Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

محاسبہ…………….سید فیصل علی

بہار میں چناوی مہابھارت کا اختتام ہو چکا ہے، تمام ایگزٹ پول میں مہاگٹھ بندھن کو این ڈی اے پر سبقت دکھایا گیا ہے، لیکن جیت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، کیا تیجسوی یادو کی آندھی نتیش کے اقتدار کو اڑالے جائے گی یا بی جے پی کا تگڑم بہار کا اقتدار سنبھالے گا اس کا پتہ 10 نومبر کو چلے گا۔ لیکن جیت ہار کے برعکس بہار کا الیکشن اس بات کا عندیہ ضرور ہے کہ ملک میں خوف کی دیواروں میں دراڑیں پڑچکی ہیں، عوام اب بولنے لگے ہیں، حق و ناحق کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ لوگ اب مندر، مسجد، چین پاکستان، کشمیر مسلمان وغیرہ کے جذباتی ایشوز سے نکلنے لگے ہیں۔ خاص کر بہار کا 52 فیصد نوجوان ووٹر مودی کے طلسم سے آزاد ہو چکا ہے، اب اسے اپنے روزگار، اپنی تعلیم اور اپنے مستقبل کی فکر ستانے لگی ہے۔ تیجسوی کے جلسوں میں نوجوانوں کی پرجوش بھیڑ اس بات کا غماز ہے کہ آج کا نوجوان تھکے تھکے روایتی سیاستدانوں کے بجائے تیزطرار قیادت کی کلپنا کرنے لگا ہے۔

تیجسوی یادو کے روپ میں اہل بہار کو ایک ایسا قائد ملا ہے، جو نفرت کی سیاست کے بجائے وکاس کا ایشو اٹھا رہا ہے۔ بزرگوں، نوجوانوں سے لے کر خواتین کی بہبودی کی باتیں کر رہا ہے۔ ہندو-مسلمان سب کو ساتھ لے کر چلنے کا یہ منظرنامہ بھگوا دھاریوں کے ماتھے پر بل ڈال دیا ہے، انہیں لگنے لگا ہے کہ بہار سے اٹھی آواز کہیں دلی کے سنگھاشن کو ہلا نہ دے۔ چنانچہ بہار کے چناوی مہابھارت کو ہرحال میں جیتنے کے لئے ہندو، مسلم کا ہتھکنڈا بھی استعمال ہوا، گرچہ وہ ہتھکنڈہ ہندوؤں میں ناکام ثابت ہوا، لیکن مسلمانوں کے ووٹ بکھیرنے کی سیاست کس حد تک کامیاب ہوئی ہے، اس پر میرے ذہن میں تشویش ہے۔

بہار میں 243 سیٹوں کے لئے جس طرح چناؤ ہوا، وہ اس بات کی علامت ہے کہ اب لوگ بیدار ہو چکے ہیں، مذہب، دھرم اور ہندوتو کا افیون اب پراثر نہیں رہا۔ انتخاب میں مودی کے نیشنل ایشوز کا عوام پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے، مجبوراً مودی کو فاربس گنج کے جلسے میں جے شری رام اور جے بھارت کا نعرہ لگانا پڑا، یوگی نے بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں کا مدعا بھی اٹھایا، لیکن تیجسوی کے وکاس کے ایشوز کی آندھی میں بھاجپا کے سارے بھگوا نعرے ہوا ہوگئے۔ حد تو یہ ہے کہ وزیراعلیٰ نتیش کمار کے جلسوں میں بھی جس طرح ان کی مخالفت ہوئی، مردہ باد کے نعرے لگائے گئے، پیاز پھیکے گئے، اس ناراضگی کو دیکھ کر نتیش کمار کو بھی عوام سے التجا کرنی پڑی کہ یہ ان کا آخری چناؤ ہے، مگر عوام پر اس التجا کا بھی اثر نہیں دیکھا گیا۔ بی جے پی نے تو نتیش کے خلاف اینٹی کمبینسی لہر کو پہلے ہی محسوس کر لیا تھا اور اس نے نتیش کو ڈمپ کرنے کے لئے لوجپا کے چراغ کو تیل فراہم کر دیا۔ مگر لوجپا کے چراغ سے نتیش کا آشیانہ تو جل جائے گا، لیکن بی جے پی کے اقتدار کا ایوان روشن ہوگا اس کا امکان کم ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ آخری مرحلے میں ہی بھاجپا اقتدار کے طوطے کی جان ہے۔ تیسرے مرحلے کی 78 سیٹوں سے ہی بھاجپا کی آخری امیدیں وابستہ ہیں، مسلم ووٹوں کا بھکراؤ اس امید کو تقویت دے گی، حالانکہ سیمانچل کے مسلمان 2015 کی طرح متحد رہے تو بھاجپا کی بازی ایک بار پھر پلٹ سکتے ہیں اور بہار کا کنگ میکر بن سکتے ہیں، لیکن یہاں تو سب سے بڑا خطرہ اویسی سے ہے، جنہوں نے 22 مسلم اکثریتی حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں، حتی کہ جہاں بی جے پی جیتنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی ہے، وہاں بھی مسلم امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ جو کی ہاٹ میں تسلیم الدین کے بیٹے سرفراز عالم کے مقابلے چھوٹے بیٹے شاہنواز کی پیٹھ ٹھونک دی ہے تو وہیں ٹھاکر گنج میں مہاگٹھ بندھن کے امیدوار مولانا اسرارالحق قاسمی مرحوم کے بیٹے مولانا سعود کے مقابلے میں حافظ محبوب جیسے با رسوخ مسلم امیدوار کھڑا ہے۔ امور میں جلیل مستان کے سامنے بھی ایسا ہی ہے۔ سیمانچل کے مسلم ووٹوں کا کیا ہوگا، اس پر آج پر ہرذی شعورفکر مند ہے۔ گرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیمانچل میں ہندو، مسلم کارڈ فیل ہوچکا ہے، بدلاؤ کی لہر چل رہی ہے، مگر تشویش تو یہ ہے کہ مودی کی بھاشنوں سے یہاں کے ہندو تو متاثر نہیں ہوئے، لیکن اویسی مسلمانوں کو جذباتی بھنور میں ضرور ڈال سکتے ہیں۔ اس بات کو لے کر میرے دل میں بھی تھوڑی تشویش ہے۔

الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی ہو، تیجسوی جیتیں یا ہاریں، مگر انہوں نے سیاست کا رخ ضرور تبدیل کر دیا ہے۔ بہار میں تیجسوی ایک بڑا نام بن چکا ہے۔ بہار کو ایک ایسا لیڈر مل چکا ہے، جو مودی کی آنکھوں میں آنکھ ملاکر بھی بات کر سکتا ہے۔ ویسے بھی بہار میں تیجسوی کا مقابلہ نتیش سے نہیں مودی سے ہے۔ انہوں نے جس طرح ایک ایک دن میں 18-18 ریلیاں کیں، وہ ایک تاریخی ریکارڈ ہے۔ بی جے پی کی طرف سے مودی، یوگی سمیت 12 وزراء اور 18 بڑے لیڈر 30 ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ تیجسوی کے ایک ہیلی کاپٹر کو گھیرنے میں لگے ہوئے تھے، تیجسوی نے 30 لیڈروں کے مقابلے اکیلے ہی 251 جلسوں میں حصہ لیا اور ان جلسوں میں جس طرح عوامی سیلاب نظر آیا، وہ بھی ان کی مقبولیت کا آئینہ ہے، مگر بہار میں فرقہ پرست یا شرپسند مدعوں پر اچھل کود کے بجائے تیجسوی نے سنجیدہ ایشوز پر چناؤ لڑا۔ آزاد ہندوستان میں یہ پہلا منظرنامہ ہے، جس میں روزگار، معیشت اور عام مسائل کے ایشوز پر چناؤ لڑا گیا۔ بھاجپا جسے چناؤ میں ہندو احیا پرستی اور نفرت کی سیاست میں مہارت حاصل ہے، لیکن تیجسوی کی موجودگی میں مودی، یوگی، گری راج اور نڈا سمیت 29 بھاجپائی سورماؤں کی بہار میں دال نہیں گلی، ایک 31 سالہ کے نوجوان نے نہ صرف ہندوتو کا پانسا پلٹ دیا، بلکہ قومی سیاست کو بھی نیا موڑ دے دیا ہے۔ تیجسوی نے نوجوانوں کو نوکری اور عوام کی فلاح کو سامنے لاکر بھگوا دھاریوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ پیٹ کی آگ کے سامنے ہر ایشو بیکار ہے۔ کورونا کے باوجود تیجسوی کے جلسوں میں امنڈے عوامی جن سیلاب نے قومی سطح پر یہ ثابت کردیا کہ ’’تیجسوی طے ہے‘‘۔ اب یہ اور بات ہے کہ وہ قومی سیاست کے ہیرو بنیں گے یا بہار کا تاج ان کے سر پر ہوگا۔

تیجسوی کی مقبولیت، ان کا انداز خطابت، ان کی فکر و سیاست اور ان کے ایشوز چناوی نتائج سے کہیں اوپر کی جیت ہے۔ آج تیجسوی آسمان سیاست کا ایسا ستارہ بن چکے ہیں، جن کا انداز خطابت مخصوص ہے۔ متحمل مزاج، شائستہ انداز تکلم، خاص کر ان کا بھوجپوری انداز یا علاقائی زبان میں عوام سے جڑنے میں کوئی ان کا ثانی نہیں ہے۔ وہ لالو پرساد کی سیاسی وراثت کے امین ہی نہیں، بلکہ مظلوموں، اقلیتوں، اور پچھڑوں کی آواز بن کر سامنے آئے ہیں۔ اپنے دم پر چناؤ لڑنے والے تیجسوی جس طرح بہار کے عوام کے دلوں پر چھا گئے ہیں کہ مودی کو کہنا پڑا کہ یہ جنگل راج کا یووراج ہے، حالانکہ تیجسوی کی سابقہ کارکردگیوں کا کبھی چرچا نہیں ہوتا، وہ جب 2018 میں نائب وزیراعلیٰ تھے تو ان کے دور کے کاموں کا ذکر نہیں ہوتا، وہ بہترین کرکٹر بھی رہے ہیں، انہوں نے انڈر16-کرکٹ کی کپتانی کی ہے۔ وراٹ کوہلی جس پر ہندوستان کو ناز ہے، وہ بھی تیجسوی کی کپتانی میں کھیل چکے ہیں۔ اسی موقع پر دلپ وینگسرکر نے وراٹ کو دیکھا تھا اور ان کا ٹیم میں سلیکشن ہو گیا تھا۔

بہرحال چناوی نتائج سے الگ تیجسوی کی جو سیاسی شخصیت ابھری ہے، وہ جیت ہار سے کہیں بلند ہے، جس طرح انہوں نے بہار سے وکاس کا ایشو اٹھایا ہے، بنیادی مسائل، کمائی، دوائی، سینچائی، پڑھائی، سنوائی اور کارروائی پر اپنی سیاست فوکس کی ہے، اس سیاست نے ہندوتو کی سیاست کی ہوا نکال دی ہے۔ یہ بہار کا الیکشن ہندوستان کیلئے خوش آئند سندیشہ ہے کہ اب ہندوستان میں بنیادی مسائل اور وکاس کے ایشوز پر بھی الیکشن لڑے جا سکتے ہیں۔ بقول اکبرالٰہ آبادی:

لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

([email protected])

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close