Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

تاریخ، تہذیب و ثقافت کا مرکز….اسکندریہ

اپنے دامن میں عجائبات کے خزینے رکھنے والے 7 ملکوں میں مصر کا نام کافی اہمیت کا حامل ہے۔ مصر کا ماضی بھی تاریخ کا روشن باب رہا ہے اور حال بھی دنیا کے لئے مثال ہے۔ اس ملک کی تاریخ و تہذیب دنیا کے لئے آج بھی موضوع تحقیق ہے، مصر کے قدیم فرماں روا فراعین کی ممیاں، حضرت موسیٰ اور فرعون کی معرکہ آرائی، فرعون کی افواج کی دریائے نیل میں غرقابی، حضرت یوسف و زلیخا کی داستانوں سمیت جانے کتنی تاریخی داستانیں مصر کی تہذیب و تاریخ میں پنہاں ہیں۔ کئی برس قبل خدائی کا دعوی کرنے والے فرعون کی وہ لاش بھی دریافت ہو گئی ہے، جس پر سائنسداں بھی حیراں ہیں کہ 14 سو سال قبل قرآن نے یہ راز منکشف کر دیا تھاکہ ترجمہ: ہم نے دریائے غرقاب فرعون کی لاش محفوظ کر دی ہے تاکہ دنیا عبرت لے۔ سائنسدانوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ لاش پر نمکیات کے اثرات پائے گئے ہیں جو اس بات کے ثبوت ہیں کہ یہ کسی دریا برد شخص کی لاش ہے، جس کی موت پانی میں ہوئی ہے۔ مصر دور قدیم سے ہی اسرار ورموز کا خطہ رہا ہے، ابوالہول کے مجسمے، وہاں کی تعمیری عمارتیں، نیل ندی کی تہذیب آج بھی دنیا کے یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ رہی ہے۔ آج بھی مصر کی تہذیب و تاریخ پر تحقیق چل رہی ہے۔ مصر کی عظمت کی ہی کشش نے سکندر اعظم کو یہاں آنے پر مجبور کر دیا تھا۔ 332 قبل مسیح سکندر اعظم نے قاہرہ سے 225 کلو میٹر دور ایک شہر بسایا تھا جو اسکندریہ کے نام سے آج بھی اپنی عظمت کا امین بنا ہوا ہے۔ حالانکہ اسکندریہ فراعین مصر کے دور اقتدار میں بھی کافی اہمیت کا حامل تھا۔ یہاں فرعون کے ذریعہ ایک ایسا لائٹ ہاؤس بنایا گیا تھا، جو دنیا کے لئے سات عجائبات میں ایک مثال بن گیا۔ مگر سکندر کی آمد کی وجہ سے یہاں یونانی تہذیب و ثقافت کا بھی گہرا اثر پڑا۔ اسکندریہ مصر کا ایک ایسا عظیم وقدیم شہر ہے جس کا دنیا سے سڑکوں کے ذریعہ بھی رابطہ ہے اور یہ شہر بحری راستے سے بھی عالمی تجارت کو فروغ دینے کا کلیدی رول ادا کر رہا ہے۔ اسکندریہ کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہ قدیم شہر مصر کے نہ صرف تہذیبی و ثقافتی ورثے کا گواہ ہے بلکہ سائنسی فلاسفی اور لٹریری غور وفکر کا بھی ایک اہم مرکز ہے۔ یہاں کی لائبریری پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہ لائبریری اس بات کی شاہد ہے کہ مصر کا یہ شہر علم و فن کا ایسا گہوارہ ہے، جہاں آج بھی دنیا کے مؤرخ، فلاسفر، آرٹسٹ، سائنس داں، ماہرین فلکیات مصر کی تاریخ و تہذیب، اسرار ورموز جاننے کے لئے اسکندریہ آتے ہیں اور علم کا خزانہ سمیٹ کر لوٹ جاتے ہیں۔ یہاں کی تاریخی عمارتیں خاص کر مسجدیں آج بھی اسکندریہ کی شان و شوکت کی علامت نظر آتی ہیں۔ غرض یہ کہ مصر کے طرز حیات دیکھنے کے لئے دنیا کے سیاح اسکندریہ جاتے ہیں اور صرف اسکندریہ کو دیکھنے پرکھنے کے بعد انہیں پتہ چل جاتا ہے۔ آج مصر کیا ہے، مصر کا ماضی کیسا رہا ہوگا۔ زیر نظر مضمون اسکندریہ کی تاریخ و تہذیب کے مناظر میں مصر کی زریں تاریخ و تہذیب کو اجاگر کرتا ہے:

مصر کا دوسرا سب سے بڑا شہر اسکندریہ ہے جوکہ ’بحیرہ روم کا موتی‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں پر مشرق وسطیٰ کی مانند ماحولیات نہیں ہے بلکہ یہاں پر بحیرہ روم کی فضا بہت زیادہ اثر انداز ہے۔ علاوہ ازیں ماحولیات اور ثقافتی ورثہ کے اعتبار سے یہ شہر ملک کے دیگر شہروں سے مختلف ہے وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ یہاں سے قاہرہ محض 225 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ 2007 میں منعقد ہونے والی آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس میں اسے اسلامک کلچر کی راجدھانی قرار دیا گیا تھا۔ اسکندریہ میں رہنے والے لوگوں کو اس بات کا فخر ہے کہ وہ یہاں کے باشندے ہیں۔ وسیع و عریض کھلے سمندر کے دلکش پس منظر، روایتی کثیر الاضلاع مقامات اور پوری دنیا میں معروف اور مقبول، ثقافتی، معاشرہ اس شہر کی ایسی خصوصیات ہیں، جس کی اس سے بہتر دوسری کوئی مثال ہی موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکندریہ اپنے ماضی کی تابناک شان و شوکت، قدیم ثقافت اور دانشوارانہ افکار میں انفرادیت کا حامل ہونے کی وجہ سے ہمیشہ مرکزی توجہ کا محور رہا ہے۔ اس کے بعد یہ شہر ہجرت کرنے والے لوگوں کے لئے ایک فرحت افزا مقام بن گیا تھا، آج اس شہر کے بارے میں اس بات کی اکثر تشہیر کی جاتی ہے۔ تعطیلات کے دوران شدید گرمی سے راحت حاصل کرنے کیلئے یہاں کے لوگ قاہرہ چلے جاتے ہیں اور اس وقت دستیاب ہونے والی تمام دریافتوں کو اس شہر سے روم اور یونان کی شاندار تاریخ سے منسوب کر دیتے ہیں۔

سکندر اعظم نے 332 قبل مسیح اس شہر کو آباد کیا تھا جوکہ یونانی، رومن مصر کی راجدھانی بن گیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق فرعون کے ذریعہ ایک افسانوی (Legendary) لائٹ ہاؤس کرایا گیا تھا، جس نے یہاں پر تہذیب و ثقافت کے ایک روش مینارہ (Beacon) کا درجہ حاصل کر لیا تھا، جس کو دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک عجوبہ قرار دیا گیا ہے۔ پوری دنیا سے رابطہ قائم کرنے والی سڑکو ں کے چوراہے پر واقع اس ساحلی شہر نے عالمی تجارت کو فروغ دینے میں ہمیشہ کلیدی رول ادا کیا ہے۔ یہاں پر اس شہر کی دانشورانہ اقتصادی صورتحال کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ قدیم اسکندریہ سائنسی، فلاسفی اور ادبی غور و فکر کا ایک معروف مرکز ہے، جہاں پر مباحثات کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس شہر کی مشہور لائبریری میں تقریباً 500000 کتابوں کے علاوہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور میوزیم ایسے ہیں جوکہ اس دور کے دانشورانہ عوامل کو منظر عام پر لاتے ہیں۔ آج اسکندریہ کا کتب خانہ (Biliotheca Alexandrina) قدیم لائبریری کی جدید شکل میں موجود ہے، جس نے اس شہر کی مقبولیت میں اضافہ کر دیا ہے بلکہ یہ ایک ایسی جگہ بن گئی ہے، جہاں پر تاریخ داں، فلاسفر، آرٹسٹ سائنس داں و ریاضی داں میٹنگ کرتے ہیں۔

20 ویں صدی شروع ہوتے ہی یونانی، اطالوی اور یوروپی ممالک کے کثیر تعداد میں مہاجرین یہاں آباد ہو گئے تھے۔ اس دور کی وراثت جن میں زیادہ تر تصانیف اسکندریہ کے بارے میں ہیں، ان کو ترتیب دیا گیا تھا۔ لارینس ڈوریل (Lawrence Durell) کی تصنیف دی الیگزینڈریا کو ارٹیٹ (The Aexandria Qurtet)، یونانی شاعر کو نسٹینٹائن کیولیفی (Constantine Cavafy) اور نگیوب محفوظ کا ناول میرامار (Miramar) نہ صرف قابل ذکر ہیں بلکہ آج کے جدید دور میں بھی ان کی افادیت برقرار ہے۔ نہایت ہوشیاری کے ساتھ تیار کئے گئے سائن پوسٹ (Signpost) مصر کے شہری طرز حیات نہایت مقبول ہیں، جن سے مارکیٹوں، کیفوں، ریسٹورینٹوں اور ہوٹلوں کو تلاش کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ یہاں کے باشندوں نے مشترکہ طور پر اس طرز کی تقلید کی ہے۔ ان سے ان معروف عمارتوں کی عکاسی ہوتی ہے جوکہ اسکندریہ کی تنظیموں میں تبدیل ہوگئی تھیں۔ سیسل (Cecil) اور میٹرو پول ہوٹلس (Metropole Hotels) اسی زمرہ میں آتے ہیں۔ ان دونوں کو ماضی کے ذی وقار مہمانوں کا روسٹر رکھنے کا شرف حاصل ہے۔ اسکندریہ میں قابل دید جو دیگر مقامات ہیں ان میں اسکندریہ کی لائبریری اور عطارین مسجد (Attarine Mosque) بھی شامل ہیں۔

کسی زمانے میں یہ لائبریری دنیا کی سب سے بڑی لائبریری ہوا کرتی تھی۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تیسری قبل مسیح صدی کے آغاز میں مصر کے ٹالیمی دوئم (Ptolemy II) کے دور میں یہ قائم کی گئی تھی۔ چنانچہ اسکندریہ کی حدود میں واقع عطارین ضلع نہایت ہی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا قدیم ضلع ہے، جہاں پر عہد پارینہ کی بے شمار دکانیں ہیں، جہاں پر نیپولین کے دور کے بہت سے نوادرات جیسے یوروپی فرنیچر اور زیوارت دستیاب ہو جاتے ہیں۔

اسی مخصوص علاقے کے درمیان میں عطارین مسجد واقع ہے۔ یہاں کی سڑک کا نام بھی عطارین مسجد سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بنیادی طور پر یہ مسجد ایک گرجا گھر تھی۔ جب مصر میں اسلام ظہور پذیر ہو گیا تو اس گرجا گھر کو ایک چھوٹی سی مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ آخر کار اس کی تعمیر نو کرائی گئی اور یہ ایک ہزار ستونوں والی مسجد کے طور پر معروف ہو گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب یہ مسجد پرانی ہوگئی تو فاطمی دور میں اس کی چھتیں خستہ حال ہو گئی تھیں۔ اس وقت فوج کے ایک جنرل بدرال جمالی (Bader El Jamaly) نے 1057 عیسوی (449ہجری) میں مرمت کرا کے عطارین مسجد کو بحال کرایا تھا۔ اس کے بعد اس مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے نمازی جمع ہونے لگے تھے۔

جدید اسکندریہ میں قدیم ترین اور طویل حصے میں ایک پکی سڑک ہے جوکہ میدانی علاقہ کے ساتھ ساتھ کسی زمانے میں فرعونی جزیرہ کے علاوہ گمروک (Gumrok) کے اضلاع کو جوڑتی تھی۔ گمروک کو 16 ویں صدی سے منسوب کیا جاتا ہے اور وہ اس وقت وہ کسٹم ضلع کے طور پر معروف تھا۔انفوشی (Anfushi) اور راس الطین (Ras el Tine) یہ دونوں اضلاع محمد علی (1805-49) کے دور میں وجود میں آئے تھے۔ مجموعی طور پر مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے باشندوں نے انہیں ٹرکش کوارٹر (Turkish Quarter) قرار دیا تھا۔ اسکندریہ کے باشندوں نے برسوں تک بہت سے نشیب و فراز دیکھے تھے۔ خصوصی طور پر 17ویں صدی میں وہ ایک متعدی بیماری پلیگ (Plague) کے عارضہ میں مبتلا ہو گئے تھے۔ اس ملک کا علاقہ کسی قدر انگریزی کے حرف ٹی (T) کی شکل کا ہے جہاں پر مشرقی بندرگاہ اسی وجہ سے مغربی بندرگاہ سے الگ ہو گئی ہے۔ اسکندریہ کی انتظامیہ (Governorate) نے مصر کی وزارت برائے ثقافت کے تعاون سے نہ صرف اس شہر کے لئے ایک یادگاری لوگو (Logo) وضع کیا تھا بلکہ ڈاک ٹکٹ جاری کرنے کا بھی منصوبہ بنایا تھا۔

وزارت برائے سیاحت اور ثقافت کے افسران نے گیارہ سال قبل ہی اسکندریہ کی اسلامی تہذیب کی تاریخ اور اسلام کے تعلق سے جانکاری فراہم کرنے والی ایک نئی کتاب پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ اسکندریہ کی تاریخ درحقیقت وہاں کی تہذیب و تمدن کا متواتر ایک ایسا ریکارڈ ہے، جس میں مختلف تبدیلیوں کے رنگ نظر آتے ہیں، جن سے وہاں پر سائنس، سیاست، آرٹ، ادب اور دیگر علوم کے بارے میں جانکاری ملتی ہے۔ چنانچہ یہاں پر موجود ثقافتی چیزوں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ ان بے شمار چیزوں کا تعلق روم، یونان، مملوک اور عثمانی دور سے رہا ہوگا۔ دیگر بہت سے معروف مقامات میں مدفن (Cata comb) رومن ڈرامہ گھر (Amphitheatre)، پامینی کا مینار، قیت بے کا قلعہ، شاہی زیورات کا میوزیم، شاندار باغات سے آراستہ مونٹازا محل (Montazah Palace) اور دیگر شاہی محلات قابل ذکر ہیں۔

گزشتہ برسوں میں مشرقی بندرگاہ اور ابو قیر میں پانی کی سطح کے نیچے بہت گہرائی تک آرکیالوجیکل کھدائی کرنے کی وجہ سے بھی اسکندریہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ واضح رہے کہ گہرے سمندر میں کھدائی کرنے والے بہت سی نادر چیزیں جیسے ابولہول (Spinxes) یاد گاری ستون، کالم، مٹی کے برتن اور مجسمے باہر لائے تھے جوکہ اس وقت اسکندریہ کے رومن تھیٹر میں نمائش کے لئے رکھ دیئے گئے ہیں۔ 13ویں صدی تک یہ شہر ٹاوروں سے آراستہ پانچ میل طویل دیواروں سے گھرا ہوا ایک فصیل بند شہر تھا لیکن بیسیویں صدی میں اس کی ہیئت تبدیل ہو گئی تھی اور 1900 کی دہائی میں سمندر کے 100 میٹر علاقہ کو پاٹ کر اسے زمینی علاقے سے مربوط کر دیا گیا تھا چنانچہ ساحل تک رسائی کرنے والے لوگوں میں یہ علاقہ مقبول ہو گیا تھا اور آج بھی مقبول ہے۔

اسکندریہ کے تعلق سے لٹریچر بھی دستیاب ہے۔ چین، ویس امپیریور (JeanYves Empereur) کی تصنیف الیگزینڈریا ڈسکورڈ (Alexandria Discovered) میں اسکندریہ کے بارے میں زبردست جانکاری دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پہلی جنگ عظیم کے دوران یہاں قیام کرنے والے انگریزی کے ناول نگار ای ایم فوسٹر (EM.Foster) نے ایک کتاب الیگزینڈریا: اے ہسٹری اینڈ گائیڈ تصنیف کی تھی، جس میں کچھ تصاویر بھی شامل کی گئی تھیں۔ یہ کتاب بھی اسکندریہ کے با رے میں تفصیلی جانکاری حاصل کرنے کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب اسکندریہ کا موازنہ روم سے کیا جاتا ہے تو پھر آثار قدیمہ کے ما ہرین نے 19ویں صدی میں اس کے بجائے مصر میں موجود قدیم باقایت کی جانب زیادہ توجہ کیوں دی تھی۔ کسی قدر استثنیٰ کے ساتھ ان میں سے زیادہ تر کی دلچسپی سکندر اعظم کے مقبرے کو دیکھنے کی تھی لیکن جب وہ اس کا پتہ لگانے میں ناکام ہو گئے تھے تو انہوں نے اپنی توجہ دوسری جانب منتقل کرلی تھی۔

بہرکیف مذکورہ بالا سطور کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا انکشاف ہو جاتا ہے کہ بہت سے نشیب وفراز کے بعد اسکندریہ جدید دور میں داخل ہو گیا ہے۔ ظہور اسلام کے بعد مملوک اور عثمانی دور اقتدار میں یہاں پر اسلامی تعلیمات کو فروغ ملنا شروع ہو گیا تھا اور یہاں کے معاشرہ پر اسلامی تہذیب و ثقافت کے اقدار اثر انداز ہو گئے تھے۔ سیاحت کے نظریہ سے بھی اسکندریہ اہم ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں پر مسجدیں تعمیر کرانے کا اشتیاق بھی فروغ پانے لگا ہے۔ اسکندریہ جوکہ سکندر اعظم کے ذریعہ آباد کیا گیا تھا، وہ آج نہ صرف مسلمانوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے بلکہ غیر ممالک اور مغربی ممالک کے باشندے بھی اس کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔ جس طرح بہتا ہوا پانی خود اپنا راستہ تلاش کر لیتا ہے اسی طرح دنیا کے کسی بھی گوشہ میں اسلام خود بخود اپنے فروغ کی راہیں تلاش کر لیتا ہے۔ چنانچہ اس میں شک وشبہ کی ذرا سی بھی گنجائش نہیں ہے کہ اسکندریہ اسلامی ضیاء اور تہذیب و تمدن کی ایک درخشاں راجدھانی ہے۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close