیت کی شادی ہوتی ہے۔ اس پر پابندی لگانا ویسے بھی تہذیب کو روندنا ہے۔ راجستھان کے وزیر اعلیٰ گہلوت کا کہنا ہے کہ محبت میں جہاد کی کوئی جگہ نہیں، محبت میں جہاد لفظ فرقہ پرستوں کی دین ہے۔ شادی کرنا انسان کا انفرادی اور آزادانہ معاملہ ہے اس کو روکنے کے لئے قانون بنانا خود ہندوستانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ بلاشبہ بی جے پی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کے لئے لوجہاد کا فتنہ کھڑا کر رہی ہے۔ یہ فتنہ اس وقت کھڑا ہو رہا ہے جب مغربی بنگال، پانڈیچری، تمل ناڈو، کیرالہ، آسام سمیت پانچ ریاستوں میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ آسام کے وزیر اعلیٰ سونووال نے اعلان کیا ہے کہ اگر دوبارہ بی جے پی کی حکومت بنتی ہے تو وہ لو جہاد میں ملوث افراد کو سزا دیں گے۔ وجے ورگیہ نے بھی کہا ہے کہ وہ بنگال میں لو جہاد کی جڑیں کاٹ دیں گے۔ اسی طرح کرناٹک، کیرالہ میں بھی الیکشن سے پہلے لو جہاد کو فلیتا لگا کر ہندوتو کو بھڑکایا جا رہا ہے۔ سب سے چونکانے والی بات تو یہ ہے کہ بہار جہاں اسمبلی الیکشن ختم ہوا ہے وہاں بھی لو جہاد کے خلاف قانون بنانے کا دباؤ بن رہا ہے۔ اب نتیش کمار ایک کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کے طور پر کام ضرور کر رہے ہیں، مگر مرکزی وزیر گری راج نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ لو جہاد پر قانون ملک کی ضرورت ہے، چنانچہ بہار میں بھی لو جہاد کو روکنے کے لئے قانون بنایا جائے گا۔ سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ جس سیکولر ملک میں ہم جنسی قابل تعزیر جرم نہیں اب۔ اسی ملک میں محبت کی شادی پر پابندی کیا جرم نہیں ہے اور سب سے بڑا سوال تو آج یہ ہے کہ اس سے قبل جو لوگ بین مذاہب شادیاں کر چکے ہیں ان کا کیا ہوگا؟ بقول طالب رامپوری:

دوستی، پیار، محبت نہیں کرنے دیتے
نیکیاں اہل سیاست نہیں کرنے دیتے

([email protected])

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close