Khabar Mantra
محاسبہ

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم

محاسبہ...........................سید فیصل علی

ملک اب تک کے الیکشن کے سب سے اہم دور سے گزر رہا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے چار مرحلے پورے ہو چکے ہیں۔ دو تہائی یعنی 374 سیٹوں پر انتخابی عمل مکمل ہو چکا ہے۔ صرف تین مرحلہ کے الیکشن باقی ہیں لیکن ان تین مرحلوں کی 171 سیٹوں پر انتخاب حکومت وقت کے آگے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ان تین مرحلوں کے الیکشن میں ہی بی جے پی اقتدار کے طوطے کی جان پوشیدہ ہے۔ لہذا، بی جے پی نے اپنی بقا کے لئے تمام تر حربے استعمال کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ اس نے اپنی قوت، دولت، حرفت اور زہریلی سیاست ان آخری دور کے انتخابات میں جھونک رکھی ہے۔ اب بڑے زور شور سے راشٹر پریم، دیش بھکتی، ایئر اسٹرائک کا نقارہ بجایا جا رہا ہے۔ مودی ہی ملک کو بچا سکتا ہے، دشمنوں سے لوہا لے سکتا ہے اور نعرہ لگایا جا رہا ہے دیش پریم کے نام پر ٹی وی پر چیخ و پکار کی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی مودی مودی کی یلغار ہے۔ ’’مودی پھر ایک بار‘‘ کا شور ہے لیکن یہ بھی قدرت کی عجب مار ہے کہ لوگ اب نہ تو ٹی وی کے شوروغل سے متاثر ہو رہے ہیں اور نہ ہی سوشل میڈیا پر بی جے پی کی تشہیر کام آ رہی ہے بلکہ معاملہ الٹا پڑ گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے اس تشہیر کا جواب بھی دیا جا رہا ہے۔

2014 میں جس ٹی وی اور سوشل میڈیا نے مودی کو ہیرو بناکر پیش کیا تھا اور اقتدار تک پہنچایا تھا، اب وہی میڈیا مودی کو ہیرو بنانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ ٹی وی پر مودی کے انٹرویو کو پیڈ نیوز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ وقت کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہندوستانی ذرائع ابلاغ خاص کر ٹی وی چینل عوام میں اپنی معتبریت تقریباً کھو چکے ہیں جس تشہیر وشور وغل کے ساتھ بی جے پی کی دہلی اقتدار میں دھماکہ دار انٹری ہوئی تھی اب اس تشہیر کے غبارے کی ہوا نکل چکی ہے۔ تمام تر سیاسی قوت، دولت و حرفت کے باوجود بی جے پی کو الیکشن کے ہر محاذ پر منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ اچھے دنوں کا خواب دکھانے والوں کو عوام سپنوں کا سوداگر قرار دے رہے ہیں۔ مہنگائی، نوٹ بندی، جی ایس ٹی، بے روزگاری، کسانوں کی خستہ حالی ،چھوٹے تاجروں و دکان داروں کی بدحالی، دفاعی سودوں میں بدعنوانی، شرح نمو میں گراوٹ وغیرہ وغیرہ سب سوالی بن کر کھڑے ہیں۔ ہر اکاؤنٹ میں 15 لاکھ آنے کا وعدہ دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ شاید انہی کانٹوں کی کسک عوام کا خاموش احتجاج بن کر چار مرحلوں میں ظاہر ہو چکی ہے۔

بلاشبہ ان چار مرحلوں میں ہوئے انتخاب کے ذریعہ عوام نے خواب دکھانے والوں کے قدموں میں زنجیریں ڈالنے کی پیش رفت کر دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی بوکھلاہٹ انتہا کو ہے وہ مغلظات پر اتر آئی ہے۔ بنارس میں مودی کے خلاف الیکشن لڑنے والے 51 کسانوں اور فوجی تیج بہادر کی عرضیاں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ ضابطۂ اخلاق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ وقت کا یہ بھی عجب منظر نامہ ہے کہ جو کام الیکشن کمیشن کو کرنا چاہیے وہ سپریم کورٹ کر رہا ہے۔ اس نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ وہ 6 مئی تک مودی اور شاہ کے معاملات میں فیصلہ کرے۔ ای وی ایم کے معاملہ میں بھی سپریم کورٹ میں سماعت ہو رہی ہے یعنی کہ اب اونٹ پہاڑ کے نیچے آ چکا ہے۔

مجھے امید ہے کہ بقیہ تین مرحلہ کے الیکشن میں بھی عوام فسطائی قوتوں کے قدموں میں ایسی موٹی زنجیر ڈالیں گے کہ وہ عرصہ ٔ دراز تک ملک کی سیکولر شبہیہ مسخ کرنے اور نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی جرأت بھی نہیں کریں گی۔ گنگا جمنی تہذیب و دیرینہ سنسکار و اقدار، بھائی چارہ جو خوف سے دبکے ہوئے ہیں وہ ہمت کے ساتھ لوٹ آئیں گے۔ الیکشن میں ملک کا سیکولزم، آئین وعدلیہ، انتظامیہ، قانون کو یرغمال بنانے والوں کی سیاست کو عوام پامال کر دیں گے۔

تین مرحلوں میں اتر پردیش، بہار، بنگال، پنجاب، جھارکھنڈ، راجستھان، مدھیہ پردیش میں ووٹنگ ہوگی۔ پنجاب، مدھیہ پردیش، راجستھان میں اب کانگریس کا اقتدار ہے، وہاں بی جے پی کی دوبارہ دال کو گلانا مشکل ہے۔ لہذا، الیکشن کے یہ تین مرحلے، جو 6, 12 اور 19 مئی کو پورے ہوں گے بی جے پی کے لئے ایک آئرن گیٹ سے کم نہیں ہیں۔ میں بھی بہار کے شیوہر پارلیمانی حلقہ سے مہاگٹھ بندھن کے آر جے ڈی امید وار کے طور پر میدان میں ہوں اور یہاں کے درد سے دو چار ہوں۔ شیوہر کے عوام کی آنکھوں میں اچھے دنوں کا خواب 2014 سے نہیں کئی دہائی سے کروٹیں لے رہا ہے۔ یہاں بی جے پی دو ٹرم سے پارلیمانی نمائندگی کر رہی ہے لیکن شیوہر میں اچھے دنوں کی آمد محض ایک جملہ بن کر رہ گیا ہے۔ سڑکیں بدحال ہیں، اسپتال نہیں معیاری تعلمی ادارے نہیں، شیوہر ضلع تو بن گیا ہے لیکن اس کے اندر ضلع والی کوئی بات نہیں۔ شیوہر آج بھی تعلیم، صحت، روزگار و دیگر معاملات میں مظفر پور، موتیہاری اور پٹنہ کا محتاج ہے۔ کاش یہاں بیلوا پل، پھلوریا پل بن گئے ہوتے، اسے ریل لائن سے جوڑ دیا گیا ہوتا تو شیوہر آج ترقی کی نئی راہ پر گامزن ہوتا لیکن اوپر والے کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ میرا عزم ہے کہ میں شیوہر کی ترقی کے لئے راہیں نکالوں۔ بیلوا پل، پھلوریا پل اور ریل لائن کے ادھورے منصوبے کو پورا کروں۔ یہاں کے نوجوانوں کے لئے روزگار و معیاری تعلیم کے لئے ٹھوس قدم اٹھاؤں۔ اس کے لئے پورے طور پر حکومت پر بھروسہ کرنے کے بجائے دوسرے ذرائع کا بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ ملک میں ایسے بڑے بڑے عالمی این جی اوز اور کارپوریٹ گھرانے ہیں، جو فلاحی کاموں میں فنڈ لگاتے ہیں۔

شیوہر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں 18 لاکھ ووٹر ہیں جبکہ عام طور پر ایک پارلیمانی حلقہ میں بارہ تیرہ لاکھ ووٹر ہوتے ہیں لیکن شیوہر میں ڈیڑھ گنا ووٹروں کے باوجود ترقیاتی کاموں کا نہ ہونا بے حسی کی انتہا ہے اور اہل شیوہر کی توہین ہے۔ شیوہر کے عوام کی آنکھوں میں فخر وانبساط اور ترقی کی چمک دیکھنا میرا مقصد ہے۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ صحافت سے میدان سیاست میں میری آمد نئی۔نئی ہے لیکن جس طرح شیوہر کے عوام خاص کر پسماندہ طبقات، دلتوں، یادووں اور مسلمانوں نے مجھ پر بھروسہ کیا ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ بھروسہ ہمیشہ قائم رہے۔

ملک آج بہت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ شیوہر کے ذی شعور عوام کو بھی اس کا احساس ہوگا۔ مظلوم طبقات کی آواز اور سیکولر تہذیب کے علمبردار لالو پرساد یادو سازش کے تحت جیل میں بند ہیں، مگر اسیری کے باوجود لالو پرساد کا حوصلہ بلند ہے۔ اسی حوصلہ کا نتیجہ ہے کہ میں شیوہر کے انتخابی میدان میں فرقہ پرست قوتوں کے خلاف کھڑا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ مہا گٹھ بندھن کے پانچ پانڈو راہل گاندھی، جیتن رام مانجھی، تیجسوی یادو، اپیندر کشواہا، مکیش ساہنی کی قیادت اس انتخابی مہا بھارت میں نفرت کی سیاست کو شکست دے کر محبت، برابری، ترقی، خوشحالی اور انصاف کا پرچم بلند کرے گی۔ راہل گاندھی کا نیائے انیائے پر حاوی ہوگا۔ بہار سے اٹھی انقلاب کی نئی دھمک ملک میں بھی گونجے گی۔

کل سے ماہ مقدس کا آغاز ہو رہا ہے۔ رمضان کا مہینہ خیر و برکت و احتساب کا مہینہ ہے۔ یہ ماہ صیام ہر مسلمان کے لئے ایک امتحان ہے۔ شیوہر میں الیکشن بھی ماہ رمضان میں ہو رہا ہے۔ مجھے بھی اس ماہ مقدس میں دو دو امتحان سے گزرنا ہے لیکن مجھے اللہ کی کبریائی پر پورا یقین ہے کہ وہ میرے نیک مقاصد کی تکمیل کی راہیں نکالے گا۔ شیوہر کی ترقی جگ ظاہر ہوگی۔ اہل شیوہر کی آنکھوں میں خوشی اور امید کی چمک ہوگی۔ شیوہر ایک مثالی ضلع بن کر ملک میں نام پیدا کرے گا۔ شیوہر کی تاریخی عظمت کا ہر سمت شہرہ ہوگا۔ بقول اقبال ؔ

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں

 

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close