Khabar Mantra
مسلمانوں کاعالمی منظر نامہ

بادشاہی مسجد مغل طرز تعمیر کی عظمت

بھلے ہی آج مغل حکمران فسطائی طاقت کے نشانے پر ہیں، لیکن یہ مغل ہی تھے، جنہوں نے متحدہ ہندوستان کے خواب کو تعبیر دی۔ راجے،رجواڑوں یا چکر ورتی سمراٹ کسی میں دم نہیں تھا کہ برما سے لے کر افغانستان تک حکومت کا خواب دیکھے۔ یہ مسلم حکمراں ہی تھے، جنہوں نے ہندوستان کو تعمیرات کی شکل میں دنیا کو متوجہ کرنے کی جرأت دکھائی۔ لال قلعہ،تاج محل، قطب مینار سے لے کر دیگر کئی عمارتوں کو بنوا کر مسلم حکمرانوں نے اس ملک کی عظمت کو جلا بخشی ہے۔ مغلوں نے تعمیرات کی دنیا میں بہترین مثال پیش کی ہے کہ دنیا بھی اس پر حیران ہے۔ مغل آرٹ، مغلئی ڈِشیں، مغل تہذیب و آداب جب ہندوستانی ثقافت میں ضم ہوئیں، تو گنگا جمنی تہذیب کا ایسا منظر ابھرا کہ جسے دیکھنے کے لئے دنیا بھر کے سیاح ہندوستان آنے لگے۔ تاج محل، لال قلعہ دہلی کی جامع مسجد، قطب مینار وغیرہ سے لے کر لکھنؤ، فیض آباد، اورنگ آباد، حیدر آباد، بنگلورو، کولکاتا، عظیم آباد (پٹنہ) وغیرہ وغیرہ تک بے شمار تاریخی عمارتیں آج بھی مسلم حکمرانوں کی تعمیراتی خدمات اور جا ہ و جلال کی گواہ ہیں۔ مغلیہ حکومت میں اورنگ زیب کو ایک کٹر مسلمان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ اس بادشاہ نے ہندوستان پر سب سے زیادہ حکومت کی۔ پچاس برس تک یہ بادشاہ جنگی معرکوں میں سر گرم رہا۔ یہی وہ بادشاہ تھا، جس کے دور میں متحدہ ہندوستان دنیا میں عظمت کا نشان بن گیا تھا اور پھر زمانہ کی نظر لگی۔ فرنگی سیاست حکمرانوں کی عیاشیوں نے ہندوستان کو محکوم کر دیا۔ مگر تمام تر محکومیت اور غلامی کے باوجود ہندوستان کی عظمت میں کمی نہیں آئی اور یہ عظمت بلاشبہ یہاں کی تعمیراتی وراثت کو اورنگ زیب پر الزام لگتا ہے کہ اس نے تعمیراتی کام میں دلچسپی کم دکھائی، لیکن لاہور کی بادشاہی مسجد اورنگ زیب کی خدمات کی اعلی مثال ہے۔ یہ مسجد لاہور میں اورنگ زیب نے 1673 میں تعمیر کرائی تھی۔ لاہور متحدہ ہندوستان کا ایک اہم شہر تھا۔ اورنگ زیب اپنے والد شاہ جہاں کی تعمیراتی خدمات سے بھی متاثر تھا۔ بادشاہی مسجد اس کی دلیل ہے۔ یہ مسجد دہلی کی جامع مسجد سے حد درجہ مشابہت رکھتی ہے۔ اگر آپ لاہور جائیں گے تو بادشاہی مسجد کے اطراف میں بالکل قدیم دہلی جیسا ماحول ملے گا۔ آپ کو لگے گا کہ آپ دہلی میں ہی گھوم رہے ہیں۔ بادشاہی مسجد شہنشاہ محی الدین عالمگیر اورنگ زیب کی نادر ترین خدمات میں سے ایک ہے۔ زیر نظر مضمون میں بادشاہی مسجد کے ڈیزائن اور اس کی تعمیر کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ مسجد کی ساخت اور تکنیک میں وسط ایشا اور ہندوستانی تعمیر کا اشتراک شامل ہے۔ تعمیری ثقافت کی دلنشین اور جمالیات کی بہترین مثال اس مسجد میں ملتی ہے، جب کوئی قاری یہاں قرأت کرتا ہے تو صوتی بازگشت حیرت میں اضافہ کرتی ہے۔ ایک زمانے تک اس مسجد میں عالمی سطح کی قرأت کی صدا گونجتی تھی، مگر حالات اور سیاست نے اورنگ زیب کی اس مسجد نے وہی صورت حال پیدا کی ہے، جو دہلی کی جامع مسجد کی ہے۔ اورنگ زیب کی بادشاہی مسجد کو دیکھنے کے لئے سیاحوں کی ٹولی لاہور جاتی ہے اور مغل حکمرانوں کی تعمیراتی خدمات پر عش عش کرتی ہے، لیکن آج مغل دور کی عمارتیں فسطائیت کے نشانہ پر ہیں۔ دہلی کی جامع مسجد کو مندر قرار دیا جا رہا ہے، اس کے اندر مورتیاں ہونے کی بات کی جا رہی ہے۔ شکر ہے کہ بادشاہی مسجد لاہور میں ہے۔ زیر نظر مضمون بادشاہی مسجد کی فن تعمیر اور اس کے قیام و مقصد کا بھر پور احاطہ کرتا ہے۔

’بادشاہی مسجد‘ جو کہ شاہ باد شاہی مسجد Emperor’s Mosque اور King’s Mosque کے نام سے بھی معروف ہے۔ اس کی تعمیر مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے 1673 میں لاہور(پاکستان) میں کرائی تھی۔ نہایت دلکش اور شان وشوکت کی حامل یہ مسجد شہر میں منفرد سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔اس مسجد کی عمارت اتنی دلفریب ہے کہ وہ مغل دور کے طمطراقی طرز تعمیر کی جانب سے سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ اس مسجد میں 55000 نمازیوں کے ذریعہ نماز اداکرنے کی گنجائش ہے۔

اسلام آباد میں واقع فیصل مسجد کے بعد یہ پاکستان میں دوسری سب سے بڑی مسجد ہے۔ بادشاہی مسجد کا ڈیزائن دہلی میں واقع جامع مسجد سے مشابہت رکھتا ہے، جس کی تعمیر اورنگ زیب عالمگیر کے والد شہنشاہ شاہجہاں نے 1648 میں کرائی تھی۔ بادشاہی مسجد نہ صرف معروف ترین مساجد میں سے ایک ہے بلکہ یہاں پر معروف زمانہ قاری باسط (1627-1688)،جو کہ وسیع پیمانے پر شہرت یافتہ مصر نژادعالم اور قاری تھے، یہاں پر قرآن کریم کی نہایت روح پرور آواز میں قرأت کیا کرتے تھے اور دُور دراز علاقوں سے ان کی قرأت سننے کے لئے اہل ایمان یہاں آیا کرتے تھے۔ سیکریڈ ڈیسٹی نیشن (Sacred Destination) ویب سائٹ کے مطابق چھٹے مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی سرپرستی اور نگرانی میں بادشاہی مسجد تعمیر کرائی گئی تھی اور شہنشاہ اورنگ زیب کے رضائی بھائی مظفر حسین جوکہ فدائی خاں ’کو کا‘ کے نام سے بھی معروف تھے، انہیں مئی 1671 میں لاہو ر کا گورنر مقرر کیا گیا تھا جوکہ نہ صرف 1675 تک اس عہدہ پر فائز رہے تھے بلکہ وہ شہنشاہ کے توپ خانہ کے سربراہ بھی تھے کی نگرانی میں اس مسجد کی تعمیر مکمل ہو ئی تھی۔

شاہی مسجد کی تعمیر مکمل ہونے میں 1671 سے لے کر 1673 تک 2 سال لگ گئے تھے جو کہ لاہور کے لال قلعہ کے بالکل سامنے واقع ہے۔ قابل غور بات تو یہ ہے کہ اس مسجد سے مغلوں کا طرز تعمیر جھلکتا ہے۔ اس مسجد کی عمارت کی مناسبت سے قلعہ میں ایک نیا دروازہ بھی تعمیر کرایا گیا تھا، جس کو شہنشاہ کے نام پر ’’عالمگیری دروازہ‘‘ کے طور پر منسوب کیا گیا تھا۔ یہ مسجد اتنی مضبوط، وسیع اور شان دار ہے کہ دیکھنے والے محو حیرت رہ جاتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ مسجد طویل مدت تک دنیا کی سب سے بڑی مسجدوں میں شمار کی جاتی تھی۔ اس مسجد کے اندرونی حصہ میں نہ صرف استر کاری اور نقش نگاری کی گئی ہے بلکہ پلاسٹر کے رنگوں کے ساتھ ساتھ کنندہ جگہوں پر ماربل سے تزئین کاری کی گئی ہے۔ اس مسجد کے باہری حصوں کی تزئین کاری نقاشی دار پتھروں اور لال پتھروں میں کنندہ نقش ونگار میں ماربل کے ٹکڑے جڑ کر آراستہ کیا گیا ہے۔

اس مسجد کی ساخت اور تکنیک دونوں ہند-یونان، وسطی ایشا اور ہندوستانی طرز تعمیر سے اثر انداز ہیں۔ اس کا اوپری حصہ خوبصورت ترین آرائشی کنگوروں سے مرصع کیا گیا ہے، جن میں ماربل کی دھاریاں ڈالی گئی ہیں، جو کہ مسجد کے احاطہ کی جمالیات میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس مسجد میں مختلف قسم کی تعمیراتی خصوصیات ہیں، جیسے کہ طویل مربع صحن، اطراف کے گلیارے، چاروں کونوں پر واقع میناریں، نماز ادا کرنے کا قدرے اونچا اٹھا ہوا مرکزی حصہ اور صدردروازہ، جسے باب شاہی بھی کہا جاتا ہے وغیرہ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے ذریعہ تعمیر کرائی گئیں مسجدوں کا تاریخی طرز تعمیر 1673 میں تعمیر ہونے والی اس بادشاہی مسجد میں سمٹ کر آگیا ہے۔

شمال کی جانب اس مسجد کا احاطہ کرنے والی دیوار راوی ندی کے کنارے کے نزدیک تعمیر کرائی گئی تھی۔ اسی وجہ سے اس جانب دروازہ تعمیر نہیں کرایا گیا تھا چنانچہ یکسانیت برقرار رکھنے کے پیش نظر جنوب کی جانب بھی دروازہ تعمیر کرانے کا خیال ترک کر دیا گیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ دہلی میں واقع جامع مسجد کی مانندچارایوانوں والے منصوبے کو یہاں اختیار نہیں کیا گیا تھا۔ اس مسجد کی دیواریں کنکر اور چونے کے مسالے کے ساتھ بھٹے کی چھوٹی اینٹوں سے تعمیر کرائی گئی تھیں، جن کے اوپر لال پتھر لگا دئے گئے تھے۔ اسی وجہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس مسجد کی دیواریں لال پتھر سے تعمیر کرائی گئی ہیں۔

اس مسجد میں نماز کے ہال تک رسائی کرنے کے لئے جو سیڑھیاں تعمیر کرائی گئی ہیں وہ اور اس کی کرسی (Plinth)کی تعمیر میں مختلف قسم کے ماربل استعمال کئے گئے ہیں۔ نماز ادا کرنے کا ہال نہایت کشادہ ہے اور اسے سات حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ یہاں پر مضبوط ستونوں پر کندہ کاری کی شان دار محرابیں بنی ہو ئی ہیں، جن کی تزئین کاری قابل دیدہے۔ سات ہالوں میں سے تین کے ڈبل گنبد ماربل سے تیار کئے گئے ہیں، جو کہ شان دار طریقہ سے گھمائو دار ہیں جبکہ دیگر بقیہ گنبد خم خطی ہیں، جن کے مرکزی حصہ میں دھاریاں ہیں اور ان کے اوپر کی چھت ہموار ہے۔ مشرق کی جانب سامنے والے گلیارے کی چھت بھی ہموار ہے، جہاں پر کارنس کے اوپر گھمائودار بارڈر ہے۔ صحن کے اصل فرش پر بھٹے کی چھوٹی اینٹیں بچھائی گئی ہیں اور اس پر مصلح نماڈیزائن بنایا گیا ہے۔ اس مسجد میں نصب کتبہ کے مطابق مختلف حصوں کی پیمائش مندرجہ ذیل ہے:
صحن:
528.4 X 528.8 (رقبہ 278.784 مربع فٹ )جس کو اوپری اورنچلی سطح میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔

عبادت کا ہال:
275.8x 83.7 فٹ اور اونچائی 50.6 فٹ جس میں مرکزی گنبد کی اونچائی 37.3×59.4 فٹ ہے اور اس کا کل رقبہ 22.825 فٹ ہے۔

کناروں کی میناریں:
ان کا دائرہ 67فٹ ہے اور چار مرحلوں میں ان کی اونچائی 176.4 فٹ ہے۔ کل ملا کر ان میناروں میں 204سیڑھیاں ہیں۔

مرکزی گنبد:
نیچے کی جانب ا س گنبد کا دائرہ 65فٹ(عمارت پر 70.6 فٹ)کا ہے اور اونچائی 49 فٹ ہے۔ اس گنبد کا کنگرہ 24 فٹ اور اس کی اونچائی 15 فٹ ہے۔

اطراف کے گنبد:
ان گنبدوں کا دائرہ 51.6 فٹ اور اونچائی 32 فٹ(عمارت پر 54.02 فٹ )ہے، جبکہ کنگرہ 19فٹ اور گردن 9.6 فٹ اونچی ہے ۔

دروازہ:
66.7x 62.10 فٹ اونچا ہے۔ چھوٹے گنبدو محراب سمیت جن کی اونچائی 65 فٹ ہے اور چھجہ 21.6x 32.6 کی اونچائی پر ہے۔ ان کے تین اطراف کی سیڑھیوں کی تعداد 22 ہے۔

اطراف کے گلیارے:
گلیاروں کی تعداد 80 ہے، جن کی اونچائی فرش سے 23.9 فٹ ہے اور پلنتھ 2.7 فٹ کا ہے۔

مرکزی حوض:
اس کے حوض کا رقبہ 50×50 فٹ ہے اور اس کی گہرائی 3فٹ ہے(رقبہ 2500 مربع فٹ)۔

1582کے بعد اس مسجد کی مرمت ٹکڑے وار شروع کی گئی تھی، جو کہ بادشاہی مسجد اتھارٹی کی نگرانی شروع کی گئی تھی، لیکن وسیع پیمانے پر اس کی مرمت 1939-1960 کے درمیان ہوئی تھی، جس پر تقریباً 4.8 ملین روپے خرچ ہوئے تھے۔ مرمت ہونے کے بعد یہ مسجد اپنی نئی اور اصل ہئیت میں آگئی تھی۔ اس بات کی وضاحت کرنا بھی یہاں پر بر محل ہو گا کہ اس مسجد کی مرمت کا بلیو پرنٹ مرحوم آرکیٹیکٹ زین یار جنگ بہادر نے تیار کیا تھا۔ لال پتھر کا موجودہ فرش بھی اسی مدت کے درمیان تیار کیا گیا تھا۔ اسی طرح نماز ادا کرنے کے ہال میں اینٹوں اور ماربل سے تزئین کاری کی گئی تھی اور اس پر سنگ ابری کی لائنوں سے مصلح نما خاکہ بنا دیا گیا تھا۔ مسجد میں صرف دو کتبے نصب ہیں، جن میں سے ایک مسجد کے صدر دروازہ پر نصب ہے اور دوسرا کتبہ نماز ادا کرنے والے ہال میں گنبد کے نیچے نصب ہے، جس پر کلمہ طیبہ کنندہ ہے۔ علاوہ ازیں سال 2000 میں سلیم انجم قریشی کی نگرانی میں مرکزی گنبد میں ماربل کا جَڑواں کام بھی کرایا گیا تھا، جس کی وجہ سے گنبد کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گئے تھے۔

دوسری اسلامک چوٹی کانفرنس جب 22 فروری 1974 کو لاہور میں منعقد ہوئی تھی تو اس موقع پر مسلم ممالک کے 39سربراہوں نے اس میں شرکت کی تھی۔ اسی دوران انہوں نے مولانا عبد القدیر آزاد کی امامت میں نماز جمعہ بھی ادا کی تھی۔ ابھی حال ہی میں اس مسجد کے کیمپس میں ایک میوزیم قائم کر دیا گیا ہے، جس میں مغل دور اوردیگر ادوار کے دستاویزات اور نوادرات کی نمائش کی گئی ہے، جو کہ سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کر تا ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے ذریعہ تعمیر کرائی گئی یہ مسجد پاکستان میں آج بھی منفرد اہمیت کی حامل ہے۔ چنانچہ نماز کے اوقات کے علاوہ سیاح بھی یہاں پر جوق در جوق آتے ہیں۔

([email protected])

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close