Khabar Mantra
تازہ ترین خبریںمحاسبہ

اے شہر! تیرے اہل ِقلم بے ضمیر ہیں

محاسبہ…………….سید فیصل علی

بھومی پوجن کے دن کو تاریخی دن کہا جا رہا ہے وہیں سیکولر ہندوستان کے اوپر بھی اب سوالات کے بادل چھائے ہوئے ہیں، اجودھیا میں مندر تعمیر کے لئے بھومی پوجن پر کسی کو اعتراض نہیں، لیکن جس طرح 5 اگست پر زہریلی سیاست ہو رہی ہے وہ تکلیف دہ ہے، بھومی پوجن کے لئے کسی مذہبی شخصیت کے بجائے وزیراعظم کا اجودھیا جانا ملک کی سیکولر روایت کے برعکس ہے اور وزیر اعظم کا اجودھیا سے ملک کو یہ پیغام دینا کہ ایک طویل انتظار کے بعد مندر کا سپنا ساکار ہوا ہے۔ 550 سال بعد رام جنم بھومی کو آزادی ملی ہے اور اس آزادی کے لئے کئی نسلوں نے اسی طرح قربانیاں دی ہیں جس طرح جنگ آزادی کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ وزیراعظم کے اس جملے سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اب 5 اگست ہندتو کے علم برداروں کے لئے 15 اگست سے بھی زیادہ اہمیت کا دن بنا دیا جائے گا۔

آج تاریخ کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو ہیں، مندر کی جدوجہد کرنے والوں اور آزادی کی لڑائی لڑنے والوں میں تقابل ہر ذی شعور کو تشویش میں مبتلا کر رہا ہے۔ آزادی کی لڑائی ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی شانہ بشانہ لڑ ے تھے تب جا کر 15 اگست کو ملک آزاد ہوا تھا۔ مگر اب مندر کی مختصر تحریک کو 550 سالہ جدوجہد قرار دے کر نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ مودی کے ذریعہ مندر تحریک اور آزادی کی تحریک سے تقابل کے بعد ملک کے لئے قربانی دینے والوں کی اہمیت پر سوالیہ نشان کھڑا ہو چکا ہے۔ بھومی پوجن کو جس طرح تاریخی حیثیت دی جا رہی ہے وہ تشویشناک ہے۔

بلاشبہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اجودھیا میں مندر بننا طے تھا۔ آپ اسے غلط سمجھیں یا صحیح، سیاست کہیں یا سازش مگر اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مندر موومینٹ کو بھاؤنا اور آستھا سے جوڑ کر دیکھا جانے لگا۔ عدل قانون کے نزدیک آستھا اور بھاؤنا کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ مگر اس نے آستھا کے میزان پر اپنا فیصلہ سنا دیا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آج بھی متنازعہ ہے اور کئی سوالوں کے گھیرے میں ہے لیکن چونکہ مسلمانوں کا موقف رہا کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی سرخم تسلیم کریں گے۔ سو اب ہم سب نے بھرے من سے سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ سر آنکھوں پر رکھا ہے۔ اب اجودھیا میں 316 فٹ یا 3000 فٹ کا اونچا مندر بنے اس سے قطع نظر مریادا پرشوتم رام کی عظمت عالی شان مندر سے نہیں بلکہ ان کے عظیم کردار سے عبارت ہے وہ ہم سب کے لئے قابل تعظیم ہیں۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ رام کے نام پر سماج کو دو حصوں میں بانٹ دیا جائے، اس سے رام خوش ہوں گے کیا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا سیکولر ہندوستان کا ہر ہندو اس سے خوش ہے؟ بھومی پوجن کی تاریخ سے پہلے بہت سے غیر مسلم دانشور، مفکر، پروفیسر سے لے کر سیاست داں حضرات نے بھی اس عمل کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ پرزور مذمت کی اور آج بھی کر رہے ہیں کہ بھومی پوجن کے ذریعہ اس حقیقت کو پوری طرح سے بھلا دیا گیا کہ بابری مسجد شہادت کا کرمنل معاملہ آج بھی عدالت میں زیر سماعت ہے جس میں اڈوانی، جوشی جیسے کئی لیڈر ملزم ہیں اور جس فیصلے کے بل پر مندر تعمیر ہو رہا ہے اسی فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ چار باتیں بھی واضح کی ہیں کہ (۱) وہاں رام للا پرکٹ نہیں ہوئے (۲) وہاں غیر قانونی طور پر مورتیاں رکھی گئیں (۳) 1949 تک وہاں نماز ہوتی رہی مسجد غیر قانونی طور پر توڑی گئی اور سب سے اہم وضاحت یہ ہے کہ اجودھیا میں مسجد مندر توڑ کر نہیں بنائی گئی مگر اس کے باوجود گزشتہ کئی دنوں سے اخبارات اور ٹی وی کے ذریعہ جو ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے وہ کہیں نہ کہیں فیصلے کی ان نکات کو نظر انداز کرنے کی کوشش ہے۔

دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروا نند ایک ویڈیو کے ذریعہ کہتے ہیں کہ 5 اگست وہ دن ہے جس دن جموں وکشمیر کے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور ایک ریاست کی حیثیت کو سپوتاز کر دیا گیا ہے۔ 5 اگست کو بھومی پوجن محض اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ ہندو راشٹر کا استھاپنا دیوس ہے، پرتاپ بھانو مہتا جیسے دانشور انڈین ایکسپریس میں رقم طراز ہیں کہ 5 اگست کو وزیراعظم کے ذریعہ بھومی پوجن سیاسی قوتوں کے ذریعہ ہندتو کو مستحکم کرنے والا پہلا بڑا قدم ہے۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ ’’اب وہ کہیں گے کہ رام ایک قومی اور ہندو فخر کی علامت ہیں لیکن کیا رام کو ذات پات، راشٹر واد کی علامت کے ساتھ نسلی تفریق کے لئے بھی استعمال کرنا مناسب ہے، اجودھیا کا رام مندر عوام کو بانٹنے، ایک ظالم اکثریت واد کے تحت دوسروں کو ماتحت کرنے کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے‘‘۔ کچھ دانشور بھومی پوجن میں دلتوں کو نظرانداز کرنے پر بھی سوال کھڑا کر رہے ہیں ملک کا راشٹرپتی بھی ایک دلت ہے۔ اسے بھومی پوجن سے محروم رکھنا دلتوں کی توہین ہے۔ دی ٹیلی گراف، انڈین ایکسپریس سے لے کر آنند بازار پتریکا جیسے مقبول و معتبر اخبارات نے بھی 5 اگست کی بھومی پوجن پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ٹیلی گراف کہتا ہے کہ جس طرح مودی کے ذریعہ بھومی پوجن منعقد ہوا اس سے سیکولر بھارت میں راجہ رشی کا فرق ختم ہوگیا‘‘۔

ستم تو یہ ہے کہ سیکولر بھارت کے شفاف چہرے پر ہندتو کا میک اپ کرنے میں جمہوریت کا چوتھا ستون کہلانے والا میڈیا بھی پیش پیش رہا۔ بھومی پوجن سے 5 دن قبل ٹی وی چینلز مودی اور مندر میں تبدیل ہو گئے تھے۔ ایک کے بعد ایک کوئی بھی چینل لگایئے ہر سمت ایک ہی چرچہ، ایسا لگا کہ کورونا اور سیلاب سے گھرے ہندوستان میں اس کے سوا کوئی دوسرا واقعہ ہوا ہی نہیں۔ مندر موومینٹ جس کے بل بوتے پر آج بی جے پی برسر اقتدار ہے اسی پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر اڈوانی، جوشی، ونے کٹیار، سادھوی رتمبھرا اور دیگر 10-12 لوگ جو مندر تحریک کے روح رواں تھے ان کا ذکر تک نہ پی ایم نے اور نہ میڈیا نے کیا۔ بلکہ سارا کریڈٹ مودی کو دے دیا گیا. افسوس ناک بات تو یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی اس گھوڑ دوڑ میں شامل ہوگئی ہیں اور یہ کہنے کا حوصلہ نہیں دکھا پا رہی ہیں کہ بھومی پوجن کے بعد نئے بھارت کا چہرہ دنیا کے آگے سوال بن کر کھڑا ہے۔ ان کے اس عمل سے مین اسٹریم اخبارات نیوز چینل پوری طرح مودی اور مندر کے رنگ میں رنگے دکھائی دیئے۔ یہاں تک ٹی وی اینکر حضرات نے نعرے بھی لگائے۔ ایک بڑے چینل کی رپورٹر بتا رہی تھیں کہ جس طرح بھگوان رام پشپک ومان سے اجودھیا آئے ویسے ہی نریندر مودی کے آج کے پشپک ومان یعنی ہیلی کاپٹر سے اجودھیا کی دھرتی پر اترے۔ ٹی وی چینلوں نے چاپلوسی، لفاظی اور فرقہ پرستی کی انتہا کر دی، اس سے ایک بات کی وضاحت ہوگئی کہ ہندوستانی میڈیا اپنی تاریخ کی سب سے تاریک دور میں پہنچ گیا ہے، جہاں مودی کو رام سے بڑا بتایا جا رہا ہے۔

سب سے افسوسناک اور تعجب خیز منظرنامہ اور لمحۂ فکریہ ہے اس موقع پر اردو اخبارات بھی پوری طرح بی جے پی کے مندر ابھیان کے پوسٹر نظر آئے۔ کسی اردو کے جانے مانے صحافی نے بھی بھومی پوجن پر کوئی مضمون لکھنے کی جرأت نہیں کی جو اس بات کا غماز ہے کہ آج کا مسلمان کتنا بے بس، کتنا بے حس اور کتنا بزدل ہو چکا ہے۔ فکر کی بات تو یہ بھی ہے کہ کیا اجودھیا میں عالی شان مندر بنا دینے سے ملک کے مسائل کا سمادھان ہو جائیگا۔ راشٹر واد ہندتو کا افیون ملک کی اکثریت کو کب تک مدہوش رکھے گا، کب اس کی آنکھ کھلے گی، کب وہ بھارت کی عظمت کو پھر واپس لانے کی سعی کرے گا۔ کیا اہل قلم حضرات کو ملک کی فکر نو پر خطرے کا احساس ہو رہا ہے۔ بقول جون ایلیا:

ہم جو عظیم لوگ ہیں، ہم بے ضمیر ہیں
اے شہر ! تیرے اہل ِ قلم بے ضمیر ہیں

([email protected])

محاسبہ………………………………………………………………………………………سید فیصل علی

ٹیگز
اور دیکھیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close